بھارت کی ہٹ دھرمی نے خطے کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، حریت کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
حریت ترجمان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو نظرانداز کرنے کا اب کوئی آپشن نہیں ہے، بی جے پی کی زیرقیادت ہندوتوا بھارتی حکومت نے آزادی پسند کشمیریوں کے خلاف اپنے ظلم و بربریت میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر پر بھارت کی ہٹ دھرمی پر مبنی پالیسی نے خطے کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ بی جے پی کی زیرقیادت ہندوتوا بھارتی حکومت نے آزادی پسند کشمیریوں کے خلاف اپنے ظلم و بربریت میں اضافہ کر دیا ہے اور انہیں اپنے ہی وطن میں اجنبی بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں کے بھارتی تسلط اور ہٹ دھرمی نے کشمیر کو ایک جوہری فلیش پوائنٹ میں تبدیل کر دیا ہے اور کوئی بھی غلطی علاقائی تباہی کو جنم دے سکتی ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کی آواز دبانے، خطے میں خوف و ہراس پھیلانے، پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر پر حملے کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے اور اپنے زرخریدجانبدار گودی میڈیا اور سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نئی دلی میں وزارت خارجہ کی پریس بریفنگ کے ذریعے جعلی بیانیے کے ذریعے دنیا کو گمراہ کر رہی ہے۔
حریت ترجمان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر کو نظرانداز کرنا اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حل طلب تنازعہ کشمیر جنوبی ایشیا اور عالمی امن کو خطرہ لاحق ہے اور اقوام متحدہ کو اس تنازعہ کے پر امن حل کیلئے فوری کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صورتحال معمول پر آنے کے بھارتی حکمرانوں کے دعوے حقیقت کے برعکس ہیں بلکہ اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ علاقے میں ہونیوالی تباہی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور گھروں پر چھاپے، تلاشی کی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ حریت قیادت، نوجوان اور خواتین سمیت ہزاروں کشمیری بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری جنگ جیسی صورتحال اور بھارت کی طرف سے کیے جانے والے جرائم کا نوٹس لے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے دیا ہے ہے اور
پڑھیں:
بھارت: کشمیر میں پچیس کتابوں پر پابندی اور دکانوں پر چھاپے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے 25 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد سے متنازعہ خطے میں پولیس کی جانب سے کتابوں کی دکانوں اور اشاعت خانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ حکومت کا دعوی ہے کہ مذکورہ کتابیں "پرجوش علیحدگی پسندی" کو ہوا دیتی ہیں۔
بھارتی حکومت نے جن مصنفین کی کتابوں کو ممنوع قرار دیا ہے، ان میں بھارت کی معروف ناول نگار اور بکر پرائز یافتہ اروندھتی رائے کے ساتھ ساتھ ماہرین تعلیم بھی شامل ہیں۔
حکومت نے ان پر بھارت کے خلاف "نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار ادا کرنے" کا الزام لگایا ہے۔بعض دیگر معروف دانشوروں کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے، جس میں بھارت کے معروف آئینی امور کے ماہر اے جی نورانی، سمنترا بوس کرسٹوفر سنیڈن اور وکٹوریہ شوفیلڈ جیسے نامور ماہرین تعلیم اور مورخ بھی شامل ہیں۔
(جاری ہے)
ہمیں اس بارے میں مزید کیا معلوم ہے؟پابندی سے متعلق احکامات کے مطابق ان مصنفین کی کتابوں کو فروخت کرنا، انہیں خریدنا یا اپنے پاس رکھنا اب ایسا جرم ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں جیل کی سزا ہو سکتی ہے۔
پابندی کا اعلان بدھ کے روز سامنے آیا تھا اور جمعرات کے روز سے کتب فروشوں کی دکانوں پر چھاپے کی کارروائی شروع ہوئی، تاکہ ایسی تمام کتابوں کو ضبط کیا جا سکے۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ایک بیان میں کہا، "آپریشن میں علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دینے یا دہشت گردی کو فروغ دینے والے مواد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امن اور سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی تعاون کی درخواست کی جاتی ہے۔
"پولیس نے بتایا کہ حکم کی تعمیل میں پولیس اہلکاروں نے جمعرات کو کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مارے، سڑک کے کنارے کتاب فروشوں اور مرکزی شہر سری نگر اور خطے کے متعدد مقامات پر ممنوعہ لٹریچر کو ضبط کرنے کے لیے اشاعت خانوں اور دیگر اداروں کی تلاشی لی۔"
اس سے قبل فروری میں بھی سری نگر سمیت کئی شہروں میں حکام نے اسی طرح کی ایک چھاپہ مار مہم شروع کی تھی اور اس وقت بھی گھروں اور دکانوں سے اسلامی لٹریچر سمیت کتابیں ضبط کی گئی تھیں۔
حکام نے پابندی پر کیا کہا؟پابندی سے متعلق حکم نامے میں 25 کتابوں کو بھارت کے نئے ضابطہ فوجداری کے تحت "ضبط شدہ" قرار دیا گیا اور پورے متنازعہ خطے کشمیر ایسی کتابوں کی سرکولیشن، کسی کے پاس ہونے یا رسائی پر مؤثر طریقے سے پابندی لگا دی گئی۔
ایسی کتب رکھنا اب ایک جرم ہے، جس کے لیے تین سال، سات سال یا حتیٰ کہ عمر قید تک کی سزا کا خطرہ ہو سکتا۔
البتہ ابھی تک اس کے تحت کسی کی گرفتاری یا جیل بھیجنے کے کسی واقعے کی اطلاع نہیں ہے۔محکمہ داخلہ نے اپنے نوٹس میں کہا کہ "شناخت شدہ 25 کتابیں علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والی پائی گئی ہیں۔" اس میں کہا گیا کہ اس طرح کی کتابوں نے "نوجوانوں کو گمراہ کرنے، دہشت گردی کو بڑھاوا دینے اور بھارتی ریاست کے خلاف تشدد کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
"حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی "جھوٹی داستانوں اور علیحدگی پسند لٹریچر کے منظم طریقے سے پھیلاؤ" کے بارے میں 'تحقیقات اور قابل اعتماد انٹیلیجنس' کے بعد کی گئی ہے۔"
کتابوں پر پابندی کی مذمتکشمیر کے علیحدگی پسند رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کتابوں پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بھارتی حکومت کے "عدم تحفظ اور محدود سمجھ بوجھ کو ظاہر کرتا ہے۔
" انہوں نے اس اور اس فیصلے کو "آمرانہ" بھی قرار دیا۔میر واعظ عمر فاروق نے ایکس پر لکھا: "اسکالرز اور معروف مورخین کی کتابوں پر پابندی تاریخی حقائق کو نہیں مٹا سکتی۔"
مصنفہ سومنترا بوس، جو ایک سیاسی سائنسدان ہیں، کی کتاب "کشمیر ایٹ کراس روڈز" کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
بوس نے ایک بھارتی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں کہا "میں نے 1993 سے بہت سے دوسرے موضوعات کے علاوہ کشمیر پر بھی کام کیا ہے۔
پورے وقت میں، میرا بنیادی مقصد امن کے راستوں کی نشاندہی کرنا رہا ہے تاکہ تشدد کا پوری طرح خاتمہ ہو اور بھارت اور برصغیر میں تنازعہ والے علاقے کے لوگ خوف اور جنگ سے پاک ایک مستحکم مستقبل سے مجموعی طور لطف اندوز ہو سکیں۔"انہوں نے کہا، "میں پرامن نقطہ نظر اور مسلح تنازعات کے حل کی پرعزم اور اصولی حامی ہوں، چاہے وہ کشمیر میں ہو یا دنیا میں کہیں بھی ہو۔
"سن 2019 میں بھارت کی جانب سے خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد کشمیر میں گزشتہ برس پہلے اسمبلی انتخابات ہوئے۔ تاہم چونکہ مودی حکومت نے کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال نہیں کیا ہے، اس لیے بڑی حد تک وہاں ایک بے اختیار حکومت ہے۔ کشمیر سے متعلق تمام بڑے فیصلے دہلی کی حکومت کرتی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ کتابوں پر پابندی کا یہ حکم کشمیر پر مودی حکومت کی براہ راست حکمرانی کے چھ سال مکمل ہونے کے موقع پر جاری کیا گیا۔
ادارت: جاوید اختر