Express News:
2025-06-23@21:36:32 GMT

پاکستان مخالف بھارتی مہم جوئی اور ممکنہ مضمرات

اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT

بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں پہل کر کے جو قدم اٹھایا ہے وہ متوقع تھا۔کیونکہ پاکستان سمیت عالمی دنیا میں اس خدشے کا ہی اظہار کیا جا رہا تھا کہ بھارت پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان پر کسی نہ کسی شکل میں حملہ کرے گا۔

یہ منطق اس لیے بھی سمجھ آتی ہے کہ بھارت نے پہلگام واقعہ کے چند منٹ بعد ہی پاکستان پر اس واقعہ کا براہ راست الزام لگایا اور جس طرح سے بھارتی میڈیا کی مدد سے اس نے پاکستان کے خلاف جنگی جنون کا ماحول پیدا کیا وہ ظاہر کرتا تھا کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی ایک طے شدہ اسکرپٹ کا حصہ تھی۔پاکستان سمیت عالمی دنیا نے بار بار پہلگام واقعہ کی بنیاد پر پاکستان پر لگائے گا الزامات کے بھارت سے ثبوت مانگے لیکن بھارت یہ ثبوت پیش کرنے میں تاحال ناکام ثابت ہوا ہے۔لیکن مودی حکومت نے اس حالیہ حملے کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر بھارت میں پاکستان دشمنی اور مسلم دشمنی کا کارڈ کھیلا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان بطور ریاست بھارت میں ہونے والی دہشت گردی میں عملی طور پر ملوث ہے۔

بھارت نے اس جنگ میں پہل کرکے جس طرح سے سویلین آبادی کو نشانہ بنایا ہے وہ بھی ایک بزدلانہ کارروائی ہی کے زمرے میں آتا ہے اور اس جنگی جارحیت میں31پاکستانی شہید اور 57کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔

یہ سوال بھارت سے ضرور بنتا ہے کہ اگر اس کے پاس پاکستان کے خلاف پہلگام واقعہ میں ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے تو کیوں داخلی اور خارجی سطح پر انھیں پیش کرنے سے گریز کیا گیا۔پاکستان اپنے اس موقف پر قائم رہا کہ وہ کسی بھی سطح پر بھارت کے خلاف جنگ میںکسی بھی جنگی عمل میں پہل نہیں کرے گا۔پاکستان نے اب تک جو کچھ کیا وہ اپنے دفاع میں کیا ہے اور اس کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا گیا ہے۔

حالانکہ پاکستان نے پہلگام واقعہ پر بھارت کو تحقیقات پر تعاون کرنے کا بھی یقین دلایا تھا مگر بھارت نے تحقیقات سے قبل ہی پاکستان پر حملہ کر کے ثابت کیا ہے کہ اس کا پاکستان پر حملہ طے شدہ پالیسی کا حصہ تھا۔بھارت میں نریندر مودی کی حکومت آر ایس ایس کی حمایت سے جو ہندواتہ کا کارڈ سیکولر سیاست کے مقابلے میں کھیل رہی ہے اس نے بھارت کو داخلی طور پر بہت زیادہ تقسیم کر دیا ہے۔نریندرمودی حکومت پاکستان مخالفت میں مذہب کارڈ کو اپنے حق میں ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

یہ بات پیش نظر رہے کہ نریندر مودی کی اس وقت کی موجودہ حکومت دو تہائی اکثریت کی بنیاد پر نہیں بنی بلکہ انھیں اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنانی پڑی ہے۔اس لیے بھی نریندر مودی سمجھتے ہیں کہ اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے اور اس میں مزید طاقت دینے کے لیے انھیں مذہبی کارڈ سمیت پاکستان مخالفت کا کارڈ لازمی کھیلنا ہوگا۔

اس حالیہ حملے سے نریندر مودی نے بھارتی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم نے پاکستان سے بدلہ لے لیا ہے اور ہم کسی قسم کی سمجھوتے کی سیاست کا شکار نہیں ہوئے۔ویسے بھی جو جنگی جنون مودی حکومت نے پیدا کر دیا تھا اس ماحول میں پاکستان پر حملہ کرنا بھارت کی سیاسی مجبوری بن گیا تھا۔اگرچہ بھارت کے داخلی محاذ پر نریندر مودی کی حکومت پر سخت تنقید ہو رہی ہے اور تنقیدکرنے والوں کے بقول پہلگام واقعہ خود بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔لیکن اب نریندر مودی کی حکومت نے اپنے اوپر ہونے والی اس تنقید کو پاکستان کی مخالفت میں تبدیل کر دیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے امکانات اور زیادہ بڑھیں گے۔

حالانکہ بھارت کو جو بھی عملا تحفظات تھے ان پر پاکستان سے دو طرفہ بات چیت ہی مسئلے کا حل تھا۔جنگیں مسائل کا حل نہیں دو ملکوں کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود مسائل میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ میں پہل کر کے نہ صرف شدت پسندی انتہا پسندی یا جارحیت کو فروغ دیا ہے بلکہ دو طرفہ بات چیت کے امکانات کو بھی اور زیادہ محدود یا کمزور کر دیا ہے۔

بھارت کا پاکستان پر حملہ نہ صرف سیاسی طور پر کمزور تھا بلکہ انتظامی اور قانونی طور پر بھی اس کی پوزیشن کافی کمزور تھی۔ بھارت نے اس حملے کی مدد کے ساتھ عالمی باڈرز کے قوانین کی بھی خلاف ورز ی کی ہے۔ اگرچہ پاکستان بھارت کے خلاف جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کا رویہ نہ صرف بہت محتاط ہے بلکہ وہ دو طرفہ جنگ سے اب بھی گریز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔پاکستان اب بھی عالمی برادری سے بشمول امریکا چین سمیت دیگر ملکوں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ بھارتی جارحیت پر بھارت کے خلاف اقدام کریں۔کیونکہ بھارت کا یہ جنگی اقدام نہ صرف پاکستان اور بھارت کے لیے خطرہ ہے بلکہ مجموعی طور پر اس پورے خطے کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے کا سبب بن رہا ہے۔

یہ خطرات محض علاقائی سیاست تک محدود نہیں ہے بلکہ عالمی دنیا بھی اس جنگ سے اپنے آپ کو علیحدہ نہیں کر سکے گی۔یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک بڑی سیاسی تقسیم کے باوجود سیاسی جماعتوں و مختلف طبقات سمیت عوام نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت سمیت فوج کی مکمل حمایت کی ہے اور ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے تمام تر اختلافات کو بھلا کر بھارتی جارحیت میں ایک ہونے کا ثبوت دیا ہے۔اسی طرح عالمی دنیا جس انداز میں بھارت کی جارحیت پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہی ہے وہ خود بھارت کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ اس کے اس جنگی جنون نے اسے عالمی دنیا میں بھی سیاسی تنہائی کا شکار کیا ہے۔بھارت نے جو پروپیگنڈا پاکستان کے خلاف جاری کیا ہوا ہے اسے عالمی میڈیا بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور وہ بھارت کی مہم جوئی پر مختلف نوعیت کے تنقیدی سوالات کو اٹھا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان پر حملہ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کی پہلگام واقعہ کے خلاف جنگ عالمی دنیا بھارت میں کہ بھارت بھارت کے ہے بلکہ میں پہل کیا ہے دیا ہے کر دیا ہے اور

پڑھیں:

بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کی صورتحال کے بعد بھارت عالمی سیاست میں نہ صرف سیاسی مشکلات کا شکار ہوا ہے بلکہ اسے کئی محاذ پر سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ بھارت کے بارے میں موجود ایک عالمی تصور جو اس کی علاقائی سیاست میں برتری کے پہلو کے طور پر موجود تھا وہ کمزور ثابت ہوا ہے۔

اسی طرح خطے کی سیاست میں تن تنہا بھارت کی برتری بھی ٹوٹی اور پاکستان نے خود کو علاقائی سیاست میں نہ صرف اپنی سیاسی بلکہ دفاعی اہمیت کو بھی منوایا ہے۔

عالمی دنیا کے میڈیا، تھنک ٹینک یا بڑے سیاسی طاقت ور ممالک میں بھی پاکستان کی اہمیت اور بھارت کے مقابلے میں برتری کے پہلو نے بھارت کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا ہے۔کیونکہ اب بڑی طاقتیں پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طور پر خطہ کی سیاست کے بڑے فریق کے طور پر دیکھ رہی ہے اور یہ بات بھارت کے لیے قبول کرنا آسان کام نہیں ہے۔

بھارت کی سفارت کاری میں پاکستان کو عالمی دنیا میں سیاسی تنہائی میں مبتلا کرنا، دہشت گردوں کے سیاسی سرپرست کے طور پر پیش کرنا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں شامل رکھ کر دباؤ کو بڑھانا، بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنا یا پراکسی جنگ کو برقرار رکھنا،افغانستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا، پاکستان سے بات چیت کے تمام دروازے بند رکھنا اس کی سیاسی اور سفارت کاری کی حکمت عملی کا حصہ تھا۔بھارت اس خطہ میں اپنی بالادستی کو قبول کرانے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا ہے مگر حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور اس سے جڑے نتائج نے بھارت کی تمام حکمت عملیوں کو ناکامیوں سے دوچار کیا ہے اور اب وہ سر جوڑ کر بیٹھ گیا ہے کہ اس سیاسی اور سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کے لیے وہ کیا نئی حکمت عملی اختیار کرے۔

بھارت کی حالیہ مشکلات میں ایک اضافہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کیا ہے ۔اول، ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول حالیہ پاکستان و بھارت جنگ بندی میں ان کا کلیدی کردار تھا اور ایسا انھوں نے بھارت کے کہنے پر کیا اور تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیا، اگرچہ اس پر بھارت مسلسل انکاری ہے۔

دوئم ، امریکی صدر نے کشمیر کو دونوں ملکوں کے درمیان اہم مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ اس کے حل کے بغیر دونوں ممالک میں تعلقات بہتر نہیں ہوسکیں گے۔امریکی صدر نے کشمیر کے مسئلہ کے حل میں خود کو ایک بڑے ثالث کے طور پر پیش کیا ۔امریکا کا یہ طرز عمل بھارت کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکہ ہے اور اسی وجہ سے وہ مسلسل کشمیر کے مسئلہ پر امریکی مداخلت یا ثالثی سے انکاری ہے۔امریکی صدر کے اس طرز عمل نے جہاں ایک طرف کشمیر کی اہمیت کو نئی عالمی حیثیت دی ہے وہیں پاکستان کے لیے سفارت کاری کے محاذ پر نئے امکانات پیدا کیے ہیں۔

اسی طرح حالیہ دنوں میں بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کو دہشت گردی اور مالیاتی مدد کے تناظرمیں گرے لسٹ میں شامل کرنے کی جو عملی طور پر کوشش کی اس پر بھی اس کو سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔  بھارت نے پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان کو اس دہشت گردی میں ملوث کرنے کی جو کوشش کی اسے بھی عالمی سطح پر کوئی قبولیت نہیں مل سکی۔

نریندر مودی کی اس جنگی مہم جو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس پر ان کو اپنی داخلی سیاست اور حزب اختلاف سے سخت تنقید کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ بھارت کو نریندر مودی کی وجہ سے دنیا میں سیاسی تنہائی اور شکست کے احساس کا سامنا ہے۔

ان کے بقول نریندر مودی کا یہ عمل دہلی کی برسوں سے جو جاری سفارتی کوششیں تھیں اسے الٹ دیا ہے جس کی مدد سے بھارت نے حالیہ کچھ دہائیوں میں خود کو پاکستان سے مختلف اور بہتر طور پر خود کو دکھانے کی کوشش کی تھی۔بھارت میں نریندر مودی کے مخالفین کے بقول مودی اور ٹرمپ کی مشہور قربت یا کیمسٹری کے باوجود پاکستان اور بھارت کو مشترکہ طورپر جوڑنا نئی دہلی کے لیے ایک بڑا سفارتی جھٹکا ہے۔کیونکہ بھارت نے خود کو پاکستان سے ایک بڑی طاقت کے طور پر عالمی دنیا میں پیش کیا تھا وہ بری طرح اسکرپٹ ناکام ہوا ہے۔

پاکستان کے فوجی سربراہ اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا حالیہ دورہ اور وہاں ان کی امریکی صدر سے ون ٹو ون اہم ملاقات اور پاکستان کی سیاسی پزیرائی کے ساتھ ساتھ امریکی صدر کی پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اور ان کے حالیہ کردار کی تعریف نے بھی بھارت کو کافی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

بھارت کے میڈیا میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور بھارت کے سیاسی بیانیہ کی زیادہ پزیرائی کا نہ ہونا اور امریکی صدر کی طرف سے بھارت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی نے بھارت کی پریشانی میں مسلسل اضافہ کردیا ہے اور اب بھارت یہ سوچنے پر مجبور ہوا ہے کہ وہ ایسا کیا کچھ نیا کرے جو اس کے پرانے اور طاقت ور تشخص کو بحال کرنے میں مدد دے۔

کیونکہ ایسے لگتا ہے کہ نریندر مودی نے جو سیاسی توقعات پاکستان کے تناظر میں بھارت کے حق میں امریکی صدر ٹرمپ سے لگائی تھیں اس پر ان کو بڑی ناکامی کا سامنا ہے اور اب بھارت کے سیاسی پنڈت مودی کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اب ان کو امریکی صدر سے زیادہ توقعات نہیں لگانی چاہیے کیونکہ مودی کا مقدمہ ہار چکا ہے۔

بھارت پر اب امریکا سمیت عالمی دنیا کی طرف سے یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کرے ،مذاکرات کا راستہ اختیارکرے اور کشمیر کا بھی پرامن حل تلاش کیا جائے۔ یہ سب کچھ بھارت کے اس ایجنڈے کے خلاف ہے جو وہ پاکستان کو خطہ کی سیاست میں تنہا کرنے کو اپنی ترجیحات کا حصہ سمجھتا تھا۔

بھارت نے اپنی سفارتی بحالی اور اپنے پاکستان مخالف بیانیہ کی کامیابی کے لیے جو مختلف پارلیمانی سمیت دیگر وفود عالمی دنیا میں بھیجے اس کا بھی ابھی تک کوئی بہتر نتیجہ نہیں نکل سکا۔کیونکہ جس طرح سے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور جنگی جارحیت میں جو پہل کی اسے عالمی دنیا میں قبول نہیں کیا گیا۔

بھارت کے لوگوں میں یہ احساس نمایاں ہوا ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی برتری کا سیاسی نعرہ اپنی افادیت کھوچکا ہے اور پاکستان ایک نئی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے۔اب بھارت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ پاکستان کو ایک بار پھر کیسے بیک فٹ پر لے جاکر خود کو دوبارہ فرنٹ فٹ پر لاسکے۔

اگر بھارت نے عالمی دنیا میں اپنی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو اسے پاکستان سے اپنے تعلقات کی بحالی پر بھی زور دینا ہوگا اور اس کے لیے اس کے پاس مذاکرات کے سوا کوئی اور سیاسی آپشن نہیں ہے۔ بھارت کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان بھی ایک سیاسی اور دفاعی حقیقت ہے ۔ جنگوں پر سرمایہ کاری کرنے کے بجائے دونوں ممالک کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ حقیقی مسائل پر توجہ دیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو بہتر کریں، اسی میں دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی سفارت کاری میں سیاسی تنہائی
  • پاکستان نے بھارت کیلیے فضائی حدود کی بندش میں توسیع کردی
  • آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
  • اسرائیلی جارحیت سے خطے اور عالمی امن کو خطرات لاحق ہیں، اسحاق ڈار
  • بھارتی وزیر داخلہ کا پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ بحال کرنے سے انکار
  • مودی سرکار کی ایک اور ناکامی، خودساختہ جنگی کارنامے عالمی سطح پر مسترد
  • پاکستان سے سندھ طاس معاہدہ کبھی بحال نہیں کریں گے: بھارتی وزیر داخلہ
  • مودی سرکار کی ایک اور ناکامی؛ خودساختہ جنگی کارنامے عالمی سطح پر مسترد
  • بھارتی دعوے غلط، جنگ بندی کی درخواست نہیں کی تھی: دفتر خارجہ
  • انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ، بھارتی بلے بازوں نے کون سے نئے ریکارڈز اپنے نام کرلیے؟