ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں سے حماس نے اپیل کی ہے کہ وہ اُن عناصر کو بے نقاب کریں جو فتنہ و فساد کے منصوبوں کے پیچھے ہیں کیونکہ ایسی تمام کوششیں صرف اور صرف قابض دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے غزہ کے پُرعزم اور باوقار عوام، بالخصوص معزز خاندانوں اور قبائل کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر اپنی قومی ہم آہنگی، بلند شعور اور مثالی کردار سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ داخلی محاذ کے محافظ ہیں اور کسی بھی قسم کی بدنظمی یا سماجی شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کو ہرگز قبول نہیں کریں گے۔

حماس نے اپنے بیان میں کہا کہ عوام کا یہ باوقار اور بیدار موقف خواہ وہ صہیونی ریاست کی جانب سے مسلط کی گئی جبری ہجرت کی سازش ہو یا حالیہ دنوں میں دشمن کی ایما پر برپا کی جانے والی لوٹ مار اور چوری چکاری کی وارداتیں درحقیقت غزہ کی داخلی یکجہتی، استقامت اور دشمن کی اندرونی کمزوری پیدا کرنے کی سازش کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جب دشمن فوجی میدان میں ناکام ہو چکا تو اب وہ غزہ کو اندر سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن عوام کی ہوشیاری نے اس خواب کو بھی چکناچور کر دیا ہے۔

حماس نے ان بااثر خاندانوں اور قبائل کے کردار کو سراہا جنہوں نے قانون شکن عناصر سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی، اور سماجی سلامتی کے تحفظ کے لیے امدادی کمیٹیاں تشکیل دینے کی دعوت دی، تاکہ قابض قوت کی طرف سے پھیلائی جانے والی افراتفری اور بدامنی کو روکا جا سکے، جو کہ دشمن کے ڈرونز اور فضائی نگرانی کی آڑ میں کام کرنے والے ایجنٹوں کے ذریعے کی جا رہی ہے۔

تحریک نے قومی مزاحمت، سلامتی اداروں اور ہر محلے اور گلی کے عوام کے درمیان موجود ہم آہنگی کو سراہا، اور اسے دشمن کے خلاف ایک متحد دفاعی دیوار قرار دیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی قوم، اپنے تمام طبقوں کے ساتھ، کسی صورت غزہ کو دشمن کے تخریبی منصوبوں کے لیے ایک کھلا میدان نہیں بننے دے گی۔ آخر میں حماس نے ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں سے اپیل کی کہ وہ اُن عناصر کو بے نقاب کریں جو فتنہ و فساد کے منصوبوں کے پیچھے ہیں کیونکہ ایسی تمام کوششیں صرف اور صرف قابض دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

گریٹر اسرائیل یا نو اسرائیل کی جانب پیش رفت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

۔90 کی دہائی میں حماس کے سربراہ شیخ احمد یاسین نے پیش گوئی کی تھی کہ 2027 تک اسرائیل دنیا کے نقشے سے ختم ہوجائے گا۔ دوسری طرف اسرائیل نے اپنی پارلیمنٹ کی دیوار پر گریٹر اسرائیل کا نقشہ لگا رکھا۔ جس طرح بھارت نے اپنے یہاں اکھنڈ بھارت کا نقشہ لگایا ہوا ہے۔ گریٹر اسرائیل میں ملک شام اردن، لبنان، مصر اور سعودی عرب کا وہ حصہ جس میں مکہ مدینہ آتا ہے شامل ہیں۔ نو (no) اسرائیل پر بعد میں بات کریں گے ابھی فی الحال گریٹر اسرائیل کی جانب پیش رفت پر بات کرتے ہیں اسرائیل اپنے ناجائز قیام کے بعد ہی سے اس حدف کی طرف تدریجاً کام کررہا ہے۔ اپنے قیام کے شروع کے پندرہ برس اپنے آپ کو معاشی طور پر مستحکم کرنے پر توجہ دی اس کے لیے دنیا بھر کے یہودی سرمایہ داروں نے ایک دینی مشن کے تحت اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو نکالنے کا سلسلہ شروع کیا اس کے لیے دنیا بھر کے صہیونیوں نے فلسطینیوں سے انتہائی مہنگے داموں ان کے گھروں کو خریدنا شروع کیا، جہاں ضرورت پڑی زور زبر دستی سے بھی کام لیا۔ جیسا کہ آ ج کل بڑے بڑے یہودی سرمایہ دار یو اے ای میں اربوں روپوں کی جائدادیں خرید رہے ہیں۔ یہ بھی ان کی طویل منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اسرائیل کی سرپرستی امریکا سمیت تمام مغربی ممالک شروع سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ امریکی سامراج کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ خود اپنے دشمن تخلیق کرتی ہے، چنانچہ فلسطینیوں کے حقوق اور ایک الگ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے یاسر عرفات کو تخلیق کیا گیا۔ ہم بھی بچپن میں ہوٹلوںاور دکانوں پر ایک پوسٹر دیکھتے تھے جس میں یاسر عرفات فوجی لباس پہنے ہاتھ میں بندوق لیے اور سرپر فلسطینی رومال باندھے ہوئے فلسطینی مجاہد کے پوز میں نظر آتے۔ اس وقت ہم اسے مسلم دنیا کا ایک ہیرو سمجھتے تھے۔ شروع شروع میں کم وبیش تمام عرب ممالک فلسطینی کاز کے لیے متحرک تھے۔ لیکن خود فلسطین کے اندر حکومت اسرائیل کا رویہ فلسطینیوں سے بہت خراب تھا۔ پھر مشرق وسطیٰ میں دو بڑی جنگیں ہوئیں ایک جنگ 1967 میں ہوئی اور دوسری جنگ 1973 میں ہوئی ان دونوں جنگوں میں عرب ممالک کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
مشرق وسطیٰ ان دو بڑی جنگوں کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ بڑے عرب ممالک فلسطینی کاز سے پیچھے ہٹ گئے بس ان کی ہمدردیاں اخباری بیانات تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ بے گھر فلسطینی پناہ کی تلاش میں پڑوسی ممالک میں جانے لگے۔ ایک موقع پر اردن میں مظلوم فلسطینیوں پر فائرنگ بھی کی گئی۔ مصر، اردن اور سعودی عرب تو عملاً الگ ہوگئے زبانی کلامی حمایت جاری رکھی جو ابھی تک ہے البتہ شام، لبنان اور کسی حد تک قطر فلسطینیوں کے حقوق کے لیے زیادہ فعال نظر آنے لگے۔ یاسر عرفات کی اپنی زندگی کی کہانی بڑی طویل، دلچسپ اور کسی حد تک دردناک بھی ہے یہ ایک الگ تفصیل ہے مختصراً یہ کہ یاسر عرفات کے دور میں مختلف معاہدات ہوئے یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل نے کبھی معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ آخری معاہدے میں یہ طے ہوا کہ فلسطین کی دو ریاستیں ہوں گی ایک اسرائیل اور دوسرا آزاد فلسطینی ریاست۔ لیکن اسرائیل نے اس کو بھی معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود کبھی قبول نہیں کیا، اپنے ہی گماشتوں پر مشتمل ایک فلسطینی اتھارٹی بنادی گئی۔ ادھر عام فلسطینیوں کی بے چینی اور اضطراب نے حماس کو جنم دیا جس نے اسرائیل کے اندر خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع کیا اسرائیل اس سے بہت پریشان تھا چنانچہ اسرائیلی حکومت اس روز روز کے بم دھماکوں سے جان چھڑانے کے لیے حماس کو فلسطینی سیاست میں اسپیس دینے کا فیصلہ کیا، واضح رہے کہ یاسر عرفات کا چیپٹر بند ہوچکا تھا دوسری طرف جو فلسطینی لبنان میں شفٹ ہوئے تھے انہوں نے وہاں کی جہادی تنظیم حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف مضبوط کیا۔ ادھر حماس نے غزہ کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اس طرح وہ غزہ کے سیاسی امور پر باختیار ہوگئی اور القسام بریگیڈ نے جہادی محاذ سنبھال لیا۔ اب اسرائیل ان دو جہادی تنظیموں حماس اور حزب اللہ کی پراکسی وار کا ایک فریق بن گیا یہ راستہ اسرائیل نے خود اپنے لیے چنا کہ کسی بڑے ملک سے لڑنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور بین الاقوامی دبائو بھی رہتا ہے۔ وہ اپنے گریٹر اسرائیل کے حدف پانے کے لیے درمیان کی رکاوٹوں کو دور کررہا تھا۔
2006 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ ہوئی اس میں مشرق وسطیٰ کی تمام جہادی تنظیموں نے چاہے ان کا کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق ہو حزب اللہ کا عملاً ساتھ دیا اس میں اسرائیل کو شکست ہوئی۔ اس جنگ میں حزب اللہ کا ساتھ ایک طرف حماس نے دیا تو دوسری طرف شامی حکومت کے خلاف جو جہادی تنظیمیں متحرک تھیں انہوں نے بھی حزب اللہ کا ساتھ دیا۔ ممالک میں ایران اور شام نے بھرپور ساتھ دیا۔ اس جنگ میں اسرائیل کی شکست نے اسرائیل سے زیادہ عرب بادشاہتوں کو فکر و تشویش میں مبتلا کردیا کہ اگر متوازن طرز فکر رکھنے والی یہ تنظیمیں جن کے اندر جمہوری کلچر بھی پایا جاتا ہے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر غالب آگئیں اور عرب عوام ان کے ساتھ ہوگئے تو ان کی بادشاہتیں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ویسے تو اس جنگ میں شام اور ایران کے علاوہ تمام عرب ممالک نے ان جہادی تنظیموں کا ساتھ دیا تھا۔ شروع میں شام کے حکمرانوں کے خلاف سعودی عرب بھی شامی مجاہدین کی مدد کررہا تھا چونکہ امریکا بھی شامی حکمرانوں کے خلاف تھا اس لیے سعودی عرب کے لیے شامی مجاہدین کی عملی مدد پر امریکا کو کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کی شکست نے امریکا اور عرب ممالک سمیت مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اثر انداز ہونے والے عناصر کی سوچ کے زاویے تبدیل کردیے اب سعودی عرب نے شامی مجاہدین جن کی قیادت کی اکثریت سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل تھی سے منہ موڑ لیا۔ امریکا نے داعش اور القاعدہ جیسی انتہا پسند تنظیموں کو شامی مجاہدین پر مسلط کردیا جو شامی مجاہدین بڑے منظم انداز میں شامی حکومت کے خلاف جہاد کررہے تھے وہ تتر بتر ہوگئے کچھ داعش میں شامل ہوگئے کچھ خاموش ہوگئے کچھ فرار ہوگئے کچھ مار دیے گئے اب جو مشرق وسطیٰ میں عقیدے کی بنیادوں پر جہادی تنظیموں کا پیراڈائن تبدیل ہوا تو اس میں ایران بھی جو شروع میں شامی حکومت کا مخالف تھا اس کا حامی ہوگیا، سعودی عرب کی بھی پہلے جیسی مخالفت ختم ہوگئی جہادی تنظیموں کا اثر رسوخ نہ صرف ختم ہوگیا بلکہ داعش جیسی تنظیموں نے اپنے سخت رویوں سے جہاد کو مزید بدنام کردیا۔
مشرق وسطیٰ کی اس تبدیل شدہ سیاسی صورتحال کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو پہنچا گریٹر اسرائیل کی طرف پیش رفت میں اس کے سامنے چار اہم رکاوٹیں رہ گئیں ایک حزب اللہ دوسری حماس تیسری شامی حکمران جو آخر تک حماس کا ساتھ بھی دے رہے تھے اور انہیں پناہ بھی دے رہے تھے اور چوتھی رکاوٹ ایران۔ اکتوبر 2023 کو حماس نے جو کارروائی ڈالی اس میں اسرائیل کو موقع مل گیا کہ اب حماس کا قلع قمہ کردیا جائے سوائے قطر اور شام کے حماس کو کسی عرب ملک کی اخلاقی حمایت بھی حاصل نہیں تھی، حزب اللہ نے بھی حماس کی اس طرح پرجوش مدد نہیں کی جس طرح حماس نے 2006 میں کی تھی بس کچھ نمائشی اقدام اٹھا لیے لیکن اسرائیل نے پھر بھی حزب اللہ کو معاف نہیں کیا اور اپنی شکست کا بدلہ لے لیا کہ اس کے سربراہ حسن نصر اللہ سمیت حزب اللہ کی مرکزی قیادت کا اسی طرح صفایا کردیا جیسے اس نے تین دن قبل ایران میں اہم شخصیات اور سائنسدانوں کو قتل کیا ہے۔ ڈیڑھ برس کی مزاحمت، ساٹھ ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت، ڈیڑھ لاکھ سے زائد زخمیوں اور غزہ کے انفرا اسٹرکچر کی مکمل تباہی کے بعد حماس میں بھی اب وہ دم خم نہیں رہ گیا بس اسرائیلی مغویوں کو پکڑا ہوا ہے اور مرکزی اور اہم قیادت کے قتل کے بعد حماس کی اب جنگ کی صلاحیت شدید متاثر ہوئی ہے اس درمیان میں شام کی رجیم بھی تبدیل ہوگئی ہے اب اسرائیل کے سامنے یہ ساری رکاوٹیں ختم ہوگئیں تو اس نے ایران کو آنکھ دکھانا شروع کردیا۔ امریکا نے مذاکرات کے جال میں پھنسا کر اپنی مرضی کے معاہدے پر ایران کو جھکانا چاہا جب بات نہ بنی تو اسرائیل سے حملہ کرادیا۔
گریٹر اسرائیل تک پہنچنے میں ابھی اور بھی اہم رکاوٹیں جن کا پھر کبھی ذکر کریں گے اب دو تین سطریں نو اسرائیل کے حوالے سے شیخ احمد یاسین سے جب پوچھا گیا کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ 2027 میں اسرائیل ختم ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ اس کی بنیاد ظلم پر رکھی گئی اور اس کا ظلم بڑھتا جائے گا ظلم کی انتہا دیکھیے کہ غزہ کے بھوکے بچوں کے امدادی سامان کو اپنے قبضے میں لے کر خود اس کی تقسیم کے لیے بچوں اور خواتین کو جمع کیا جب وہ بھوکے لوگ برتن لے کر امداد لینے آئے تو ان پر بمباری کردی یہ ضلالت اسرائیل کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا لہٰذا جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور سیدنا علیؓ کا بھی قول ہے کہ کفر کی حکومت رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت نہیں رہ سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • رکن قومی اسمبلی صبحین غوری نے بجٹ کو عوام دشمن اور آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیدیا
  • گریٹر اسرائیل یا نو اسرائیل کی جانب پیش رفت
  • فتنہ الہندوستان کے مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • وفاق اور پنجاب کا بجٹ عوام دشمن، پٹرول بم سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، مشیر اطلاعات کے پی بیرسٹر سیف
  • پی ٹی آئی کو فساد سے روکتے ہیں احتجاج سے نہیں‘ عظمیٰ بخاری
  • حماس اور ایران نے اسرائیل کی بنیادیں ہلادیں،لیاقت بلوچ
  • دیوار چین سے
  • ایران اسرائیل کو صہیونی وحشیوں کے لئے جہنم بنا دے گا، اسپیکر قالیفاف
  • پریم یونین نے عوام دشمن بجٹ کو مستردکردیا
  • ایران اسرائیل کشیدگی پر فلسطینی تنظیم حماس کا ردعمل سامنے آگیا