گرمیوں کے موسم میں فائرنگ اور پُرتشدد واقعات زیادہ رونما کیوں ہوتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر میں قتل اور پرتشدد جرائم کے واقعات سب سے زیادہ گرمیوں کے موسم میں رونما ہوتے ہیں۔
اس کی وجوہات کیا ہیں؟
1) درجہ حرارت
سب سے پہلی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ ہے۔ جب موسم گرم ہوتا ہے تو انسانی جسم میں چڑچڑا پن اور غصہ بڑھنے کا رجحان زیادہ ہوجاتا ہے۔ کچھ مطالعات کے مطابق موسمِ گرما کے دوران دماغ میں serotonin اور cortisol جیسے ہارمونز متاثر ہوتے ہیں۔ یہ ہارمونز انسانی رویوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
2) زیادہ باہر نکلنا
دوسری وجہ باہر نکلنے کی سرگرمیاں زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ گرمیوں میں لوگ زیادہ وقت باہر گزارتے ہیں (پارک، تقریبات، بازار وغیرہ)۔ ان سرگرمیوں میں لوگوں سے ٹکراؤ اور تنازعے کے امکانات بھی بڑھتے ہیں۔
3) نشہ آور چیزوں کا زیادہ استعمال:
بعض خطوں میں گرمیوں کے دوران نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھ جاتا ہے جس سے پرتشدد رویے بھی بڑھ جاتے ہیں۔
4) چھٹیوں کا موسم:
گرمیوں میں اسکولز بند ہوتے ہیں اور نوعمر اور نوجوان افراد زیادہ وقت باہر دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ یہ بعض اوقات جھگڑوں اور گینگ ایکٹیویٹی میں بدل سکتا ہے۔
سائنسی تحقیق کیا کہتی ہے؟
امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) کے مطابق، "گرم موسم اور جرائم" کے درمیان واضح تعلق پایا گیا ہے۔ امریکا میں ایف بی آئی اور دیگر جرائم کی رپورٹس کے مطابق، امریکا میں جولائی اور اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ قتل اور قاتلانہ حملوں کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتے ہیں
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔