برطانیہ کا پاک بھارت سیز فائر کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
امریکی صدر کے پاک بھارت جنگ بندی کے اعلان کے بعد سے دنیا بھر سے اس کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمے نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ایک پر اپنی ٹویٹ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کا خیرمقدم کیا۔
وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمے نے پاکستان اور بھارت سے جنگ بندی کو برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کشیدگی کو کم کرنا سب کے مفاد میں ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری طور ہر بری، فضائی اور بحری محاذوں پر ایک دوسرے پر حملے بند کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگ بندی 12 مئی تک ہوگی اور اس دن ڈائریکٹرز ملٹری آپریشنز کے درمیان پھر مذاکرات ہوں گے۔
امید ظاہر کی جا رہی ہے 12 مئی کو اس اہم مذاکرات میں جنگ بندی کو غیر معینہ مدت تک طول دینے میں مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کی قیادت نے مکمل اور فوری سیزفائر پر اتفاق کیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے درمیان
پڑھیں:
صدر ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو غزہ جنگ بندی کیلیے 21 نکاتی امن فارمولا پیش کردیا
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔
امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔
منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔
عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں جن میں شامل ہیں؛
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی
یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا
غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی
غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ
اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل
علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید" قرار دیا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔
یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کردی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔
جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔
اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔
قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔
اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے" کے مترادف ہوگا۔