Daily Mumtaz:
2025-07-06@22:09:17 GMT

کیا اقرا کنول واقعی اریب پرویز سے زیادہ کماتی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

کیا اقرا کنول واقعی اریب پرویز سے زیادہ کماتی ہیں؟

معروف پاکستانی یوٹیوبر اور ڈیجیٹل کنٹینٹ کریئیٹر اقرا کنول نے شوہر سے زیادہ کمائی  کے حوالے سے ہونے والے دعوؤں پر خاموشی توڑ دی۔

اقرا کنول نے اپنے شوہر اریب پرویز کے ہمراہ نادر علی کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں دونوں نے پہلی بار اریب کی آمدنی اور شادی سے متعلق پیدا ہونے والی افواہوں پر کھل کر گفتگو کی۔

یوٹیوب پر پانچ ملین سے زیادہ سبسکرائبرز  رکھنے والی اقرا کنول  نے بتایا کہ ان کی شادی کے وقت سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اریب کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ،‘جب میری شادی ہو رہی تھی تو اکثر لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اریب مجھ سے میرے مالی وسائل کی وجہ سے رشتہ قائم کر رہا ہے۔ آج بھی کچھ افراد کا یہی تاثر ہے کہ وہ خود کچھ نہیں کماتے، حالانکہ حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔‘

اریب پرویز نے بھی اس حوالے سے وضاحت پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک ٹی وی چینل سے کیا تھا، جہاں مجھے 1 لاکھ 80 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ بعد ازاں میں نے وہاں سے استعفیٰ دے کر اپنا کاروبار شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال میرا بنیادی ذریعہ آمدن کرپٹو کرنسی ہے۔ اس کے علاوہ میں نے یوٹیوبر ڈکی بھائی کے ساتھ مل کر ایک ریسٹورنٹ بھی بنایا جس کی مکمل نگرانی خود کرتا ہوں۔ الحمدللہ، اللہ کا خاص کرم اور والدین کی دعائیں میرے ساتھ ہیں۔

اقرا کنول نے مالی معاملات کے حوالے س  کہا کہ ہم نے کبھی مالی معاملات کو اپنے رشتے پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ ہر فرد کو اپنے مالی فیصلے خود کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی آمدنی اپنی مرضی سے استعمال کرتی ہوں، جبکہ اریب گھریلو اخراجات کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔

Post Views: 6.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: اقرا کنول کہا کہ

پڑھیں:

مالی سال 2024-25 کے تجارت خارجہ کے اعداد و شمار

معیشت کا اہم ترین شعبہ تجارت خارجہ جو واضح کرتا ہے کہ قوم کی محنت ، صنعت کی رفتار اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کیا ایکسپورٹ کیا اور اپنی ضرورتوں کے لیے، صنعتوں کے لیے کبھی مشینری کی صورت کبھی موبائل فون کی صورت میں کیا امپورٹ کیا ہے۔ سال بھر ہم کوشش کرتے رہے، لیکن تصویر الجھی ہوئی برآمد ہوئی اور درآمدات کا پلہ بھاری رہا۔ کیونکہ ہم چاول بیچتے رہے اور موبائل خریدتے رہے۔

پہلے کپاس بیچتے رہے تھے اب گزشتہ مالی سال کے دوران اربوں ڈالر کی کپاس خریدتے رہے۔ ادھر ٹیکسٹائل کی سست روی، چینی کی کم پیداوار یا بلاوجہ برآمدات اور اب رواں مالی سال میں 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کر کے تجارتی خسارے میں بے بہا اضافہ کر لیں گے۔ سال گزشتہ برآمدات نے محض 4.57 فی صد کا اضافہ ظاہر کیا ہے۔ معیشت نے بھیانک رخ اختیار کر لیا ہے، اب صنعتکار پیداواری جھنجھٹوں کو پالنے کے بجائے وہ امپورٹ کو سہل سمجھ کر وہ کئی شے امپورٹ کر رہا ہے۔ اس طرح درآمدات میں 6.57 فی صد کا اضافہ محسوس ہوا۔

برآمدات کا حجم 32 ارب 10 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کا تھا اور اس سے گزشتہ سے پیوستہ مالی سال برآمدات کا حجم 30 ارب 67 کروڑ50 لاکھ ڈالرز کا تھا۔ اس طرح محض 4.67 فی صد کا اضافہ اگرچہ مایوسی میں روشنی کی ایک کرن ہی سہی مگر درآمدات کا بڑھتا ہوا حجم اس کرن کو پھر اندھیرے میں جھونک دیتا ہے۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مالی سال کی کل درآمدات 58 ارب 38 کروڑ ڈالر رہیں اور اس سے بھی گزشتہ مالی سال 2023-24 کی کل برآمدات 54 ارب 77 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کے باعث 6.57 فی صد کا اگرچہ معمولی مگر درحقیقت بھاری بھرکم اضافہ محسوس ہوا۔ یعنی ہم ایسے عالمی بازار میں جا پہنچے جہاں ہماری اشیا کی قیمت کم لگی اور جو بھی شے ہم نے خریدی اس کے بڑھتے ہوئے دام لگائے گئے، اس طرح تجارتی خسارے میں 9 فی صد کا اضافہ ہوا اور یہ خسارہ اگر ہم محسوس کریں تو حکمت عملی، صنعتی پالیسی اور معاشی وژن کا خسارہ ہے۔ اس طرح ہم مستقل ترقی کی راہ پر ابھی گامزن نہ ہو سکے، البتہ Import led Growth کی نشان دہی ہو رہی ہے۔

ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے، امپورٹ کرتے ہوئے لاجسٹک اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں، انشورنس چارجز میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک میں بجلی، گیس کے نرخ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں فیکٹری بند کرنے میں عافیت سمجھی جا رہی ہے۔ عالمی منظرنامہ بھی عجیب رنگ دکھا رہا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کا دباؤ موجود ہے۔ دنیا میں مہنگائی کا طوفان بڑھتا جا رہا ہے اور بڑھتے چلا جا رہا ہے، اشیا مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں، خام تیل کھانے کا تیل کپاس چائے دالوں کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔

ان اشیا کو پاکستان لانا بھی بہت مہنگا ہو کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ کنٹینرز اور دیگر اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔ عالمی سیاسی بے یقینی کے حالات نے اپنا گہرا اثر چھوڑا ہوا ہے جیسے یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ کی کشیدگی، ایران اسرائیل جنگ جو کہ پہلے ہی ایران پر زبردستی تھوپ دی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کے بیانات عالمی سیاست کو مزید کشیدگی کی طرف لے کر جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں ڈالر ریٹ بڑھ رہا ہے اور روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ چند ہفتوں قبل ایک ڈالر 278 روپے کا تھا اب 284 کا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی عالمی قیمت میں ایران اسرائیل جنگ کے آغاز کے ساتھ اضافہ ہوا اس کے ساتھ ہی پاکستان نے پٹرول کے نرخ بڑھا دیے۔ یکم جولائی سے دوبارہ پھر بڑھا دیے۔

برآمدات میں زبردست اضافے کی بات کرتے ہیں لیکن غیر روایتی منڈیوں افریقہ، وسطی ایشیا، مشرق بعید کی طرف نہیں دیکھتے۔ اب کہیں جا کر پاک روس مال گاڑی چلنے کی امید پیدا ہوئی ہے جس سے پاکستان کے ایران، وسطی ایشیائی ملکوں اور روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ روسی کرنسی میں تجارت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

توانائی کی قیمت میں کمی دراصل قومی صنعت کو آکسیجن دینے کے مترادف ہے۔ اب جا کر یکم جولائی سے محض برائے نام ایک روپیہ 15 پیسے فی یونٹ کی کمی کو عوام کے لیے بڑا ریلیف سمجھا جا رہا ہے جب کہ بجلی بل اسی طرح 25 یا 30 ہزار سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک پہنچ رہے ہیں حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں، قرض لیں، ادھار لیں، اپنا سامان بیچیں، ورنہ بجلی کٹ جائے گی، لہٰذا کچھ بھی ہو بجلی کے بل وقت پر ادا کردیں۔

دراصل ہم نے آئی ایم ایف کو بطور جراح بلایا تھا، لیکن اس جراحی کے عمل میں دیگر باتوں کا تذکرہ کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کی اہم ترین شرط کا تذکرہ کرنا سودمند ثابت ہوگا۔ اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ روپے کی قدر گھٹاؤ، اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ 25 کروڑ آبادی والے ملک کی برآمدات محض 32 ارب ڈالرز اور روپے کی قدر گھٹنے سے درآمدی اشیا کی قیمتیں پاکستان میں بے انتہا مہنگی محسوس کی جا رہی ہیں۔

پھر بجلی گیس پانی کے نرخوں میں اضافے نے صنعتی لاگت بڑھا دی ہے۔ عالمی منڈی میں پاکستانی برآمدات کو مہنگا محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں برآمدات میں سست رفتاری سے اضافہ جیسے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے لیکن 5 فی صد کبھی 7 فی صد اضافہ اور اس کے مقابلے میں درآمدات میں دگنا کبھی تین گنا اضافے نے ملکی معیشت کو بے بس، بے چین و بے قرار کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لیاری واقعے کے ذمے داران کو قرار واقعی سزا دی جائے گی، مراد علی شاہ
  • لیاری بلڈنگ واقعے کے ذمے داران کو قرار واقعی سزا دی جائے گی: وزیراعلیٰ سندھ
  • امام حسینؓ کی سیرت سے رہنمائی لینے کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے، وزیراعظم
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جولائی تا مئی کے دوران پاکستان کی بھارت سے 21کروڑ ڈالر کی درآمدات
  • جولائی تا مئی کے دوران پاکستان کی بھارت سے 21کروڑ ڈالر کی درآمدات
  • عالمی برادری کشمیرمیں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، پرویز احمد شاہ
  • نئے مالی سال کے آغاز کے ساتھ ہی مہنگائی میں اضافہ شروع
  • مالی سال 2024-25 کے تجارت خارجہ کے اعداد و شمار
  • ایس ای سی پی اپیلیٹ بینچ نے مالی سال اپیلیں نمٹا دیں