ذہنی دباؤ کے شکار بابل خان کی بالی ووڈ و اداکاروں کے خلاف ویڈیو پر اہلخانہ کی وضاحت
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
بالی ووڈ کے معروف اداکار عرفان خان مرحوم کے بیٹے اداکار بابل خان کے انسٹاگرام اسٹوریز پر ٹوٹ پڑنے اور بالی ووڈ کو ‘جعلی انڈسٹری‘ کہنے کے چند گھنٹے بعد ان کے اہلخانہ اور ٹیم نے ایک بیان جاری کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: ’بابا میں ہار نہیں مانوں گا، آپ سے بہت پیار کرتا ہوں‘
بیان میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ویڈیو کی غلط تشریح کی گئی ہے اور یہ کہ بابل خان ایک مشکل وقت گزار رہے ہیں۔ تاہم اہل خانہ نے یہ بھی کہا کہ بابل ٹھیک ہیں اور وہ جلد مزید بہتر ہوجائیں گے۔
اہلخانہ نے اپنے بیان میں کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں بابل خان نے اپنے کام کے ساتھ ساتھ اپنے دماغی صحت کے سفر کے بارے میں کھلے اظہار پر بے پناہ محبت اور تعریف ملی ہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تمام خیر خواہوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور جلد بہتر محسوس کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بابل کی ایک ویڈیو کو غلط طور پر دیکھا گیا۔
مزید پڑھیے: بالی وڈ اداکار عرفان خان کے بعد زندگی کیسی ہے؟
مذکورہ ویڈیو میں بابل خان نے یہ کہا تھا کہ بالی ووڈ سب سے زیادہ جعلی انڈسٹری ہے جس کا کبھی میں بھی حصہ رہا ہوں لیکن بہت کم لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ بالی ووڈ بہتر ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے آپ کو بہت کچھ دکھانا ہے، میرے پاس آپ کو بتانے کے لیے بہت کچھ ہے۔
ایک اور پیغام میں بابل نے کہا تھا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ’شنایا کپور، اننیا پانڈے، ارجن کپور، سدھانت چترویدی، راگھو جویال، آدرش گورو اور ارجیت سنگھ ایسے بہت سے لوگ ہیں، بالی ووڈ بہت ظالم ہے‘۔
تاہم اہلخانہ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ بابل کی جانب سے اننیا پانڈے، شانایا کپور، سدھانت چترویدی، راگھو جوئیل، آدرش گورو، ارجن کپور، اور اریجیت سنگھ جیسے فنکاروں کا ذکر کرنے کا مقصد ان کے دل، صداقت، جذبے اور انڈسٹری میں ساکھ بحال کرنے کی کوششوں کی حقیقی تعریف کرنا تھا۔
اہلخانہ نے کہا کہ ہم احترام کے ساتھ میڈیا کی اشاعتوں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بکھرے ہوئے ویڈیو کلپس سے نتائج اخذ کرنے کے بجائے ان کے الفاظ کے مکمل سیاق و سباق پر غور کریں۔
مزید پڑھیں: مرحوم اداکار عرفان خان پردہ سیمیں پر آخری مرتبہ کب نظر آئیں گے؟
مذکورہ ویڈیو میں بابل بات کرتے ہوئے رو بھی رہے تھے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے کچھ گھنٹوں کے اندر ہی بابل خان نے اپنا انسٹاگرام اکاؤنٹ ہی ڈیلیٹ کر دیا۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بابل خان کسی ذاتی یا پیشہ ورانہ وجوہات کے سبب ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بابل خان بابل خان بالی ووڈ کے خلاف بابل خان کے اہلخانہ کا بیان عرفان خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بابل خان کے اہلخانہ کا بیان عرفان خان عرفان خان بالی ووڈ انہوں نے کہ بابل کہا کہ
پڑھیں:
امریکی معیشت کے گلے کا پھندا
اسلام ٹائمز: امریکی معیشت ایک سنگین بحران کے دہانے پر ہے، آبنائے ہرمز میں کوئی بھی کشیدگی امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے، امریکہ کے بین الاقوامی حریف پہلے ہی اس صورتحال انتظار کر رہے ہیں۔ ایران تیل کی قیمت میں 10 سے 15 ڈالر تک اضافے کا جھٹکا لگا کر تیل کی سپلائی مارکیٹ میں خلل ڈال سکتا ہے۔ یوں امریکیوں کے لیے ایران آسان ہدف نہیں ہے اور ایران کے مقابلے پر آنیوالوں کو کئی ایشوز کو مدنظر رکھنا پڑیگا۔ محمود کریمی کی خصوصی رپورٹ:
ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سائے میں آبنائے ہرمز میں جنگ کے خدشات اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ اقتصادی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ بحران امریکہ میں پٹرول کی قیمت کو 5 ڈالر فی گیلن تک پہنچا سکتا ہے اور یہ بحران امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ آبنائے ہرمز تیل کی عالمی تجارت تقریباً 30 فیصد کے لیے تزویراتی راستہ ہے، یہاں ہونیوالے فوجی تصادم سے امریکہ میں تیل اور پٹرول کی قیمتیں شدید متاثر ہوں گی۔ اب بھی کچھ امریکی ریاستوں میں پٹرول تقریباً 5 ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔
قیمتوں میں اضافے کا مطلب امریکی گھرانوں پر براہ راست مالی دباؤ ہے۔ یہ دباؤ جو عوامی بے چینی اور حکومت کے لیے سنگین سیاسی چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ افراط زر اس بحران کے براہ راست نتائج میں سے ایک ہے۔ نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ قدرتی طور پر سازوسامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ فیڈرل ریزرو کے مطابق خوراک کی قیمت میں 15 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ صرتحال لوگوں کی قوت خرید میں کمی کے ساتھ، نجی کھپت کو متاثر کرے گی۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پیش گوئی کی ہے کہ امریکی جی ڈی پی کی شرح نمو 0.5 فیصد تک گر سکتی ہے جو معاشی کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ایندھن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کم آمدنی والے گھرانوں پر اضافی دباؤ ڈالیں گے۔ مثال کے طور پر اگر ایندھن کی لاگت میں 30% اضافہ ہوتا ہے تو ماہانہ 3000 ڈالر کمانے والا خاندان ایندھن کے لیے 450 ڈالر مزید ادا کر یگا۔ یہ صورتحال لوگوں طرز زندگی میں تبدیلی اور غیر ضروری سفر کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ الیکٹرک کاروں کی فروخت میں بھی 25 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ کاروباری اداروں پر بھی نمایاں طور پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ مقامی ریستورانوں اور اسٹورز کو گاہکوں میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ان میں سے بہت سے دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں سماجی عدم استحکام اور عوامی عدم اطمینان کا امکان زیادہ ہو جائیگا۔
اس جنگ کے بین الاقوامی اثرات عالمی سپلائی چین میں خلل اور اشیا کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس وقت جب امریکی سرکاری قرض 36 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، امریکی حکومت اپنی معیشت پر مزید دباؤ ڈالے بغیر جنگ کی مالی اعانت کرنے سے قاصر ہے۔ اسرائیل کی مالی معاونت کی صورت میں زیادہ اخراجات، ٹیکسوں میں اضافے، عوامی خدمات جیسے تعلیم اور صحت میں کٹوتیوں کا امکان عوامی بے چینی کو بڑھا سکتا ہے۔ اس بحران کیوجہ سے امریکہ کو مزید سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑھتی ہوئی قیمتیں اور معاشی نمو میں کمی "جمود" کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ صورتحال امریکی معاشرے کے متوسط اور نچلے طبقے پر مزید دباؤ ڈالے گی اور شرح سود میں اضافے کا باعث بنے گی، کیونکہ عام آدمی کے لئے یہ ایک غیر اعلانیہ ٹیکس ہوگا۔ اس کے علاوہ، حالیہ چین امریکہ تجارتی جنگ کا تجربہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا معاشی دباؤ امریکی حکام کے اس جنگ میں نہ آنے کے فیصلوں کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس صورتحال میں ریپبلکن پارٹی کے اندر بھی جنگ میں اترنے کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مذکورہ اقتصادی حقائق اور داخلی دباؤ امریکی فیصلہ سازوں کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے اور مغربی ایشیا میں ایک اور جنگ میں داخل ہونے سے روکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
پہلے ہی امریکی معیشت ایک سنگین بحران کے دہانے پر ہے، آبنائے ہرمز میں کوئی بھی کشیدگی امریکی معیشت کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے، امریکہ کے بین الاقوامی حریف پہلے ہی اس صورتحال انتظار کر رہے ہیں۔ ایران تیل کی قیمت میں 10 سے 15 ڈالر تک اضافے کا جھٹکا لگا کر تیل کی سپلائی مارکیٹ میں خلل ڈال سکتا ہے۔ یوں امریکیوں کے لیے ایران آسان ہدف نہیں ہے اور ایران کے مقابلے پر آنیوالوں کو کئی ایشوز کو مدنظر رکھنا پڑیگا۔