پاکستانی شہدا کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی، اس وقت 57 افراد زخمی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
راولپنڈی ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 07 مئی 2025ء ) ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہدا کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی، اس وقت 57 افراد زخمی ہیں، الحمدللہ افواج پاکستان کی کوئی شہادت نہیں ہوئی، ایئرفورس کے کسی طیارے کو بھی نقصان نہیں پہنچا۔ تفصیلات کے مطابق بدھ کی شب کو پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حملوں کے بعد لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کے باعث شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستانی شہدا کی تعداد بڑھ کر 31 ہو گئی اور اس وقت 57 افراد زخمی ہیں، بھارت کے بزدلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، انہوں نے کہا کہ معصوم شہریوں کے ناحق خون کے آخری قطرے تک کا مکمل حساب لیا جائیگا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن کم ظرف، بزدل ہے جس نے چھپ کر معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، معصوم بچوں نے اپنی زندگی کی بہاریں ابھی دیکھنی تھیں، کیا یہ ہیں وہ دہشت گرد جن کو بھارت نے نشانہ بنایا؟ یہ دہشت گردی نہیں توکیا ہے؟۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ گزشتہ رات مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور قرآن پاک شہید کیے گئے، بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا کہاں کی بہادری ہے، دنیا میں وہ کون سا مذہب ہے جو عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دیتا ہے؟۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیا، بھارت اپنی پراکیسز کے ذریعے دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے، انہوں نے کہا کہ پاک فضائیہ نے بروقت بھارتی جدید طیاروں کو زمین کی دھول چٹائی، پاکستان کی بہادر ایئرفورس نے 3 رافیل سمیت 5 جہاز مار گرائے، بھارت کے 7 ڈرونز کو بھی تباہ کیا ہے، پاک فوج نے جوابی کارروائی میں صرف ملٹری اہداف کو نشانہ بنایا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ایل اوسی پر جوابی کارروائی میں متعدد بھارتی چیک پوسٹوں کو تباہ کیا گیا، بھارتی چیک پوسٹوں سے بلااشتعال گولہ باری اورفائرنگ کی جا رہی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ الحمدللہ افواج پاکستان کی کوئی شہادت نہیں ہوئی، ایئرفورس کے کسی طیارے کو بھی نقصان نہیں پہنچا، انہوں نے کہا کہ بھارتی حملے کے وقت 57 بین الاقوامی فلائٹس پاکستانی فضائی حدود میں تھیں، بھارت نے سیکڑوں مسافروں کی جانیں خطرے میں ڈالیں، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مسلح افواج کو بھارتی جارحیت کا جواب دینے کا اختیار دیدیا گیا، قوم کو اپنی بہادرافواج پر فخر ہے، ہماری امن کی شدید خواہش کو کبھی بھی کمزوری نہ سمجھا جائے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ کو نشانہ بنایا کی تعداد
پڑھیں:
بلوچستان: بم دھماکوں میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک، متعدد زخمی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2025ء) حکام نے بتایا کہ پہلا حملہ بلوچستان کے ضلع تربت میں ہوا جب ایک خودکش بمبار نے اپنی گاڑی کو سکیورٹی قافلے سے ٹکرا دیا۔ ایک پولیس اہلکار الٰہی بخش کے مطابق اس حملے میں دو سکیورٹی اہلکار ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔
ایک سرکاری منتظم امتیاز علی نے بتایا کہ اس کے چند ہی گھنٹے بعد افغان سرحد کے قریب جنوب مغربی شہر چمن میں ایک اور کار بم دھماکہ ہوا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔
کسی گروپ نے ان حملوں کی فوری طور پر ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن شبہ پاکستانی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں پر کیا جا رہا ہے، جو صوبے میں اکثر سکیورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
یہ تازہ حملہ اس واقعے کے دو ہفتے بعد ہوا جب ایک خودکش بمبار نے کوئٹہ شہر کے قریب ایک اسٹیڈیم کے باہر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جب ایک قوم پرست جماعت کے حامی جلسے سے نکل رہے تھے۔
(جاری ہے)
اس حملے میں 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان حملوں کے بارے میں ہم اور کیا جانتے ہیں؟حکام کے مطابق چمن میں ہونے والا دھماکہ شام کے وقت پاک افغان سرحد کے قریب ایک مصروف ٹیکسی اسٹینڈ پر ہوا، جس میں چار افراد موقع پر ہی ہلاک اور دو زخمی ہو گئے۔ بعد ازاں زخمی بھی دم توڑ گئے، جس سے ہلاکتوں کی تعداد چھ ہو گئی۔
اسسٹنٹ کمشنر چمن، امتیاز بلوچ نے بتایا کہ دھماکہ عارضی دکانوں کے قریب ہوا۔
پولیس اور لیویز فورس موقع پر پہنچیں اور لاشوں اور زخمیوں کو ضلعی اسپتال منتقل کیا۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکے سے لاشیں مسخ ہو گئی تھیں اور جسمانی اعضا ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسی اسٹینڈ کی دکانوں کے باہر دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔
ایک علیحدہ واقعے میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے قلات ڈویژن کے علاقے منگوچر میں دستی بم حملے اور فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد، جن میں دو فرنٹیئر کور اہلکار بھی شامل ہیں، زخمی ہوگئے۔
حملوں کی مذمتوزیراعظم ہاؤس کے پریس ونگ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے ’’پاک افغان سرحد کے قریب چمن میں کار پارکنگ ایریا میں ہونے والے بم دھماکے میں چھ قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔‘‘
انہوں نے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کر کے انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں شرپسندی پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی وخوشحالی کے دشمن ہیں لیکن حکومت شرپسندوں کے مذموم مقاصد کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔
دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہپاکستان میں حالیہ برسوں میں عسکریت پسندانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جن میں زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پاکستانی طالبان، جسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کہا جاتا ہے، نے قبول کی ہے۔
یہ گروہ افغان طالبان سے الگ ہے لیکن ان کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔کالعدم بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر علیحدگی پسند گروہ بھی اکثر بلوچستان میں حملے کرتے ہیں۔ یہ صوبہ طویل عرصے سے بغاوت کا مرکز رہا ہے، جہاں علیحدگی پسند مرکزی حکومت سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں اس سال کئی سنگین حملے ہوئے۔ مارچ میں کالعدم بی ایل اے نے ایک مسافر ریل گاڑی کو ہائی جیک کر لیا تھا۔ مئی میں خضدار میں ایک اسکول بس کو خودکش بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا، جس میں متعدد بچے جان سے گئے۔
ادارت: صلاح الدین زین