ٹرمپ کا نیا اعلان: چین سے درآمدی اشیاء پر 80 فیصد ٹیرف کی حمایت
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
جنیوا / واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر 80 فیصد ٹیرف لگانے کی حمایت کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شرح "درست محسوس ہوتی ہے"، حالانکہ اس وقت چین پر عائد ٹیرف کی شرح 145 فیصد ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور چین کے اعلیٰ سطحی حکام جنیوا، سوئٹزرلینڈ میں اہم تجارتی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ مذاکرات کا مقصد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کو ختم کرنا ہے۔
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ اور چیف تجارتی مذاکرات کار جیمیسن گریر، چین کے اقتصادی سربراہ ہی لیفنگ سے ملاقات کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق چین کی جانب سے ایک اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار بھی مذاکرات میں شریک ہوگا، جس سے فینٹانائل منشیات کی اسمگلنگ کے مسئلے کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا: “چین کو اپنی مارکیٹ امریکا کے لیے کھولنی چاہیے! بند مارکیٹیں اب کام نہیں کرتیں! 80 فیصد ٹیرف بالکل درست ہے!”
چینی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدامات کو "غیر منصفانہ اور دھونس پر مبنی اقتصادی حکمت عملی" قرار دیا ہے۔ چین پہلے ہی کئی امریکی مصنوعات پر 125 فیصد تک جوابی ٹیرف عائد کرچکا ہے اور نایاب معدنیات کی برآمدات پر پابندیاں بھی لگا چکا ہے، جو امریکی ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعت کے لیے اہم ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں معمولی کمی ہوئی جبکہ ڈالر بھی دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں کمزور ہوا۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ٹیرف سے امریکی صارفین پر مہنگائی کا بوجھ پڑے گا اور معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے نائب صدر گائے پارملن، جو مذاکرات کے میزبان بھی ہیں، نے کہا: ’’یہ پہلے ہی ایک کامیابی ہے کہ دونوں ممالک بات کر رہے ہیں۔ اگر کوئی روڈ میپ طے پا گیا تو کشیدگی میں کمی ممکن ہے۔”
انہوں نے ممکنہ طور پر ٹیرف کو مذاکرات کے دوران عارضی طور پر معطل کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مسلم لیگ (ق) کا 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت اور قومی مفاہمت کےلیے حکومت کے ساتھ تعاون کا اعلان
مسلم لیگ (ق) نے 27ویں آئینی ترمیم کی حمایت اور قومی مفاہمت کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر چوہدری سالک حسین نے کہا ہے کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم ملک میں آئینی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور قومی ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے ہمیشہ قومی مفاہمت اور اداروں کی مضبوطی کو ترجیح دی ہے، اسی جذبے کے تحت مسلم لیگ حکومت کے ساتھ آئینی اصلاحات کے عمل میں بھرپور تعاون کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ کی سینڑل ورکنگ کمیٹی کا مشاورتی اجلاس سنئیر نائب صدر چوہدری سالک حسین کی صدرات میں منعقد ہوا ،اجلاس میں سیکرٹری جنرل طارق حسن، چیف آرگنائزرڈاکٹر محمد امجد، مرکزی سیکرٹری اطلاعات مصطفیٰ ملک، رکن قومی اسمبلی مسز فرخ خان، سنئیر راہنماوں ڈاکٹر رحیم اعوان، رضوان صادق خان، انیلہ چوہدری، مہرین ملک، عاطف مغل، چوہدری جہانگیر،عظام چوہدری،مونا بخاری اور دیگر راینماوں نے شرکت کی۔
اجلاس میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم اور موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
پارٹی کے سنئیر نائب صدر چوہدری سالک حسین نے 27ویں آئینی ترمیم اور وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے سے پارٹی کو اعتماد میں لیا۔
چوہدری سالک حسین نے اجلاس کو بتایا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت ترمیم کے حوالے سے مکمل رابطے میں تھی، گزشتہ روز وزیراعظم میاں شہباز شریف سے مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی سے ملاقات کی اور 27ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اعتماد میں لیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مصطفیٰ ملک نے بتایا کہ پارٹی راہنماوں نے ترمیم کے حوالے حکومتی حمایت کی توثیق کی، مسلم لیگ نے آئینی ترمیم میں بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے اور ایجوکیشن کو فیڈرل سبجیکٹ قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
مسلم لیگ نے اٹھارویں ترمیم میں بھی تعلیمی نظام کو صوبوں کے حوالے کرنے کی مخالفت کی تھی اور اس سلسلے میں پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت پر سنیٹر ایس ایم ظفر مرحوم نے اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا۔
مسلم لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ ستاسویں آئینی ترمیم سے آئینی اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی، مسلم لیگ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی ہدایت پر قومی مفاہمت اور اداروں کی مضبوطی کے لیے حکومت کا مکمل ساتھ دے گی۔
مصطفیٰ ملک نے بتایا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے مسلم لیگ پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری شافع حسین پنجاب کے صدر ملک ثمین خان، خیبرپختونخواہ کے صدر انتخاب خان، سندھ کے صدر سرائے نیاز خاصخیلی، گلگت بلتستان کے صدر دلفراز خان،جنرل سیکرٹری بلوچستان ڈاکٹر رفیع اللہ کو بھی پارٹی فیصلے سے آگاہ کیا گیا اور ان سے مشاورت کی گئی۔