امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت پر مسلسل دباؤ کیوں بڑھا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہیں پچھلی صدارتی مدّت کے دوران بھارت میں بی جے پی کی حکومت وزیراعظم نریندر مودی کے ذاتی دوست کے طور پر پیش کرتی تھی، اپنے اِس دوسرے عہدِ صدارت میں وہ بھارت اور بھارتی بیانیے کے مخالف سمت کھڑے نظر آتے ہیں۔
’بھارتی معیشت مردہ ہے‘گزشتہ رات صدر ٹرمپ نے ناصرف بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا بلکہ اس پر 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ ساتھ روس کے ساتھ تعلقات پر جرمانہ بھی عائد کردیا۔ اس پوری صورتحال پر ایک طرف بھارتی تجزیہ کاروں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا تو دوسری طرف اپوزیشن رہنماؤں نے اِسے حکومت کی ناکام خارجہ اور معاشی پالیسی سے تعبیر کیا اور اِس معاملے کو پارلیمنٹ میں اُٹھانے کا عندیہ بھی دیا۔
اس سے قبل اب تک ڈونلڈ ٹرمپ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرانے کے لیے اپنے ثالثی کردار کا 29 بار ذکر کرچکے ہیں اور ہر بار جب وہ ذکر کرتے ہیں تو بھارت کے اندر نریندر مودی کی حکومت پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے حکمران جماعت کو ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گزشتہ روز بھارتی قائدِ حزب اختلاف راہول گاندھی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِاعظم مودی کے اندر اگر ہمت ہے تو اس ایوان میں کھڑے ہوکر کہہ دیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں اور بھارت کے 5 طیارے نہیں گرائے گئے۔
امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کا بار بار اعادہ کرنا بھارت کے لیے نہ صرف ایک بین الاقوامی ہزیمت بن چکا ہے بلکہ اندرونِ ملک اٹھنے والے سوالات سے پریشان بھارتی حکومت بھی بیک فٹ پر دکھائی دیتی ہے۔
دوسری طرف گزشتہ روز ہی صدر ٹرمپ نے بھارت کی امریکا کے ساتھ تجارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کردیا جس کے بعد 8 جولائی کو بنیادی 10 فیصد ٹیرف پر امتناع ختم ہوگیا۔ اب امریکا کو بھارتی الیکٹرانکس مصنوعات اور جم اسٹون برآمدات پر 23 ارب ڈالر کی تجارت کا نقصان ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے یہ اقدامات کیا بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہیں اور اگر ایسا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
کیا پاکستان کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات بھارت پر دباؤ کا سبب بن رہے ہیں؟جہاں امریکی صدر ایک طرف اپنے بیانات اور ٹیرف عائد کرکے بھارت کو دباؤ میں لارہے ہیں وہیں پاکستان کے ساتھ امریکا کی بڑھتی ہوئی قربت بھی بھارت میں شدید بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔
امریکی صدر نے جہاں بھارت پر 25 فیصد ٹیرف عائد کیا وہیں پاکستان کے بارے میں ٹیرف کی شرح کا اعلان تو نہیں کیا گیا، لیکن یہ کہا گیا کہ پاک امریکا تجارت میں خاص اضافہ ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان پر ٹیرف کا نفاذ کم ہوگا۔
ساتھ ہی ساتھ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ مل کر آئل سیکٹر میں کام کرنے کا عندیہ دیا اور سرمایہ کاری کے واضح اشارے بھی دیے۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ یا امریکی حکومت کی جانب سے پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کا نام نہ لینا بھارت کے لیے ایک بہت بڑی سفارتی ناکامی تھی جس نے بھارت کے اندر امریکا بھارت اسٹریٹجک اتحاد پر کئی سوال اُٹھادیے ہیں۔
دوسری طرف داعش کے دہشتگرد شریف اللہ کی پاکستان کی جانب سے گرفتاری اور امریکا حوالگی سے دونوں ممالک کے تعلقات اب اس نوعیت پر ہیں کہ پاکستان اور امریکا اب دہشتگردی کے خلاف جنگ پر تعاون بڑھانے کے لیے بامعنی مذاکرات کرنے جارہے ہیں۔
شریف اللہ کی گرفتاری پر امریکی سینٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل مائیکل کُوریلا نے پاکستان کی تعریف کی اور حال ہی میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو صدر پاکستان کی جانب سے انہیں نشان امتیاز ملٹری دیا گیا۔ یہ واقعہ بھی بھارت میں بہت نوٹس کیا گیا اور بھارتی تجزیہ کاروں نے اس پر اپنے اضطراب کا اظہار کیا۔
اس سے قبل فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو امریکی صدر کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں دیا گیا لنچ بھی بھارتی حلقوں میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
صدر ٹرمپ کے اس دباؤ کی کچھ ممکنہ وجوہات یہ ہوسکتی ہیں
تجارتی مذاکرات کے ذریعہ دباؤٹرمپ نے کھلے الفاظ میں کہا کہ انہوں نے “trade instead of war” کا تصور پیش کیا، یعنی تجارتی انعامات یا خطرے کے طور پر تجارتی پابندیاں استعمال کرتے ہوئے تنازعے کو کم کرنے کی کوشش کی۔
صدر ٹرمپ کا نام عالمی قیادت میں زیادہ نمایاں ہواصدر ٹرمپ نے اس مداخلت کو ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کیا اور بہت سی مرتبہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے اس بحران کو کارآمد ثالثی سے ختم کیا، جس سے عالمی سطح پر ان کی قیادتی تصویر واضح ہوتی ہے۔
علاقائی توازن اور تعلقات کی حکمت عملیپاکستان کے فوجی سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کرنا اور ان کے ساتھ بات چیت کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا، تاکہ چین‑بھارت‑امریکا‑پاکستان توازن برقرار رہے۔
امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں، مائیکل کوگلمینامریکا میں ولسن سینٹر سے وابستہ جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدارت سنبھالنے کے حوالے سے بھارت کو بہت امید اور اعتماد تھا۔ بھارت کی یہ امید اور اعتماد جائز بھی تھا کیونکہ ٹرمپ کے پہلے عہد صدارت کے دوران بھارت اور امریکا کے تعلقات بہت مضبوط تھے۔ اس کے باوجود بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ٹرمپ کی افتاد طبع کے پیش نظر تعلقات خطرناک حد تک تبدیل ہوئے ہیں۔
مائیکل کوگلمین ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ بھارت کی امریکا کے ساتھ تجارت پر ٹیرف عائد کیے جانے سے بھارت امریکا تعلقات کو شدید دھچکا پہنچا ہے جو تعلقات بھارت پاکستان جنگ کے بعد سے پہلے ہی مشکلات کا شکار تھے۔ ایک تجارتی معاہدہ کرکے ان تعلقات کو درست کیا جاسکتا تھا لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ ان تعلقات کی مشکلیں بڑھ جائیں گی۔
جنہیں ٹرمپ سے امیدیں تھیں وہ مایوس ہوئے، حسین حقانیامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اور بھارت میں جن لوگوں کو صدر ٹرمپ سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں وہی سخت مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بھارت میں مودی کے پرستار اور پاکستان میں عمران خان کے چاہنے والے۔
پاک امریکا تعلقات میں تیز ترین تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، زاہد حسینبین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور کالم نگار زاہد حسین نے اپنے وی لاگ میں کہا کہ پہلے امریکی صدر اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان غیر روایتی ملاقات اور پھر وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ملاقات دونوں ملکوں کی قربت کی گواہی دیتی ہے لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی پاکستان امریکا کا قریب ترین اتحادی رہ چکا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہت خراب بھی رہے اور پچھلے 4، 5 سال کے دوران امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر بن کے سامنے آیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر اور امریکا ان کے ساتھ کی جانب سے فیصد ٹیرف ان تعلقات بھارت میں کرتے ہوئے امریکا کے اور بھارت کے درمیان ٹیرف عائد بھارت کے بھارت پر رہے ہیں ٹرمپ کے کہا کہ کی صدر کے لیے
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔