Daily Ausaf:
2025-08-08@06:35:41 GMT

دھڑکتے دلوں کاعہد۔۔۔اتحادکی صدا

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
ایران وپاکستان،اس وقت مزاحمت کے پرچم بردارہیں۔تاہم اس تاریکی میں بھی ایک چراغ روشن ہے ،تہران واسلام آبادکااتحاد۔ایران، جوصہیونی جارحیت کے خلاف برہنہ تلواربنا کھڑا ہے اور پاکستان، جوآبی دہشت گردی کانشانہ بن رہاہے،آج مشترکہ دکھ اورمشترکہ دشمن کے خلاف صف آراہیں۔ ان کا اتحاد مفادکانہیں،ایمان کاہے۔یہ انکارِظلم کا عہدہے۔یہ کربلا کا ورثہ ہے جہاں خون،خنجرسے شکست نہیں کھاتا،بلکہ تاریخ میں اپنامقام بناتاہے۔
وقت آچکاہے کہ ہم صرف مرثیے نہ لکھیں،ہم صرف ماتم نہ کریں،بلکہ ہم تاریخ کارخ بدلنے کے لئے دانش،تدبراوروحدت کے ہتھیاروں سےلیس ہوں۔ ایک سوال،جوتاریخ پوچھے گی،کل جب مورخ قلم اٹھائے گا وہ یہ سوال ضرورلکھے گا:جب دنیاایٹمی آگ کے دہانے پر تھی، تو کیااہلِ دانش،اہلِ قلم،اہلِ اقتدارخاموش تماشائی بنے رہے؟
آج ایٹم کی دہلیزپرسیاست کارقص ہورہاہے جب مودی کی جمہوریت،تباہی کاانتخاب کرے تو اس کولگام ڈالنےکے لئے اقوام عالم کی امن پسندقوتوں کو اٹھناہوگا۔آج ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔ ہمیں دشمن کی جارحیت کوصرف ردکرنے کی بجائے ایک فکری، سفارتی اورتہذیبی محاذ پرشکست دینی ہے۔ہمیں دکھانا ہے کہ برصغیرکی جنگ نہ ہندوتوا جیت سکتی ہے،نہ بم بلکہ صرف امن،عقل،اور اتحادہی اس خطے کی تقدیررقم کرسکتے ہیں۔
آج بھی وقت ہمارے ہاتھ سے مکمل طورپرنکل نہیں گیا۔ابھی مہلت باقی ہے کہ دنیاکی آوازیں یکجاہو جائیں،کہ صحافت،شاعری اور سفارت،مل کر جنگ کی آگ پرپانی ڈالیں۔
تاریخ صرف وہ واقعات یادنہیں رکھتی جو ہوئے؛وہ خاموشیاں بھی یادرکھتی ہے،جنہوں نے ظلم کوجنم دیا۔آئیں،خاموشی توڑیں۔ نہ نفرت سے،بلکہ شعور سے۔ نہ جنگ سے،بلکہ وقار سے۔
تاریخ کی دہلیزپر،ایک لمحہ اختیارکاصدیوں پربھاری ہوتاہے۔کہیں ایسانہ ہوکہ کل کی نسلیں ہم سے سوال کریں کہ ’’جب دنیاجلنے لگی،تم کہاں تھے؟‘‘ اے ملتِ اسلامیہ!جاگنے کاوقت آپہنچا ہے، امتِ مصطفی کے نام ایک پکارہے،ایک چیخ ہے،ایک فریادہے،اک سوال ہے کہ جب کعبہ کی چھاؤں میں اذان گونجی تھی،توقیصرو کسریٰ کے ایوان لرزے تھے اور آج، انہی ایوانوں کے وارث پاکستان،ایران، ترکی اور افغانستان غفلت کی دھندمیں گم،اپنی اپنی فصیلوں کے اندردشمنوں کے خنجرگنتے ہیں۔ اے خاکِ حجازکی خوشبوکے امینو!دشمن تمہاری سرزمین کوزرخیزنہیں،بلکہ بے حس دیکھناچاہتا ہے۔ مودی،نیتن یاہواورٹرمپ تین سائے،تین سامری،تین فتنے آج تمہارے دریا، تمہارے پہاڑ،تمہاری دانش، تمہاری غیرت،سب کچھ چھین لینے کی سازش میں مصروف ہیں۔
پاکستان کے ایٹمی اثاثے ان کی آنکھ کا کانٹا ہیں۔ایران کاخوددارسائنسدان ان کے میزائلوں کا نشانہ ہے۔ترکی کی خودمختارپالیسی ان کے مفادات کے لئےخطرہ ہے۔افغانستان کا جغرافیہ انکی بندوق کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ون ورلڈآرڈر ،صیہونی طاقت اورسامراجی زنجیریں صرف ایک مقصد؟ایک ایساشیطانی خواب،جس میں نہ اذان ہو،نہ افطار،نہ آزادیِ فکر،نہ غیرتِ عمل،صرف سودی نظام۔یادرکھو!اگرآج بھی ہم نےاخوتِ اسلامی کا پرچم بلندنہ کیاتوکل ہمارے مساجد ومدارس، ہمارے مدرسے ومزار،سب خاک کا حصہ بن جائیں گے۔وہ دن دورنہیں کہ حرم کی دیواریں بھی قرض کے عوض گروی رکھی جائیں گی، اورقبلہ اول کاسایہ،صرف تصویروں میں باقی رہ جائے گا۔
مسلمانو!اب وقت ہے کہ تم زبان، نسل، فرقہ،اورمسلک کے تمام پردے چاک کرکے ایک پرچم تلے جمع ہوجاؤ،وہ پرچم جوبدرکے میدان میں بلند ہوا تھا، وہ پرچم جس نے کربلا میں سرکٹواکربھی گرنے نہ دیا۔ آغازپاکستان،ایران،افغانستان اورترکی سے کرو۔یہ چار ستون، اگر ایک مرکزپرجمع ہوجائیں تو ان سے ایک ایسی اسلامی شوری بن سکتی ہے جونہ صرف اپنی قوموں کادفاع کرسکتی ہے،بلکہ امتِ مسلمہ کے باقی ٹکڑوں کوبھی جوڑسکتی ہے۔چین اورروس،اس سازش سے آگاہ ہیں۔عرب دنیا،اگرچہ خوفزدہ ہے،لیکن اس کے دل میں بھی سچ کی دھڑکن باقی ہے۔ان کااعتمادتب بحال ہوگاجب انہیں دکھائی دے گاکہ کوئی اٹھا ہے، کوئی بولاہے،کوئی آگے بڑھاہے۔ آؤ،ایک نئی صبح کی بنیادرکھو،ایک ایسی صبح جہاں نہ’’مسلم‘‘ایرانی ہونہ پاکستانی،نہ ترک،نہ افغانی ہو،بلکہ صرف امت محمدیﷺہو۔ کیاتمہیں وہ دن یادہے جب تم نے لبیک اللہم لبیک کہاتھا؟آج وقت ہے کہ اس لبیک کوعمل میں ڈھالو،اپنے ایٹم سے نہیں،اپنے ایمان سے ڈرائو۔اپنے تیل سےنہیں، اپنے اتحادسے طاقت دکھاؤ۔اپنے وطن کی نہیں،امت کی سرحدیں بچاؤ۔ خداکی قسم!اگرتم نے اخلاص سے قدم اٹھایا توفرشتے تمہاری صفوں میں اتریں گے،آسمان تمہارے نعرے سن لے گا،اورزمین تمہاری غیرت سے جگمگااٹھے گی۔پاکستان،ایران، افغانستان اورترکی،تم ہی ہووہ چارچراغ،جن سے پھرسے روشنی ممکن ہے۔اٹھو!کیونکہ اب بھی وقت ہے،قبل اس کے کہ تاریخ تمہارے ماتھے پرغلامی کاداغ ثبت کرے۔غورسے سنو،امتِ مسلمہ کے بکھرے ستاروں کوایک کہکشاں بنانے کی صداگونج رہی ہے۔اب وقت ہے کہ ہم دشمن کے ہنستے چہروں کے پیچھے چھپی سازشوں کوپہچانیں۔
اے وہ مسلمانوجن کے اجدادنے اندلس کے ساحلوں پراذانیں بلند کیں،اے وہ وارثانِ اسلام!جن کی تلوارنے قیصروکسریٰ کے تاج روند ڈالے،آج تم کہاں ہو؟کہاں چھپ گئے،وہ لہوجواحداورصفین میں بہے؟تمہیں نیند کیسے آتی ہے جب غزہ کی بیٹیاں دوپٹے کے بغیردفن ہوتی ہیں؟تم کیسے خاموش ہوجب کشمیری بچے ماں کے آغوش میں لاش بن جاتے ہیں؟دشمن نے تمہیں قومیت کے رنگوں میں الجھا کردین کے تاج سے محروم کیا۔تمہیں شیعہ وسنی،فارسی وعربی،ترک وافغان کے خانوں میں بانٹ کر تمہاری ’’امت‘‘کوخاک کردیا۔آج دشمن کے ہاتھ میں میڈیا ہے، معیشت ہے،اسلحہ ہے،اورتمہارے ہاتھ میں صرف بے حسی، انتشار،اورباہمی نفرت۔ مودی،نیتن یاہو اور ان کے سرپرست سامراجی ایوانیہ وہ شیاطین ہیں جو خلافتِ عثمانیہ کے ملبے پرجشن مناتے آئے،اوراب نئی صدی میں پاکستان،افغانستان،ایران اورترکی کی قوت کومٹی میں ملانےکی تدبیریں کررہے ہیں۔ پاکستان کا قصوریہ ہے کہ وہ ایٹمی طاقت ہے۔افغانستان کی خطایہ ہے کہ وہ غیرت کاآخری قلعہ ہے۔ایران کاجرم یہ ہے کہ وہ جھکتا نہیں۔ترکی کاگناہ یہ ہے کہ وہ خلافت کاوارث ہے۔ انہیں علم ہے کہ اگریہ چارقوتیں ایک ہوگئیں،توان کے ون ورلڈآرڈرکی بنیادیں لرزجائیں گی۔ کیاتمہیں معلوم ہے؟ اب ’’تلوار‘‘ میزائل کی شکل میں نہیں،اتحادکی حکمت میں ہے۔اب جنگ ’’بارود‘‘سے نہیں،بیانیے سے جیتی جاتی ہے اور بیانیہ وہی غالب آتاہے جس میں حق،اخلاق، شجاعت اوربصیرت ہو۔اگرہم صرف نمازکی صف میں کندھے سے کندھا ملاسکتے ہیں، توسیاست،معیشت ،سائنس، ٹیکنالوجی، سفارت اورعسکری حکمت میں کیوں نہیں؟امت کے سرپرایک قیادت کیوں نہیں؟او آئی سی کے اجلاسوں سے آگے کب قدم بڑھے گا؟
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: وقت ہے

پڑھیں:

عمر صرف ایک عدد: 96 سالہ بزرگ نے جم جوائن کر لی

کشمیر جیسے خطے میں، جہاں سرد موسم، سیاسی کشیدگی اور محدود وسائل عوامی صحت و طرزِ زندگی پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں، وہیں 96 سالہ غلام حسن بھٹ کا جم جوائن کرنا صرف ایک ذاتی قدم نہیں، بلکہ ایک علامتی اور متاثر کن پیغام ہے۔ یہ عمل نہ صرف ضعیف العمری میں صحت مند طرزِ زندگی کو فروغ دیتا ہے، بلکہ کشمیری نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے بھی ایک مثبت تحریک ہے کہ عمر صرف ایک عدد ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیان کے علاقے ٹُکرو گاؤں سے تعلق رکھنے والے غلام حسن بھٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر عزم ہو تو کسی بھی عمر میں جسمانی فٹنس کو اپنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ایک مقامی  جم جوائن کیا اور روزانہ کی بنیاد پر باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں۔ وہ مکمل ورزش کا لباس پہنتے ہیں، اعتماد کے ساتھ نوجوانوں کے درمیان ایک جیسی جسمانی مشقیں کرتے ہیں اور جسمانی سرگرمی کو اپنی روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بنا چکے ہیں۔
ایسے وقت میں جب بڑھاپے کو اکثر کمزوری اور خاموشی کا مترادف سمجھا جاتا ہے، غلام حسن بھٹ نے اپنے طرزِ عمل سے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ فعال بڑھاپا (Active Aging) ہی خوشحال زندگی کی کنجی ہے۔ یہ رجحان دنیا بھر میں مقبول ہوتا جا رہا ہے، جہاں بزرگ افراد اپنی صحت و فٹنس کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور زندگی کو بھرپور انداز میں جینے کا انتخاب کر رہے ہیں۔
غلام حسن بھٹ کی کہانی صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک **حوصلہ افزا پیغام** ہے — نہ صرف بزرگوں کے لیے، بلکہ ان نوجوانوں کے لیے بھی جو معمولی تھکن یا مصروفیات کے باعث ورزش سے دور ہو جاتے ہیں۔

 

Post Views: 9

متعلقہ مضامین

  • عمر صرف ایک عدد: 96 سالہ بزرگ نے جم جوائن کر لی
  • قدرت جابر و سفاک نہیں بلکہ غفلت میں ہم ڈوبے ہیں
  • دیار غیر میں اوورسیز پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سفیر پاکستان ڈاکٹر ظفر اقبال
  • لاہور آرمی میوزیم پاکستان کی تاریخ کا مجسم، غلامی کی زنجیروں سے آزادی کی صبح کا ہر منظر
  • ائیر ایران کی پہلی پرواز کل کوئٹہ پہنچ جائیگی، علی رضا رجائی
  • لاکھوں دلوں پر راج کرنیوالی اداکارہ نادرہ کو دنیا سے رخصت ہوئے 30 برس بیت گئے
  • رنگ، دھاگے اور خوابوں کے سہارے
  • 5 اگست نہ صرف کشمیر بلکہ پوری قوم کیلئے سیاہ دن ہے، محبوبہ مفتی
  • چینی بحران کی وجہ اسکینڈل نہیں بلکہ موسمیاتی تبدیلی ہے،کوآرڈینیٹر وزیراعظم رانا احسان افضل
  • زائرین کی آواز۔۔۔۔کراچی سے ریمدان تک عوامی کاررواں