پاکستان نے 150 افغان ٹرکوں کو بھارت میں داخلے کی اجازت کیوں دی؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
پاکستان وزارتِ خارجہ نے 150 افغان ٹرکوں کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت میں داخلے کی اجازت دے دی۔
اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کی جانب سے پاکستانی وزراتِ خارجہ سے کہا گیا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت چلنے والے ٹرک پاکستان کے مختلف بارڈر کراسنگ پر پھنس گئے ہیں۔
وزاتِ خارجہ نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیاں برادرانہ تعلقات کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ 25 اپریل سے قبل پاکستان میں داخل ہونے والے افغان ٹرکوں کو واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت میں اشیاء کی ترسیل کی اجازت دی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: نوشکی: تیل سے بھرے ٹرک میں آگ لگنے سے دھماکا، متعدد افراد جھلس گئے
افغان سفارتخانے کی جانب سے 28 اپریل 2025 کو دی گئی درخواست کے جواب میں پاکستانی وزارتِ خارجہ نے 150 افغان ٹرکوں کی فہرست متعلقہ حکام کو بھجوا دی ہے، اور اس بات کی ہدایت بھی کی ہے کہ اگر مزید کوئی افغان ٹرک پھنسے ہوئے ہوں تو ان کی تفصیلات بھی جلد فراہم کی جائیں تاکہ کارروائی کی جا سکے۔
وزارت خارجہ کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ وزارت خارجہ اِس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ یقین دہانی کروانا چاہتی ہے کہ وزارت خارجہ معزز افغان ایمبیسی کی سب سے بڑھ کر عزت کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان سفارتخانہ بھارت پاکستان ٹرک.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان سفارتخانہ بھارت پاکستان افغان ٹرکوں افغان ٹرک
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان کا فطری اتحاد
علاقائی پیچیدگیوں اور سیاسی تغیرات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے تعاون کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کو نہ صرف ایک ہمسایہ ذمہ داری بلکہ علاقائی امن کے لیے ایک تزویراتی ضرورت سمجھتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، جو مشترکہ تاریخ اور جغرافیہ میں جڑا ہوا ہے۔ یہ قدرتی وابستگیاں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دیتی ہیں۔ قدیم ادوار میں افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے برصغیر تک تجارت کے لیے قدرتی گیٹ وے کے طور پر کام کرتا رہا۔ ان تجارتی راستوں نے ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تبادلوں کو ممکن بنایا، جس سے دونوں خطوں کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم ہوا۔ پاکستان آج بھی ان تاریخی تجارتی روابط کی بحالی کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان اور افغانستان معیشت، سلامتی اور سماجی روابط کے اعتبار سے تاریخی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک میں امن دوسرے کی سلامتی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، جس سے دونوں کی تقدیریں جڑی ہوئی ہیں۔ ایک مستحکم افغانستان سرحد پار جرائم، دہشت گردی اور مہاجرین کی آمد میں کمی کو یقینی بناتا ہے، جس سے پاکستان کی سیکورٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے پاکستان افغان قیادت پر مبنی امن عمل کا پرزور حامی رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں امن تجارت، علاقائی ربط اور سرحد پار تعاون کو فروغ دیتا ہے، جو افغانستان کے لیے فائدہ مند ہے۔ پاکستان کے تعمیراتی منصوبے اور تجارتی مواقع افغانستان کی علاقائی بحالی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی علاقائی پالیسی کا بنیادی مقصد ایک پرامن، محفوظ اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان ہے۔ عالمی مفادات کی عارضی نوعیت کے برخلاف، پاکستان کی حکمت عملی دیرپا اور علاقائی امن پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2,600کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک ہی مذہب (اسلام)اور ایک جیسے نسلی پس منظر کے لوگ آباد ہیں جیسے پشتون، تاجک، اور ہزارہ۔ ان قبائلی، نسلی اور خاندانی رشتوں نے ایک انوکھا انسانی ربط پیدا کیا ہے، جو پاکستان اور افغانستان کو صرف ہمسائے نہیں بلکہ باہم جڑی ہوئی معاشرتیں بناتا ہے۔ یہ سماجی ہم آہنگی مشکل وقت میں عوامی سفارت کاری کی بنیاد بن جاتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ ہر افغان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے کابل میں کون برسرِاقتدار ہو۔ پاکستان کی پالیسی کبھی بھی افغانستان مخالف نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ باہمی فائدے کی کوشش کی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان نے خیرسگالی اور احترام پر مبنی رویہ اپنایا ہے۔ بدقسمتی سے کئی افغان حکومتیں بھارت کے اثر میں رہی ہیں، جس نے پاکستان کے خلاف بداعتمادی کو ہوا دی۔ اس بھارتی اثر و رسوخ نے پاک،افغان تعلقات کی مکمل صلاحیت کو حاصل نہیں ہونے دیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ گفت و شنید کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے افغانستان کا امن، استحکام اور ترقی۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔ پاکستان کی بے مثال فراخدلی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور طویل ترین مہاجر میزبانی میں سے ایک ہے۔
15اگست 2021ء کے بعد جب دنیا کی اکثر ریاستیں نیٹو کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو قبول کرنے میں ناکام رہیں، پاکستان نے ایک بار پھر انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی اور مزید 10لاکھ قانونی/غیر قانونی مہاجرین کو پناہ دی۔ مغربی طاقتوں کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہو سکے، لیکن پاکستان نے عالمی ذمہ داری کو وقار اور ہمدردی کے ساتھ نبھایا۔ 12 صوبوں کے لئے45 ایمبولینسز فراہم کی گئیں۔ طبی کیمپس کے ذریعے 30,000 سے زائد مفت آنکھوں کی سرجریاں کی گئیں۔ پاکستان کی طبی خدمات نے ہزاروں افغانوں کی جانیں بچائیں۔۔ چمن،سپین بولدک اور پشاور،جلال آباد ریلوے منصوبوں کے لئے پاکستان کی طرف سے فزیبلٹی مکمل کی جا چکی ہے۔۔ ان منصوبوں کا مقصد تجارت اور نقل و حرکت کو بہتر بنا کر افغانستان کو خطے کی معیشت میں شامل کرنا ہے۔ پاک-افغان تعاون فورم کے تحت کل انسانی امداد کا تخمینہ 30 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرتی آفات میں 15,000 ٹن امداد فراہم کی گئی۔
پاکستان نے ہر حال میں امداد جاری رکھی، جب دنیا کی توجہ ہٹ گئی تو بھی پاکستان نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ قندھار کے لیے ٹی وی ٹرانسمیٹر، سیکیورٹی آلات اور کمپیوٹرز، کابل کے دیہات میں 15 دیپ ویل ہینڈ پمپ ، کابل چڑیا گھر اور دہ مزنگ پارک کی بحالی قابل ذکر ہیں۔ یہ خدمات عام شہری زندگی میں بہتری، ثقافتی ورثے کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں معاون ہیں۔ پاکستان کی دہائیوں پر محیط خدمات نے اسے افغانستان کا واحد قابلِ بھروسہ اور مستقل ساتھی بنایا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے مستحکم مستقبل کی خاطر ہمیشہ دست تعاون دراز کیا ہے۔ یہ رشتہ لین دین پر مبنی نہیں بلکہ برادرانہ، آزمودہ اور مشترکہ مفادات سے منسلک ہے۔