کوئٹہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)سابق وزیراعظم اور سربراہ عوام پاکستان پارٹی شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے جب تک سیاسی انتشار کو ختم نہیں کریں گے تو ملک آگے نہیں بڑھےگا۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا بلوچستان 10، 15 سالوں سے سانحات کا شکار ہے، آج بلوچستان کی شاہراہیں محفوظ نہیں، بلوچستان کی معیشت متاثر ہو رہی ہے اور نوجوان مایوس ہو رہےہیں، سوچنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں یہ معاملات کیوں ہیں؟

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی انتشار کو ختم نہیں کیا جائےگا معاملات آگے نہیں بڑھیں گے، جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی ملک کے معاملات آگے نہیں بڑھیں گے، آئین میں رہ کر وسائل کی تقسیم کرنی ہے اور معاملات کو چلانا ہے، اس سے باہر جائیں گے تو معاملات خراب ہوں گے۔

کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے 36 نئے تھانے قائم، جرائم کی روک تھام میں مدد ملے گی

انہوں نے کہا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان امیر ہو اور بلوچستان غریب رہ جائے، بلوچستان کو پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہونا چاہیے، بلوچستان کے وسائل جب تک یہاں کے نوجوانوں کو نہیں ملیں گے، امن نہیں آئے گا۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا دہشت گردی کا مقابلہ ہم پر لازم ہے لیکن یہ معاملات کیوں پیدا ہو رہےہیں اس کی جڑ تک جاناہوگا، یہ ممکن نہیں کہ بلوچستان میں لوگ اغوا ہو رہےہوں، قتل ہو رہےہوں اورملک کے معاملات درست چل رہے ہوں، عوام کو حقیقی نمائندگی اور وسائل دینے سے ہی بلوچستان کے مسائل حل ہوں گے۔

انہوں نے کہا یہ ہمارا رسمی دورہ نہیں، آج پاکستان کی ضرورت ہے کہ لوگ جانیں کہ بلوچستان کےلوگ کیاسوچ رہےہیں۔

پنجاب بھر کی جیلوں میں "سمارٹ لائیبریری" پراجیکٹ کا آغاز،1 لاکھ کتابیں پہنچا دی گئیں، قیدیوں کیلئے ضابطہ اخلاق بھی جاری

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی آگے نہیں نے کہا

پڑھیں:

سیاسی خواب،تاریخی زخم

کشمیر کامسئلہ برصغیرکے دواہم ممالک، پاکستان اوربھارت،کے درمیان ایک دیرینہ اورپیچیدہ تنازع ہے،جس پروقتاًفوقتاًعالمی قوتوں کی توجہ رہی ہے۔ان میں سرِفہرست امریکا ہے، جو کبھی ثالثی کے روپ میں،کبھی سٹرٹیجک شراکت دارکے طورپر،اورکبھی محض تماشائی کی حیثیت سے کرداراداکرتارہاہے۔یہ مقالہ اس تاریخی پس منظرکوبیان کرتاہے جس میں امریکاکی ثالثی کی پیشکشیں، پاکستانی ریاست کی توقعات،اوران کے نتائج کاگہراتجزیہ شامل ہے۔
تاریخ ایک خاموش مؤرخ ہے جوکبھی جھوٹ نہیں بولتی،بشرطیکہ اسے سننے والااہلِ فکرو دانش ہو۔جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ، بالخصوص پاکستان اوربھارت کے باہمی تنازعات کے تناظر میں،امریکی کردارایک ایساباب ہے جوبارہا امید کے سراب میں لپٹا، مایوسی کی دھندمیں گم ہوکر ابھرتا رہاہے۔یہ رپورٹ اس تاریخ کے پیچ وخم کو بیان کرتی ہے جوامریکی ثالثی ،پاکستانی توقعات، اور بھارتی مصلحتوں کے بیچ الجھی ہوئی ہے۔
تاریخ اس بات کی بھی چشم دیدگواہ ہے کہ عالمی سیاست میں کوئی مستقل دوست یادشمن نہیں ہوتا،مفادہی اصل میزان ہے۔مگراگراس کسوٹی پردنیاکی سب سے بڑی جمہوریت اور طاقتور ریاست یعنی امریکاکوپرکھاجائے،تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ امریکااپنے مفادات کے حصول کے بعدانہی دوستوں کی قربانی دینے میں دیرنہیں لگاتا جنہوں نے اس کیلئے خطرات مول لیے ہوتے ہیں۔
دنیا کی سفارتی بساط پربعض چالیں شطرنج سے بھی زیادہ مہلک اورپیچیدہ ہوتی ہیں۔جب امریکا جیساسوداگرِامن،اپنے ہاتھ میں مفادات کی ترازو تھام کرثالثی کالبادہ اوڑھتاہے ،تومظلوم کوبسا اوقات وہی کچھ ملتاہے جوذی روح کوکسی بے ضمیر تاجرکی تجویزکردہ سوداگری میں نصیب ہوتا ہے:’’چپ رہو،زمین دے دو،باقی ہم دیکھ لیں گے‘‘۔
اہلِ نظرجانتے ہیں کہ برصغیرکی تاریخ کا ہر ورق اس المناک حقیقت سے لبریزہے کہ پاکستان نے جب جب امریکاکی جانب امیدو استقامت کے چراغ جلائے،توہواکارخ یوں بدلاکہ نہ چراغ بچے نہ تیل۔ماضی کاہرسنگ میل گواہ ہے کہ ہم نے ہرمرتبہ انکل سام کے دل لبھانے کیلئے اپنا تن،من،دھن پیش کیا،اورجب صلہ مانگاتوکچھ جملہ معترضہ اورچندمشورے ہاتھ آئے۔
یادش بخیر،1962ء کی خزاں میں جب ہمالیہ کی چوٹیوں پرہندوستان اورچین کی توپیں گرج رہی تھیں،توعقل وتدبرکی بعض جگنو صفت آوازیں پاکستان کے ایوانِ اقتدارمیں یہ کہہ کر ابھریں کہ ’’اب وقت ہے،کشمیر حاصل کرنے کا‘‘، دانش مندی نے بھی بارہااکسایا کہ انڈیا اورچین کی1962ء کی جنگ پاکستان کیلئے ایک سنہری موقع تھاکہ وہ کشمیرپرکوئی فیصلہ کن قدم اٹھاسکے۔اورکئی عسکری ماہرین اورسیاسی مبصرین نے اس وقت پاکستان کی عسکری قیادت کومشورہ دیاکہ یہ وقت بھارت کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر کشمیرکی بازیابی کا ہے۔
شنیدیہ بھی ہے کہ چین کی طرف سے بھی خاموش سفارت کاری کے ذریعے اس بیش بہا قیمتی لمحات سے فائدہ اٹھانے کاپیغام بھی دیا گیا مگراس وقت خودساختہ فیلڈمارشل ایوب خان نے امریکا کی کینیڈی انتظامیہ کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے غیرجانبداری اختیارکی،یہ سوچ کرکہ کل کینیڈی ثالث بنے گا،انصاف کی میزان تھامے گااورکشمیرہمارے ہاتھ آجائے گا۔ ثالثی کرکے پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گا اور یوں ایوب خان نے ناقابل معافی فحش اورظالمانہ غلطی کرکے واشنگٹن کے وعد فرداپریقین کر تے ہوئے بندوق نیام میں ڈال دی۔مگرتاریخ نے یہ دکھایاکہ امریکانے یہ وعدہ کبھی وفانہیں کیا۔ لیکن نتیجہ؟ امریکی ثالثی ایک خواب نکلی جوآنکھ کھلتے ہی بکھرگیا۔اس طرح 1962ء کی انڈیا‘ چین جنگ کے بعدپاکستان کی بے سودامیدیں آج بھی پاکستان کے مقتدرکے ایوانوں کی نالائقیوں کانوحہ پڑھ رہی ہیں۔
1950ء کی دہائی میں پاکستان نے امریکا کے ساتھ سیٹواورسینٹوجیسے دفاعی معاہدوں میں شمولیت اختیارکی۔ان معاہدات کے تحت پاکستان کو فوجی امدادتوملی،مگریہ امدادصرف کمیونسٹ خطرات سے نبٹنے کیلئے مخصوص تھی،نہ کہ بھارت جیسے علاقائی حریف کے خلاف۔1959ء کادفاعی معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھاجس میں کمیونسٹ ممالک سے تحفظ کا وعدہ توتھامگرعملی فائدہ صفر رہا۔گویاپاکستان کیلئے امریکاکے ساتھ یہ دفاعی معاہدے ایک ایسے یکطرفہ نفع کی شکل اختیار کرگئے جس کامکمل فائدہ امریکا کے حق میں تھا۔
تاریخ اس حقیقت کی شاہدہے کہ امریکا اپنے مفادات کی تکمیل کے بعدانہی دوستوں کی قربانی دینے میں لمحہ بھرکی تاخیرنہیں کرتا جنہوں نے اس کی جنگوں اورجارحانہ عزائم کو اخلاقی ،عسکری اورسفارتی مدد فراہم کی ہوتی ہے۔ پاکستان اس تلخ تجربے سے سب سے زیادہ گزرا ہے۔1950ء کی دہائی میں سیٹواورسینٹوکے خواب دکھاکرپاکستان کوایک ایسے راستے پر گامزن کیا گیا جہاں منزل محض ایک سراب تھی۔دفاعی معاہدات کی چھتری تلے سوویت مخالف اقدامات کیلئے پاکستان کوآلہ کاربنایاگیا۔
مگرپھرجب1965ء کی جنگ میں ہم نے اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے اسلحہ اٹھایا،توامریکانے وہی مہیاکردہ ہتھیاربندکردیے۔امریکانے واضح کیا کہ فراہم کردہ دفاعی سازو سامان بھارت کے خلاف استعمال کیلئے نہیں دیاگیاتھاجبکہ1965ء کی جنگ میں امریکاسے عملی مددکی امیدکی گئی تو ہتھیاروں کی فراہمی روک کرامریکانے پاکستان کو اس غلط فہمی سے نکال دیاکہ وہ کبھی بھارت کے خلاف پاکستان کامددگارہوسکتاہے۔تاریخ نے ان سنگین لمحات کواپنے سینے میں محفوظ کرلیاہے جب پاکستان کوبتایاگیاکہ ’’یہ تمہیں کمیونسٹوں سے بچانے کیلئے دیے تھے،دہلی سے نہیں‘‘!اب یہ کوئی نئی بات تونہ تھی،مگرہماری امیدیں ہمیشہ وفاکی قاصد رہیں،بھلے وفاکا مسکن واشنگٹن کی پالیسیوں میں کبھی نہ ملا۔تاہم ایوب خان کوکینیڈی انتظامیہ نے یہ تاثرضروردیاکہ بھارت کے خلاف کوئی عسکری اقدام غیرضروری ہے،اوروہ ثالثی کا کردار سنجیدگی سے اداکریں گے۔نتیجہ؟مسئلہ وہیں کاوہیں رہا۔یہ پاکستان کیلئے ایک تلخ یاد دہانی تھی کہ وہ امریکاکے مفادات کامہرہ رہاہے،نہ کہ ایک خودمختارسٹریٹیجک حلیف۔
پھرجب1971ء کی شامِ ستم ڈھاکہ میں ڈھلی، توزخم خوردہ ریاست کونہ صرف آدھا وجود گنوانا پڑا بلکہ جنگی قیدیوں کی رہائی کی قیمت میں شملہ معاہدے کی وہ شق ماننی پڑی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیرکے حق میں منظورکردہ قراردادوں کو تاریخ کی الماری میں بند کرکے اس پردھول چڑھنے دی۔کیایہ سیاسی حکمت تھی یامجبوری کی معذرت؟تاریخ کے ہرمؤرخ کا قلم مختلف جواب دے گا،مگرہر جواب میں پاکستان کی تنہائی ضرور ہوگی اوراس میں قصوروارہمارے مقتدرافرادہی نظرآتے ہیں۔
یادرہے کہ1970ء میں یحییٰ خان نے چین اورامریکاکے تعلقات بحال کرانے میں کلیدی کرداراداکیاتھامگراس کی’’اجرت‘‘نہ کشمیر کی صورت میں ملی،نہ مشرقی پاکستان کے تحفظ کی صورت میں۔نتیجتاً1971ء کی جنگ میں نہ صرف پاکستان دولخت ہوابلکہ شملہ معاہدے کی وہ شق بھی مانی گئی جس نے اقوامِ متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں کی اہمیت ختم کردی۔بھٹوکی سفارتکاری کوعظیم کامیابی کے طورپرپیش کیا گیا مگر وقت نے بتایاکہ اصل کامیابی کاغذ پر تھی، زمینی حقائق میں نہیں۔(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • شخصیت پرستی کی قومی سیاست کا تضاد
  • ایران کا ثالثوں کو انکار، اسرائیلی جارحیت کا مکمل جواب دیے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے
  • علی امین گنڈاپور ایک بار پھر کارکنوں کو انتشار اور تشدد کی راہ دکھا رہے ہیں،امیرمقام
  • اسرائیلی حملے امریکی مدد کے بغیر ناممکن، پرامن جوہری پروگرام ہمارا حق ہے: ایران
  • چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کر چلے
  • ہمارے بغیر حکومتی بنتی ہے نہ ہی چلتی ہے، فضل الرحمان
  • جے یو آئی کے بغیر حکومتیں بنتی نہیں یا چلتی نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • ہندوتوا اور صہیونی گٹھ جوڑ ، خطے میں انتشار کی اصل وجہ!
  • سیاسی خواب،تاریخی زخم
  • اسلام آباد: وزیر ریلوے حنیف عباسی اجلاس کے دوران اسرائیل کے ایران پر حملے کی مذ مت کررہے ہیں