ہمایوں سعید اور فہد مصطفیٰ مودی پر برس پڑے
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
ہمایوں سعید اور فہد مصطفیٰ نے بھارتی جنگی جنون پر دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ ہم متحد اور مضبوط ہیں۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے دو بڑے ستارے ہمایوں سعید اور فہد مصطفیٰ نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پہلگام میں جھوٹے فالس فلیگ آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی جنگی صورتِ حال پر شدید ردعمل دیتے ہوئے دشمن کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
بھارت گزشتہ دو دنوں سے پاکستان پر حملے کر رہا ہے، جس کے بعد ملک بھر کی مشہور شخصیات وطن سے اظہارِ یکجہتی کر رہی ہیں۔
دونوں فنکار نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے بھارتی حکومت کے جنگی جنون، تشدد اور مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔
ہمایوں سعید نے کہا کہ یہ انتہائی شرمناک عمل ہے، بھارت جان بوجھ کر سیاسی مقاصد کےلیے جنگ چھیڑتا ہے، ہمارے بےگناہ لوگ شہید ہوئے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں، میں اپنی فوج کو سلام پیش کرتا ہوں، جو ہماری حفاظت کر رہی ہے، میں شہادت کا درجہ پانے والوں کے ساتھ ہوں، اللّٰہ پاکستان کو سلامت رکھے، ہم ایک قوم کی طرح متحد ہیں، انشاءاللّٰہ اب ہم پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔
ہمایوں سعید نے بعدازاں انسٹاگرام پر بھی بھارت کے جنگی جنون اور خون ریزی پر تنقیدی پوسٹ شیئر کی۔
ادھر فہد مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ہم جذباتی ہیں اور اگر اب متحد نہ ہوئے تو کب ہوں گے؟ میں سوچ رہا تھا بھارت کے مسلمانوں کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی، جب راتوں رات مساجد پر حملے کیے گئے؟ یہ بزدلانہ حرکت ہے، دونوں طرف کے عوام محبت کرنے والے ہیں، مگر بھارتی حکومت جنگی جنون میں مبتلا ہے، پہلگام واقعے پر ہم نے تحقیقات کی پیشکش کی، مگر انہوں نے جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ان کے اداکار اور مشہور شخصیات پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، مگر ہم نے کبھی ان کے خلاف ایسا رویہ نہیں اپنایا، میں سوچتا ہوں بھارت کے مسلمان آج ضرور پچھتا رہے ہوں گے کہ وہ وہاں کے شہری کیوں ہیں۔
دونوں فنکاروں کا کہنا کہ پاکستانی قوم ہر مشکل میں متحد ہو جاتی ہے اور یہی ہماری اصل طاقت ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ہمایوں سعید فہد مصطفی جنگی جنون
پڑھیں:
پنجاب وائلڈلائف ایکٹ میں ترامیم، جنگی حیات کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ
پنجاب میں جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار، خرید و فروخت یا کسی بھی طرح کے نقصان پہنچانے والوں کے خلاف اب سخت کارروائی کی جائے گی۔
نئے قانون کے تحت نہ صرف شکار شدہ جانور یا پرندے کا محکمانہ معاوضہ ادا کرنا ہوگا بلکہ شکار کے دوران استعمال ہونے والی گاڑی، موٹر سائیکل، اسلحہ یا دیگر آلات پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
تاہم ماہرینِ جنگلی حیات نے وائلڈ لائف ایکٹ میں کی گئی حالیہ ترامیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ان تبدیلیوں سے تحفظِ جنگلی حیات کے بجائے نقصان کا اندیشہ ہے۔
ماہر جنگلی حیات اور سابق اعزازی گیم وارڈن بدر منیر نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور سیکرٹری وائلڈ لائف تحفظِ فطرت کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، لیکن محکمانہ بیوروکریسی ایکٹ میں ایسی ترامیم لا رہی ہے جو وزیرِاعلیٰ کے وژن کو متاثر کر سکتی ہیں۔
ان کے مطابق نیا قانون صرف اختیارات اور جرمانوں تک محدود ہے، جبکہ جنگلی حیات کی فلاح، افزائشِ نسل اور قدرتی ماحولیاتی نظام کے تحفظ کے لیے کوئی واضح منصوبہ شامل نہیں ہے۔
بدر منیر نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شکاری گاڑی پر رائفل کے ذریعے ایک تیتر کا غیر قانونی شکار کرے تو اسے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، مگر اگر کوئی شخص جال لگا کر درجنوں تیتر پکڑے تو اسے صرف چند ہزار روپے جرمانہ دینا پڑے گا۔
ان کے مطابق اس غیر منصفانہ فرق سے تجارتی شکار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جو پہلے ہی جنگلی حیات کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
انہوں نے وائلڈ لائف ایکٹ 1974 میں اعزازی گیم وارڈن کا عہدہ ختم کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اعزازی گیم وارڈن محکمہ، مقامی برادری اور شکاری تنظیموں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ تھے، جو رضاکارانہ طور پر نگرانی کرتے اور جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرتے تھے۔ اب اس نظام کے خاتمے سے فیلڈ میں عوامی شمولیت کمزور ہو جائے گی۔
دوسری جانب ایڈیشنل چیف وائلڈ لائف رینجرز پنجاب سید کامران بخاری نے وضاحت کی کہ ترمیم شدہ قانون کا مقصد صرف مالی جرمانے نہیں بلکہ ان سرگرمیوں کا مکمل خاتمہ ہے جو برسوں سے جنگلی حیات کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ ان کے مطابق ماضی میں جرمانے اتنے کم تھے کہ شکاری انہیں ادا کر کے دوبارہ انہی کارروائیوں میں ملوث ہو جاتے تھے۔
کامران بخاری کے مطابق اب غیر قانونی شکار کے مرتکب افراد کو 10 ہزار سے 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوسکتا ہے، چاہے وہ پیدل شکار کریں یا گاڑی استعمال کریں۔ شکار کے دوران استعمال ہونے والی تمام اشیاء جیسے گاڑی، موٹر سائیکل، بندوق یا جال مالِ مقدمہ کے طور پر ضبط کی جائیں گی۔ جرمانے کی رقم ان اشیاء کی طے شدہ ویلیو کے مطابق ہوگی: گاڑی کا جرمانہ 5 لاکھ روپے، موٹر سائیکل کا ایک لاکھ، سائیکل کا 25 ہزار، جبکہ ملکی یا غیر ملکی اسلحے کے لیے الگ جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب وائلڈ لائف افسران کو ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کے تحت وہ تمام اختیارات حاصل ہیں جو کسی عام پولیس افسر کے پاس ہوتے ہیں۔ اس کے بعد محکمہ پولیس پر انحصار کیے بغیر خود کارروائی کر سکے گا۔
وائلڈ لائف افسران کو ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار بھی دے دیا گیا ہے، جو آن لائن بھی درج کی جا سکے گی۔ ملزمان کو اب پولیس تھانوں کے بجائے وائلڈ لائف پروٹیکشن سنٹرز میں رکھا جائے گا۔
سید کامران بخاری کے مطابق اگرچہ وائلڈ لائف ایکٹ 1974 سے اعزازی گیم وارڈن کا عہدہ ختم کیا گیا ہے، مگر وائلڈ لائف پروٹیکٹڈ ایریا رولز 2022 کے تحت یہ نظام تین سطحوں پر برقرار رہے گا: ایک صوبائی سطح پر، ایک ہر وائلڈ لائف ریجن میں، اور ایک ہر پروٹیکٹڈ ایریا میں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ، جس کی سربراہی وزیرِمحکمہ کرتی ہیں اور جس میں ماہرین بھی شامل ہیں، ایک بااختیار ادارہ ہے۔ کوئی بھی فیصلہ بورڈ کی منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ان کے مطابق نگرانی کا موجودہ نظام پہلے سے زیادہ مؤثر اور مضبوط بنایا گیا ہے۔