کراچی میں پوری اسٹیل فیکٹری سولر پر منتقل
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ معروف اسٹیل ساز کمپنی انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ (ISL) نے کراچی میں واقع اپنے صنعتی یونٹ پر 6.4 میگا واٹ کا شمسی توانائی منصوبہ کامیابی سے مکمل کر کے فعال کر دیا ہے۔ اس کا باضابطہ اعلان پاکستان اسٹاک ایکسچینج (PSX) کو ایک نوٹس کے ذریعے کیا گیا۔
کمپنی نے بیان میں کہا، ’ہم یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ کراچی میں ہمارے صنعتی یونٹ پر 6.
کمپنی کا تعارف
انٹرنیشنل اسٹیلز لمیٹڈ، انٹرنیشنل انڈسٹریز لمیٹڈ کی ذیلی کمپنی ہے، جو 3 ستمبر 2007 کو ایک پبلک اَن لسٹڈ کمپنی کے طور پر قائم کی گئی۔ یہ کمپنی کولڈ رولڈ، گیلوانائزڈ اور کلر کوٹڈ اسٹیل کوائلز اور شیٹس کی تیاری میں مصروفِ عمل ہے۔
شمسی منصوبے کے مکمل ہونے سے کمپنی کو نہ صرف مالی بچت ہوگی بلکہ کاربن فُٹ پرنٹ میں بھی نمایاں کمی واقع ہو گی۔
پاکستان میں شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں میں شمسی توانائی کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ نہ صرف رہائشی بلکہ تجارتی و صنعتی ادارے بھی اس سستی اور ماحول دوست توانائی کے ذریعے اپنے اخراجات میں کمی اور ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
مارچ 2025 میں طارق کارپوریشن لمیٹڈ نے 200 کلو واٹ کے سولر سسٹم کے قیام کا اعلان کیا، جبکہ فروری میں اولمپیاء ملز لمیٹڈ نے 500 کلو واٹ کے آف-گرڈ سولر منصوبے کی بنیاد رکھی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کو پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں نصب شدہ شمسی توانائی کی مجموعی صلاحیت 2021 میں 321 میگا واٹ تھی جو دسمبر 2024 تک بڑھ کر 4,124 میگا واٹ ہو چکی ہے۔
Post Views: 3ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شمسی توانائی پاکستان میں
پڑھیں:
بھارتی لنگور سرحد پار کرکے پاکستان پہنچ گیا، بہاولنگر چڑیا گھر منتقل
لاہور:پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث سرحدی آمدورفت عوام کے لیے بند ہے تاہم قدرتی حیات ان انسانی حد بندیوں کی پابند نہیں اور حالیہ دنوں میں ایک بھارتی لنگور بغیر کسی ویزے یا اجازت کے سرحد عبور کرکے پاکستان آگیا جہاں اسے بہاولنگر چڑیا گھر میں محفوظ پناہ فراہم کی گئی ہے۔
محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے مطابق مذکورہ انڈین سرمئی لنگور کو چند روز قبل منڈی صادق گنج کے علاقے موضع مویتیان سے اس وقت ریسکیو کیا گیا جب وہ سرحد عبور کر کے ایک مقامی گھر میں داخل ہوگیا تھا، متعدد مقامی افراد نے لنگور کو پتھر مارنے اور قابو کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
اس حوالے سے اطلاع ملتے ہی وائلڈ لائف رینجرز کی ٹیم موقع پر پہنچی اور لنگور کو بحفاظت ریسکیو کرکے بہاولنگر چڑیا گھر منتقل کر دیا۔
ماہرین کے مطابق یہ شمالی میدانوں میں پائے جانے والا انڈین سرمئی لنگور ہے، جسے ہنومان بندر بھی کہا جاتا ہے، اس کی جسمانی خصوصیات میں پتلا جسم، لمبے بازو اور 69 سے 101 سینٹی میٹر لمبی دم شامل ہے اور یہ پرجاتی بھارت، نیپال اور سری لنکا میں پائی جاتی ہے۔
اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف نذر عباس کے مطابق لنگور 30 سے 35 فٹ تک کی چھلانگ لگا سکتا ہے اور دن کا نصف حصہ آرام کرتے ہوئے گزارتا ہے، چڑیا گھروں میں اسے پھل اور روٹی بطور خوراک دی جاتی ہے۔
نذر عباس نے بتایا کہ اگست 2016 میں انہوں نے خود پہلا لنگور ہارون آباد کے نواحی علاقے سے تین دن کی کوشش کے بعد ریسکیو کیا تھا، اب تک مجموعی طور پر پانچ لنگور بہاولنگر چڑیا گھر میں موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2021 میں ایک لنگور کو بہاولنگر شہر سے ویٹرنری ماہرین کی مدد سے ٹرنکولائز کرکے پکڑا گیا، جسے 5 دن کی جدوجہد کے بعد بحفاظت منتقل کیا گیا تاہم، دو ماہ قبل ایک لنگور کو مقامی شہری نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا، جس پر محکمانہ کارروائی کرکے اسے جرمانہ کیا گیا۔
نذر عباس کے مطابق نر لنگوروں کے درمیان مادہ لنگور کے لیے لڑائی ہوتی ہے اور شکست خوردہ نر اکثر اپنے جھنڈ سے الگ ہو کر بھٹکتے ہوئے سرحد پار پاکستان آ جاتے ہیں، بدقسمتی سے مقامی افراد لاعلمی کی وجہ سے ان مہمان جانوروں پر حملے کرتے ہیں۔
پنجاب وائلڈ لائف کی ویٹرنری افسر ڈاکٹر وردہ گل نے اس حوالے سے بتایا کہ سرحدی علاقوں سے ریسکیو کیے جانے والے جانوروں کو سب سے پہلے قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے صحت مند ہونے کی تصدیق کی جا سکے کیونکہ اگر کوئی جانور بیمار ہو تو اس سے دیگر جانور متاثر ہوسکتے ہیں۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت سے پاکستان داخل ہونے والے جنگلی جانوروں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، شکرگڑھ، سیالکوٹ، قصور اور لاہور کے سرحدی علاقوں میں درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے جن میں ہرن، نیل گائے اور نایاب گھریال شامل ہیں۔
جنوری 2024 میں شکرگڑھ کے گاؤں پاسوال میں سرحد پار سے آیا ایک ہرن مقامی افراد نے پکڑا، جسے وائلڈ لائف نے طبی معائنے کے بعد بنہل کے جنگلات میں آزاد چھوڑ دیا، جنوری 2025 میں لاہور کے شمالی علاقے سے ایک زخمی ہرن اور قصور کے گندہ سنگھ والا میں ایک نیل گائے کو ریسکیو کیا گیا، اس سے قبل مئی 2023 میں دریائے ستلج سے گھریال کے تقریباً 10 بچے ملے جو پانی کے بہاؤ کے ساتھ پاکستان داخل ہوئے تھے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے سابق اعزازی گیم وارڈن اور ٹاسک فورس کے چیئرمین بدر منیر کے مطابق بھارت کے سرحدی علاقوں میں جانوروں کا غیرقانونی شکار عام ہے، جس کے باعث سانبھڑ ہرن، نیل گائے اور دیگر جانور بہتر خوراک اور تحفظ کی تلاش میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کی زمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور یہاں کی قوم انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں سے بھی محبت کرتی ہے۔
بدر منیر نے کہا کہ جانوروں کے لیے کوئی سرحد نہیں ہوتی، نہ ہی انہیں کسی ویزے کی ضرورت ہے جو جانور پاکستان آتے ہیں، وہ ہماری ملکیت ہیں اور انڈیا ان کی واپسی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مقامی آبادی میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرحد پار سے آنے والے ان معصوم مہمانوں کو خطرہ نہ ہو اور انہیں محفوظ طریقے سے قدرتی یا محفوظ ماحول میں رکھا جا سکے۔