WE News:
2025-09-18@01:14:14 GMT

سوزوکی سوئفٹ آسان اقساط پر دستیاب، قیمت کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

سوزوکی سوئفٹ آسان اقساط پر دستیاب، قیمت کیا ہے؟

یونائیٹڈ بینک لیمیٹڈ نے سوزوکی سوئفٹ گاڑی کی آسان اقساط میں خریداری ممکن بنانے کے لیے یو بی ایل ڈرائیو پروگرام متعارف کروایا ہے۔

اس پروگرام کے تحت صارفین سوزوکی سوئفٹ کی 3 اقسام آسان اقساط میں حاصل کرپائیں گے۔

سوزوکی سوئفٹ جی ایل مینویل کی گاڑی کی کل قیمت 43 لاکھ 36 ہزار ہے جسے صارفین 13 لاکھ 44 ہزار کی ڈاؤن پیمنٹ اور ایک لاکھ 2 ہزار کی ماہانہ قسط سے حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ہونڈا سی ڈی 70 اور سی جی 125 اب بینک سے آسان اقساط پر دستیاب، قیمت کیا ہے؟

اسی طرح سوزوکی سوئفٹ جی ایل (سی وی ٹی) کی قیمت 45 لاکھ 60 ہزار ہے۔ اس گاڑی کی ڈاؤن پیمنٹ 15 لاکھ 96 ہزار اور ماہانہ قسط ایک لاکھ 2 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔

علاوہ ازیں، سوزوکی سوئفٹ کی سب سے مہنگی ویریئنٹ جی ایل ایکس (سی وی ٹی) کی قیمت 47 لاکھ 19 ہزار ہے جسے یو بی ایل کے فنانس پروگرام کے تحت 17 لاکھ 46 ہزار اور ایک لاکھ 2 ہزار کی آسان ماہانہ قسط پر صارفین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پنجاب: طلبہ کو بِلا سود اور آسان اقساط پر بائیکس فراہمی کی بیلٹنگ مکمل

یو بی ایل ڈرائیو پروگرام میں صارفین کی سہولت کے لیے اپلائی اور ویریفکیشن کے عمل کو آسان رکھا گیا ہے۔ پروگرام سے استعفادہ کرنے کے خواہش مند افراد یو بی ایل کے لنک کے ذریعے اپلائی کرسکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سوزوکی سوئفٹ گاڑی یو بی ایل.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سوزوکی سوئفٹ گاڑی یو بی ایل یو بی ایل کے لیے

پڑھیں:

سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-06-7

 

 

لاہور (کامرس ڈیسک)پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری قومی معیشت کا بڑا حصہ کھیتوں سے حاصل ہونے والی اجناس، باغات کی پیداوار اور مویشی پالنے کے نظام پر منحصر ہے۔ دیہات میں بسنے والے لاکھوں خاندان اپنی روزی روٹی انہی کھیتوں سے کماتے ہیں۔ مگر حالیہ دنوں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے نہ صرف کسانوں کو بلکہ پوری زرعی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانی کے طوفان نے کھیت کھلیان بہا دیے، تیار فصلیں تباہ کر ڈالیں اور کسان کو بے بسی کے عالم میں کھڑا کر دیا۔ یہ آفت صرف ایک قدرتی حادثہ نہیں بلکہ ہمارے زرعی ڈھانچے، حکومتی پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی کمزوری کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔خیبرپختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے اس سیلابی تباہی کا آغاز ہوا۔ شدید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ اور ندی نالوں میں طغیانی نے بستیاں اجاڑ دیں اور زرعی زمینوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ صرف اسی صوبے کے 16 اضلاع میں 31 ہزار 600 ایکڑ زمین پر کھڑی فصلیں اور باغات مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ سب سے زیادہ نقصان بونیر میں ہوا جہاں 26 ہزار 141 ایکڑ پر کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ سوات، دیر لوئر اور شانگلہ میں بھی ہزاروں ایکڑ زمین زیرِ آب آ گئی۔ مکئی، چاول، سبزیاں اور پھلدار باغات وہ اجناس ہیں جن پر مقامی معیشت کا انحصار ہے، لیکن یہ سب اس سیلابی ریلے کی نذر ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف کسانوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا بلکہ مقامی منڈیوں میں اجناس کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔پنجاب، جو پاکستان کی زرعی پیداوار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہ ، اس بار سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ 21 لاکھ 25 ہزار 838 ایکڑ زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہوا۔ یہ تباہی صرف زمین یا فصلوں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے زرعی آلات، گوداموں، گھروں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی کو بھی برباد کر دیا۔ فیصل آباد ڈویڑن سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 3 لاکھ 23 ہزار 215 ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر ضائع ہو گئیں۔ اسی طرح گوجرانوالہ ڈویڑن، گجرات ڈویڑن، بہاولپور ڈویڑن، ساہیوال، ملتان ڈویڑن اور ڈی جی خان میں بالترتیب2 لاکھ 62 ہزار 862 ایکڑ، 2 لاکھ 38 ہزار 416 ایکڑ، 1 لاکھ 45 ہزار 432 ایکڑ، 1 لاکھ 37 ہزار 79 ایکڑ، 58 ہزار 439 ایکڑاور 49 ہزار 165 ایکڑفصلیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئیں۔زرعی تباہی کے ساتھ ساتھ لاکھوں مویشی بھی یا تو پانی کے ریلوں میں بہہ گئے یا خوراک کی کمی اور بیماریوں کے باعث مر گئے۔ دیہات میں کسان کی معیشت صرف فصلوں پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ مویشی اس کا دوسرا بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ دودھ، گوشت اور کھال کے ساتھ ساتھ بیل اور بھینس کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سبز چارے کی شدید قلت ہے اور کسان اپنے بچ جانے والے جانوروں کو خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ حکومت کی طرف سے ونڈے کی معمولی تقسیم ہو رہی ہے مگر اکثر یہ سہولت ضرورت مند کسان تک نہیں پہنچ پاتی۔ ایسے حالات میں مرکزی مسلم لیگ، الخدمت فاؤنڈیشن، مرکزی کسان لیگ اور دیگر مذہبی و فلاحی تنظیمیں سائیلج اور توری کی تقسیم کر رہی ہیں، مگر یہ اقدامات وقتی ہیں، مستقل حل نہیں۔درحقیت پاکستان کا کسان ہماری معیشت کی بنیاد ہے۔ اگر کسان خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ سیلاب نے کسان کو کچل کر رکھ دیا ہے، اس لیے اب یہ حکومت اور ریاست کی آئینی، اخلاقی اور معاشی ذمہ داری ہے کہ وہ کسان کو دوبارہ کھڑا ہونے کا موقع دے۔

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر میں سونے کی فی تولہ قیمت میں 2400 روپے کمی
  • پنجاب حکومت نے آسان اقساط پر پہلی بلاسود ای ٹیکسی اسکیم کا آغاز کر دیا
  • سی ایم پنجاب گرین کریڈٹ پروگرام کے تحت ای بائیکس کی رجسٹریشن میں نمایاں اضافہ
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان
  • راولپنڈی میں 24 گھنٹوں کے دوران ڈینگی کے 16 نئے کیسز سامنے آگئے
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • آئی فون 17 کی قیمت میں پاکستان میں کونسے منافع بخش کاروبار کیے جا سکتے ہیں؟
  • 3سال، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • سونے کی قیمت 3 لاکھ 90 ہزار روپے کی سطح سے بھی اوپر چلی گئی
  • سیلاب سے تباہ حال زراعت،کسان بحالی کی فوری ضرورت