بھارتی جارحیت؛ ماورا حسین کا اپنے انڈین کو اسٹار ہرش وردھن رانے کو کرارا جواب
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
معروف اداکارہ ماورا حسین نے اپنی بھارتی فلم "صنم تیری قسم" کے ساتھی اداکار ہرش وردھن رانے کو بھارتی جارحیت کی حمایت پر سخت اور دوٹوک جواب دیدیا۔
ماورا حسین نے ثبات,سمن, آنگن, جفا اور قصہ مہربانو کا، جیسے کامیاب ڈراموں میں شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔
انھوں نے بھارتی فلموں میں بھی کام کیا ہے اور اداکارہ کو سوشل میڈیا پر لاکھوں مداحوں کی پذیرائی بھی حاصل ہے۔
ماورا حسین حالیہ دنوں میں وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ سوشل میڈیا پر سرگرم رہی ہیں۔ ان کی فلم "صنم تیری قسم" کی دوبارہ ریلیز بھارت میں بھی کامیاب رہی۔
اداکارہ ماورا حسن نے سوشل میڈیا پر بھارت کی جارحیت پر بغیر لگے لپٹے کڑی تنقید کی جس پر ان کے بھارتی کو اسٹار ہرش وردھن رانے نے اعلان کیا کہ وہ فلم ’صنم تیری قسم 2‘ میں ماورا کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔
جس کے جواب میں ماورا حسین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ افسوسناک، مضحکہ خیز اور شرمناک ہے کہ کوئی شخص ایسے نازک وقت میں سستی شہرت کے لیے بیانات جاری کرے۔
ماورا حسین نے مزید کہا کہ میرے ملک کے معصوم بچوں کی جانیں گئیں، حملے ہوئے، اور اس کے بعد ہماری افواج نے ردِعمل دیا ہے۔ ایسے وقت میں یہ فلمی اعلان نہایت افسوس کی بات ہے۔
اداکارہ ماورا حسین نے مزید کہا کہ میں نے ہمیشہ اپنے ساتھی فنکاروں کا احترام کیا ہے، لیکن جنگ جیسے سنجیدہ موقع پر شہرت حاصل کرنے کی کوشش انتہائی گھٹیا پن ہے۔ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کی صورتحال میں ہوں، تب ذاتی مفاد کی بات کرنا کوئی عقل مندی نہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ماورا حسین نے
پڑھیں:
مسٹر بیسٹ کا ہم شکل امریکی پارلیمنٹ تک پہنچ گیا
امریکہ کے سیاست میں ایک نیا چہرہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف سیاسی حلقوں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ 22 سالہ بریڈی پینفیلڈ نے جو ویسکانسن کے رہائشی ہیں، حال ہی میں ریاستی اسمبلی میں حصہ لینے کے لیے امیدوار کا اعلان کیا۔ دلچسپی صرف اس بات میں نہیں تھی کہ وہ ایک نئی سیاسی شخصیت ہیں، بلکہ اس کے انداز اور ظاہری شکل کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پر خاصے مقبول ہو گئے۔
پینفیلڈ کی مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن سے غیر معمولی مماثلت نے انٹرنیٹ صارفین کو حیران کر دیا۔ جیسے ہی انہوں نے ایکس پر اپنی تصویر شیئر کی، تب سے صارفین کے تبصرے جاری ہیں، جن میں کسی نے کہا کہ وہ ”مسٹر بیسٹ سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں“ اور کسی نے مذاق میں پوچھا، ”مسٹر بیسٹ، تم نے سیاست شروع کر دی؟“ اس طرح کی مماثلت کی خبروں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کس حد تک ہم بصری مماثلت کو حقیقت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اس کا انسانی رویے پر کیا اثر پڑتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ نے اس شباہت کو تسلیم کیا اور کہا کہ کئی لوگوں نے یہ بات ان سے کہی ہے۔ وہ یونیورسٹی آف ویسکانسن ریور فالز کے فارغ التحصیل ہیں، جہاں انہوں نے کالج ریپبلکنز چپٹر کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت کی۔ ان کا سیاسی پس منظر ٹرننگ پوائنٹ ایکشن کے فیلڈ نمائندے کے طور پر کام کرنے اور طلبہ و اساتذہ کے ایک وسیع نیٹ ورک کو بنانے پر مشتمل ہے۔
اپنے تعارف میں پینفیلڈ نے بتایا کہ وہ ایک ڈیموکریٹک خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ہائی اسکول کے تیسرے سال، 2020 میں، کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران کنزرویٹو نظریات کو اپنانا شروع کیا۔ یہ ایک دلچسپ پہلو ہے، جو نوجوانوں میں سیاسی رجحانات کی تبدیلی اور وقت کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ذریعے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کس طرح ذاتی تجربات اور عالمی حالات نوجوان ذہنوں میں سیاسی سمت متعین کرتے ہیں۔
Ain’t no way bro https://t.co/vx4DaYCP91 pic.twitter.com/t428L8GJg4
— Bx (@bx_on_x) November 8, 2025
مسٹر بیسٹ، یعنی جمی ڈونلڈسن، ایک مشہور یوٹیوبر، کاروباری شخصیت اور فلاحی کارکن ہیں۔ وہ اپنے وائرل چیلنجز، بڑے پیمانے پر انعامات، اور فلاحی سرگرمیوں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کی نمایاں مہمات میں ”ٹیم ٹریز“ کے تحت لاکھوں درخت لگانا اور ”فیڈنگ امیریکا“ کے ذریعے خوراک کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں اور سوشل میڈیا صارفین کو مثبت اثر ڈالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
یہ مماثلت ہمیں ایک دلچسپ سوال بھی دیتی ہے، آج کے دور میں میڈیا اور عوامی تاثر کس طرح کسی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے؟ جب ایک نوجوان سیاستدان اور ایک یوٹیوبر کے ظاہری فرق کو کم کر کے لوگ فوری طور پر شناخت کر لیتے ہیں، تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ بصری تاثر کس حد تک ہماری سوچ اور توقعات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
بریڈی پینفیلڈ کی مثال اس بات کا عکاس ہے کہ نوجوان سیاستدان صرف سیاسی ایجنڈا ہی نہیں، بلکہ اپنی شخصیت، طرزِ بیان اور یہاں تک کہ ظاہری شکل کے ذریعے بھی عوام کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوشل میڈیا کے اس اثر نے یہ واضح کیا کہ آج کے دور میں سیاست اور تفریح کے درمیان سرحدیں کتنی دھندلی ہو چکی ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آیا پینفیلڈ اس شباہت کو اپنی سیاسی شناخت کے لیے استعمال کرتے ہیں یا پھر صرف ایک تفریحی مباحثہ بن کر رہ جائے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت آج ہر نئے سیاسی اور عوامی چہرے کے لیے ایک اہم عنصر بن چکی ہے، جو نہ صرف ان کی شناخت بلکہ عوام کے ردعمل کو بھی شکل دیتی ہے۔