پشاور:

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے مسلح افواج کے سربراہوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ نریندر مودی کا وقت ختم ہوچکا ہے اور ہم بھارتی آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے۔

پشاور میں تحفظ پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج کے اجتماع کی آواز نمائندگی پوری قوم اور امت مسلمہ کی طرف سے ہے، پاکستان کے عوام فلسطینی بھائیوں اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے متحد ہیں، ہم نے جلسوں میں بار بار کہا اسرائیل اور بھارت ایک جگہ پر کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا سرکاری اعلان کرے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ بری اور فضائی سربراہوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، ایک ہفتے میں ثابت ہوگیا اسرائیل اور بھارت ایک ہیں، اسرائیل ایک خنجر ہے جو ہمارے عرب بھائیوں کے کمر میں گھونپ دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ پوچھے کیا بچوں کو قتل کرنا کس ذمرے میں دفاعی جنگ کہہ رہے ہیں، اسرائیل نے جارحیت کی اور عورتوں پر بم باری کی ہے، پوری امت مسلمہ کی قیادت سے کہنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی بھائیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عرب ممالک اعلان کریں وہ فلسطین کے ساتھ ہیں، آج کے اجتماع نے ثابت کیا قوم ہمارے مؤقف کے ساتھ کھڑی ہے۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ پہلگام میں سویلین لوگوں کو قتل کیا گیا، پاکستان نے اس پر تشویش کا اظہار اور مذمت کیا، بھارت نے 10 منٹ میں پاکستان پر الزام لگایا اور ایف آئی آر درج کی۔

مولانا فضل الرحمان نے بھارتی وزیراعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ مودی جی آپ کشمیر میں لوگوں کو سیکیورٹی نہیں دے سکتے، پہلگام کو سیاست اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا، اب کشمیری مسلمان ہماری تائید کے بغیر نہیں رہ سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مودی کا وقت ختم ہوچکا ہے، مودی ایسا رسوا اور ذلیل ہوا کہ دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، بھارت نے پاکستان پر الزام بھی لگایا اور سندھ طاس معاہدہ بھی ختم کیا لیکن سندھ طاس معاہدہ بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کرسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے معاہدے کے تحت تین دریا دیے، دو اپنے پاس رکھے اور اب پانچ دریا ہمارے قبضے میں ہوں گے، ہم بھارت کو آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، دونوں ممالک کے درمیان عالمی معاہدہ ہے ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے، بھارت نے حملہ کرکے تنازعات کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش کی اور طاقت کا جواب مل گیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی معاہدہ ہے شہریوں، اسکولوں اور اسپتالوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے، اسرائیل اور بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، بھارت نے ہمارے ایئر بیسز پر حملے کیے تاہم پاکستان نے ایسا جواب دیا کہ ان کے جہازوں کو اڑنے کے قابل نہیں بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فرانس کے ہتھیار ہوا میں اڑ گئے اور نیست و نابود ہوگئے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارے دوستوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے، ہر چند ہمارے تحفظات اور ناراضیاں تھیں لیکن ہم نے ملک کے لیے ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی قانون کے تحت پاکستان کو دفاع کا حق حاصل ہے ہم نے جارحیت نہیں کی، آئندہ بھی ہمیں جارحیت کا جواب دینے کا حق حاصل ہے، تم ایک راکٹ مارو گے ہم 100 راکٹ ماریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی تباہی کا تماشا پوری دنیا نے دیکھا، ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں، آئندہ بھی خیبر پختونخوا کا ہر فرد پہلے صف میں رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان نے ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور جارحیت کا بھارت نے

پڑھیں:

ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-4

 

بھارت آج نریندر مودی کی قیادت میں انتہا پسندی، فرقہ واریت اور نفرت کے ایک ایسے دائرے میں داخل ہو چکا ہے جس سے واپسی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ مودی سرکار کی ’’ہندوتوا‘‘ پالیسی نے بھارت کے سیکولر آئین، جمہوری روایات اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو عملاً پامال کر دیا ہے۔ ایک قوم، ایک مذہب‘‘ کا یہ نعرہ درحقیقت بھارت کے اندر ایک مخصوص طبقے، ہندو بالادست گروہ کی حکمرانی قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس کے نتیجے میں اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مختلف ہندو مذہبی رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر، عسکری اداروں کے مذہبی انتہا پسند گروہوں سے تعلقات، اور سیاسی قیادت کی خاموش تائید نے اس حقیقت کو مزید آشکار کر دیا ہے کہ بھارت میں ہندوتوا اب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ریاستی پالیسی بن چکا ہے۔ مختلف بیانات اور ویڈیوز میں دیکھی جانے والی کھلی دھمکیاں، جن میں اسلام کو دنیا سے ’’مٹانے‘‘ یا مسلمانوں کو ’’جڑ سے اکھاڑنے‘‘ کی باتیں کی گئیں، نہ صرف بھارتی سماج کے تانے بانے کو چاک کر رہی ہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہیں۔ بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریات دراصل اسی ہندوتوا فلسفے کی بنیاد ہیں۔ آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار اور گولوالکر نے بیسویں صدی کے آغاز میں جو فکری بیج بویا، وہ آج مکمل درخت بن چکا ہے۔ ان کے نزدیک بھارت ’’ہندو راشٹر‘‘ ہے، جہاں دیگر مذاہب صرف اسی وقت برداشت کیے جا سکتے ہیں جب وہ ہندو تہذیب کے تابع ہو کر رہیں۔ نریندر مودی، جو خود آر ایس ایس کے تربیت یافتہ کارکن ہیں، اسی نظریے کو عملی شکل دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت کے اقدامات، چاہے وہ آرٹیکل 370 کی منسوخی ہو، این آر سی اور سی اے اے جیسے امتیازی قوانین کا نفاذ، یا مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر پالیسی، سب اسی سوچ کے مظاہر ہیں۔ اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، جو خود کو ’’ہندو یووا واہنی‘‘ کے بانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، کھلے عام سناتن دھرم کے غلبے کی بات کرتے ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر مزید مضبوط ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست میں مذہب اور ریاست کے درمیان لکیر مکمل طور پر مٹ چکی ہے۔ یہی وہ خطرناک رجحان ہے جس کے سبب بھارت میں نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ مذہبی اقلیتیں بھی نشانے پر ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کے لیے مودی کا دور ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔ گجرات 2002ء کے فسادات سے لے کر حالیہ دہلی اور منی پور کے واقعات تک، مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ گائے کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل، حجاب پر پابندی، مساجد کی بے حرمتی، اور مسلمانوں کے مکانات و کاروباروں کو بلڈوز کرنا، یہ سب ریاستی سرپرستی میں ہونے والے اقدامات ہیں۔ مودی حکومت کے دور میں بھارتی میڈیا کا کردار بھی انتہائی افسوسناک ہے۔ بیش تر ٹی وی چینل اور اخبارات حکومت کے پروپیگنڈا مشین کا حصہ بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہمات چلانا، انہیں ’’دہشت گرد‘‘ یا ’’ملک دشمن‘‘ کے القابات دینا عام بات بن چکی ہے۔ ایسے میں عوامی شعور کو مسخ کیا جا رہا ہے تاکہ اکثریتی طبقہ اقلیتوں کے خلاف مزید مشتعل ہو۔ یہی صورتحال تعلیمی اداروں میں بھی نظر آتی ہے۔ نصاب میں تاریخی حقائق کو مسخ کر کے ہندو راشٹر کے تصور کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کی علمی، ثقافتی اور تاریخی خدمات کو یا تو حذف کیا جا رہا ہے یا منفی رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جمہوری ریاست میں عدلیہ، میڈیا اور پولیس وہ ستون ہوتے ہیں جو ظلم و زیادتی کے خلاف عوام کا تحفظ کرتے ہیں۔ لیکن بھارت میں یہ تمام ادارے ہندوتوا کے اثر میں آ چکے ہیں۔ جب مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں تو پولیس تماشائی بن جاتی ہے۔ مجرموں کو گرفتار کرنے کے بجائے مظلوموں پر مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ عدالتیں اکثر ایسے مقدمات میں برسوں خاموش رہتی ہیں یا فیصلہ حکومت کے حق میں دیتی ہیں۔ یہ بات انتہائی افسوسناک ہے کہ عالمی برادری خصوصاً مغربی ممالک، جو خود کو انسانی حقوق کے چمپئن قرار دیتے ہیں، بھارت کے مظالم پر خاموش ہیں۔ اس کی بڑی وجہ معاشی مفادات اور بھارت کی منڈی کی کشش ہے۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین سب مودی حکومت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے نام پر انسانی حقوق کے اصولوں کو قربان کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹس بارہا خبردار کر چکی ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں، مگر کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہن اغلط نہ ہوگا کہ ہندوتوا کی آگ صرف بھارت کے اندر تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے شعلے خطے کے امن کو بھی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی دانشور، طلبہ، اور سول سوسائٹی کے کئی حلقے اس انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں، یا انہیں ’’غدار‘‘ اور ’’ملک دشمن‘‘ قرار دے کر جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔ ’’نئے بھارت‘‘ کے نام پر نفرت، تشدد اور تعصب کو قومی شناخت بنا دیا گیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ظلم و جبر کو ریاستی پالیسی بنا لیا، اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوا۔ نریندر مودی اور ان کے انتہا پسند ساتھی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اقلیتوں کو دباکر بھارت کو مضبوط کر لیں گے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ظلم وقتی طور پر طاقتور نظر آتا ہے، مگر اس کی بنیاد کمزور ہوتی ہے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم پاس ہوگئی، 28 ویں ترمیم کی تیاری کریں، فیصل واوڈا
  • پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ
  • ہندوتوا کی آگ اور بھارت کا مستقبل
  • بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
  • آرٹیکل 243 سے جمہوریت پر اثر پڑا تو قابل قبول نہیں،فضل الرحمان
  • آرٹیکل 243 سے جمہوریت پر اثر پڑا تو قابل قبول نہیں، فضل الرحمان
  • نریندر مودی ووٹ چوری کرکے بھارت کے وزیراعظم بنے ہیں، راہل گاندھی
  • 27ویں ترمیم ،صوبائی اختیارات میں کمی کی مخالفت کرینگے، فضل الرحمان
  • آرٹیکل 243 سے جمہوریت پر اثر پڑا تو قابل قبول نہیں، صوبوں کے اختیارات میں کمی کی مخالفت کریں گے: فضل الرحمان
  • صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات کی گئی تو مخالفت کریں گے، فضل الرحمان