Express News:
2025-09-26@12:44:40 GMT

دنیا کی خفیہ کارپوریٹ عدالتیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

 تجارتی معاہدے ملٹی نیشنل (بین الاقوامی) کارپوریشنوں کو غریب و ترقی پذیر حکومتوں کے حقوق پامال کرنے کی اجازت دیتے ہیں… یہ جنوبی امریکن مملکت، کولمبیا کی حکومت کا پیغام ہے جو کرپشن میں لتھڑے تجارتی معاہدوں کے اثرات کو قومی خودمختاری اور آزادی کے لیے بطور ’’قاتل ‘‘ اور ’’خون کی ہولی ‘‘ بیان کرتی ہے۔ اب جدید تاریخ میں کولمبیا کے پہلے لیفٹسٹ صدر، گستاؤ پیترو نے اعلان کیا ہے کہ وہ ان تمام معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں جو ان کے ملک نے امریکا و یورپ کی حکومتوں اور وہاں کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ کر رکھے ہیں۔

صدر گستاؤ پیترو کے پاس ایک مضبوط کیس ہے کیونکہ پچھلے دو برس سے امریکا اور یورپی ممالک بھی مختلف تجارتی اور سرمایہ کاری کے عالمی معاہدوں پر دوبارہ بات چیت کر رہے ہیں… کیونکہ وہ نہیں چاہتے، ’’خفیہ کارپوریٹ عدالتوں‘‘میں ان پر مقدمے چلائے جائیں ۔ مثال کے طور پر اس سال برطانوی حکومت نے ’’انرجی چارٹر ٹریٹی‘‘ (Energy Charter Treaty) نامی سرمایہ کاری کے زہریلے عالمی معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی۔وجہ یہ بنی کہ رکازی ایندھن کا کاروبار کرنے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں نے خفیہ کارپوریٹ عدالتوں میں اس بنیاد پر کئی یورپی حکومتوں کے خلاف مقدمے کھڑے کر دئیے کہ وہ آب و ہوائی تبدیلیاں روکنے کے لیے جو کارروائیاں کر رہی ہیں، ان سے مبینہ طور پر مذکورہ کارپوریشنوں کے منافع میں کمی آ گئی۔

 اب سوال یہ ہے کہ کیا یورپی ممالک اور امریکا یہ بات قبول کرلیں گے کہ ترقی پذیر ملک بھی آب وہوائی و موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر متعدد مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں بدل لیں … یا غریب ملکوں سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ان خوفناک، یکطرفہ عالمی معاہدوں کے مطابق چلتے رہیں؟

اس مسئلے کی بنیاد ’’سرمایہ کار اور ریاست کے تنازع کا تصفیہ‘‘ (investor-state dispute settlement ) نامی مجموعہ قوانین ہے۔اگر ایک ملک اور ملٹی نیشنل کمپنی کے درمیان کسی بھی قسم کا تنازع جنم لے تو ان قوانین کی مدد سے ایک ’’کارپوریٹ کورٹ‘‘ تشکیل دی جاتی ہے ۔اس عدالت میں فریقین اپنا مقدمہ لڑتے ہیں۔ یہ ’’کارپوریٹ کورٹ‘‘ بین الاقوامی ٹریبونل کی حیثیت رکھتی ہے اور تمام فریق پابند ہیں کہ اس کا فیصلہ تسلیم کر لیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی اور جرمن حکومتوں نے مل کر ایسے قوانین بنائے جو عالمی کمپنیوں کو جارح حکومتوں کے غیرقانونی اقدامات سے محفوظ رکھ سکیں۔ گویا آغاز میں یہ قوانین معتدل اور متوازن تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ قوانین نافذ ہوئے تو ان کی بنیاد پر پہلا عالمی معاہدہ پاکستان اور جرمنی کے درمیان ۱۹۵۴ء میں ہوا تھا تاکہ دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو تحفظ حاصل ہو سکے۔ آج ’’سرمایہ کار اور ریاست کے تنازع کا تصفیہ‘‘نامی مجموعہ قوانین کے تحت ستائیس سو سے زائد عالمی معاہدے انجام پا چکے۔

رفتہ رفتہ مگر یہ سچائی سامنے آئی کہ بااثر اور امیر مغربی ممالک کی خاص طور پہ فوسل فیول یعنی رکازی ایندھن کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ان قوانین کو ترقی پذیر ملکوں میں اپنے مفادات کو بچانے کا ہتھیار بنا لیا۔ مثال کے طور پہ اگر پاکستان چاہے کہ وہ کسی عالمی کمپنی کے زیرانتظام چلتے اپنے تیل و گیس کے کنوئیں قومیا لے تو وہ اس مجموعہ قوانین کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتا۔ تب عالمی کمپنی پاکستان کو کارپوریٹ کورٹ میں گھسیٹ لے گی۔ اور اس کورٹ کے جج عموماً مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا وہ غریب ملک پر بھاری جرمانہ عائد کرتے ہیں تاکہ اسے اپنے وسائل اپنی ملکیت میں لینے کا حوصلہ نہ ہو سکے۔

گویا سچ یہ ہے، مغربی ممالک نے مل کر دنیا میں ایسا نوآبادیاتی قانونی نظام بنا ڈالا جس کی وجہ سے ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی حکومتوں کے لیے بہت مشکل ہو چکا کہ وہ اپنے قدرتی و غیرقدرتی وسائل پہ کامل دسترس پا لیں۔ یہ ایک اور ظالمانہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے مغربی ممالک تیسری دنیا کی دولت اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک ملک کا کوئی قانون یا نیا ضابطہ پسند نہیں آتا تو وہ کارپوریٹ کورٹ میں اس پہ مقدمہ کھڑا کر سکتی ہے۔ اور حیران کن وپریشان کن بات یہ کہ یہ مقدمہ عموماً خفیہ انداز میں چلایا جاتا ہے۔ یہ مقدمہ ایسے کارپوریٹ وکلا اور ججوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جو انسانی حقوق، معاشرے ، اخلاقیات ، ماحولیات وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، وہ صرف سرمایہ کاری کے قانون کا ہر قیمت پر نفاذ اور اسے تحفظ دینا چاہتے ہیں۔

مذید حیرت ناک بات یہ کہ ان ’’عدالتوں‘‘ میں عام طور پر غریب ملک کو اپیل کا کوئی حق نہیں ملتا اور اس کا استعمال صرف غیر ملکی سرمایہ کار ہی کر سکتے ہیں۔

ماضی میں کئی ترقی پذیر ممالک نے فیصلہ کیا کہ سگریٹ سادہ پیکننگ میں فروخت ہوگی۔ اس پر امریکا و یورپ کی سگریٹ ساز کمپنیوں نے ان ملکوں کو کارپوریٹ کورٹوں میں گھسیٹ لیا۔ اسی طرح کسی ملک نے کارکنوں کی کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کیا یا ملٹی نیشنل کمپنیوں پر لگے ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی تو یہ اقدام بھی خفیہ کورٹوں میں چیلنج کر دیا گیا۔ اب تو مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دیدہ دلیری اتنی زیادہ بڑھ چکی کہ وہ کارپوریٹ عدالتوں میں ترقی پذیر ملکوں کی ان پالیسیوں پر بھی مقدمے چلا رہی ہیں جو ماحولیاتی تباہی روکنے کے لیے بنائی گئیں۔ وجہ یہی کہ کرہ ارض کو زندگی کے قابل بنانے والی پالیسیوں کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع میں کمی آ سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے ، جب سے ’’سرمایہ کار اور ریاست کے تنازع کا تصفیہ‘‘نامی مجموعہ قوانین سامنے آیا ہے ، کارپوریٹ کورٹوں کی مدد سے ملٹی نیشنل کمپنیاں مختلف ممالک سے جرمانے کے طور پر ’’۱۵۰‘‘ارب ڈالر کی خطیر رقم وصول کر چکیں۔ ذرا سوچیے، ان اربوں ڈالر سے غریب ممالک میں عوام کی فلاح وبہبود کے کئی کام ہو سکتے ہیں مگر وہ ان مغربی کمپنیوں کی تجوریوں میں چلے گئے جو پہلے ہی سالانہ اربوں ڈالر کماتی ہیں۔

پچھلے ایک عشرے سے کارپوریٹ عدالتوں نے امریکا و برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی جرمانہ کیا ہے۔اسی لیے ان ممالک کے حکمران اب ایسے عالمی معاہدوں سے نکل رہے ہیں جن کی بنا پر وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رحم وکرم پر آ گئے۔ لیکن مغربی ممالک ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کی حکومتوں کو بھی ایسے ہی اقدامات کرنے کی اجازت دینے میں بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ گویا امیر ممالک کے لیے ایک اصول اور ترقی پذیر ملکوں کے لیے بالکل دوسرا اصول!

کولمبیا کے صدر گستاؤ پیترو نے اس منافقت کو للکارتے ہوئے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو قومی عدالتوں کے باہر تنازعات حل کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔اس طرح’’ کولمبیا جیسے ترقی پذیر کو بھیڑئیوں کے منہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔پچھلے دس برس سے کارپوریٹ کورٹوں میں کولمبیا کے خلاف 23 مقدمات چل چکے ۔ان میں سے بیشتر زیرسماعت ہیں۔ یہ مقدمات کان کنی کی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کھڑے کیے جو ماحول دوست اور عوام کی بھلائی کے لیے لیے اپنائے گئے نئے کولمبین قوانین سے ناخوش ہیں ۔وجہ یہی کہ ان قوانین سے ان کے منافع میں کم آ جائے گی۔

مثال کے طور پر کولمبیا آئینی عدالت نے کوئلے کی ایک کان میں توسیع روک دی جو سوئس ملٹی نیشنل کمپنی، گلینکور کی ملکیت ہے۔ وجہ یہ بنی کہ توسیع سے ماحول کو نقصان پہنچ جاتا۔ یہ لاطینی امریکہ میں سب سے بڑی اوپن پٹ کوئلے کی کان ہے۔اس کان کو ہمیشہ شدید مقامی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہوا، مٹی اور پانی کی سپلائی میں زہریلی آلودگی پھیل گئی اور 35 مقامی کمیونٹیز کو ان کے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کا باعث بنی۔

اس فیصلے کے بعد مگر گلینکور نے کارپوریٹ کورٹ میں کولمبیا کو گھسیٹ لیا۔ کمپنی نے کہا کہ کولمبین عدالت کا فیصلہ امتیازی، غیر معقول اور من مانی ہے۔ اس نے کولمبیا کے خلاف چار الگ الگ مقدمات لانے کے لیے مجموعہ قوانین کا استعمال کیا۔ اس نے پہلا کیس جیت لیا اور اسے 19 ملین ڈالر کا انعام دیا گیا، جبکہ باقی تین مقدمے اب بھی غیر ظاہر شدہ رقم کے لیے کارروائی میں ہیں۔

ایک اور کیس میں کولمبین آئینی عدالت نے پیراموس (paramos) کی حفاظت کرنے کا بھی فیصلہ دیا۔یہ مملکت میں نایاب، اونچائی والے ویٹ لینڈ کا ماحولیاتی نظام ہے جو میٹھے پانی کے اہم ذرائع کے طور پر کام کرتا ہے۔اس علاقے میں کینیڈا کی کان کنی کمپنی، ایکو ایرو ( Eco Oro ) کام کر رہی تھی۔اسے آئینی عدالت کا فیصلہ پسند نہیں آیا۔ چناں چہ کولمبیا کو کارپوریٹ عدالت میں لے گئی۔اب وہ چاہتی ہے کہ کولمبیا اس کو 696 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کرے۔ یہ عیاں ہے، ’’سرمایہ کار اور ریاست کے تنازع کا تصفیہ‘‘نامی مجموعہ قوانین دنیا بھر میں ماحول دوست سرکاری پالیسیاں روکنے کے لیے عالمی کمپنیوں کا ہتھیار بن چکا۔

کولمبیا تنہا نہیں ، حالیہ برسوں میں کینیا، جنوبی افریقہ اور ایکواڈور بھی اعلان کر چکے کہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں میں تلوار بن جانے والے مجموعہ قوانین کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ ان تمام تجارتی معاہدوں سے نکلنا چاہتے ہیں جو اس ظالمانہ اور مغربی استعمار کے بنائے مجموعہ قوانین کے تحت انجام پائے۔ کولمبیا جن عالمی معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنا چاہتا ہے ،ان میں سے ایک برطانیہ۔کولمبیا معاہدہ ہے۔ برطانیہ میں کولمبین سفیر نے اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے واضح طور پر کہا ’’ یہ معاہدے کولمبیا اوردیگر ممالک کے لیے مالی بوجھ بن چکے۔‘‘

اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دوسرے مغربی ملک کیا اپنے تخلیق کردہ ظالمانہ مجموعہ قوانین کو ختم کر سکیں گے یا وہ اس کو جاری رکھیں گے تاکہ ان کی ملٹی نیشنل کمپنیاں حسب روایت ترقی پذیر اور غریب ممالک میں اپنی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔ یہ ڈاکہ زنی اسی وقت ختم ہو گی جب مغربی ممالک کے عوام بیدار ہو جائیں اور اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ انسانیت کو مادہ پرستی پر ترجیح دیں۔n

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟

بلوچ یوتھ کمیٹی کی رہنما ماہرنگ بلوچ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جس نے پاکستان میں اور بین الاقوامی سطح پر تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ نامزدگی انسانی حقوق کے لیے سرگرمی سے زیادہ ایک بین الاقوامی پروپیگنڈا منصوبے کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔

Mahrang Baloch & her BYC never condemned the Internationally Designated Terrorist Organization BLA’s terrorism. Not a single word of remorse for innocent people killed in targeted attacks.#MahrangSupportsBLA pic.twitter.com/l4onYptgSb

— Balochistan Insight (@BalochInsight) September 25, 2025

ماہرنگ بلوچ کی نامزدگی کا سلسلہ فروری 2024 میں اس وقت شروع ہوا جب Jørgen Watne Frydnes نوبل کمیٹی کے چیئر بنے۔

مئی 2024 میں ماہرنگ بلوچ ناروے گئیں، جہاں PEN Norway کے ذریعے ان کے لیے لابی شروع ہوئی، اور مارچ 2025 میں جلاوطن صحافی Kiyya Baloch نے ان کی نامزدگی کو منظر عام پر لایا۔

 

اس تناظر میں پاکستان کی 2020 کی یو این ڈوزئیر نے بھی ’را‘اور بی ایل اے تعلقات کو بے نقاب کیا تھا۔

کیا بلوچ (Kiyya Baloch)  جو اسرائیل سے منسلک تھنک ٹینک MEMRI سے منسلک ہے، بلوچستان اسٹڈیز پروجیکٹ چلاتا ہے اور بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کے حامی حلقوں اور نوبل لابی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتا ہے۔

یہ نیٹ ورک بی ایل اے اور بی وائی سی کے بیانیے کو بین الاقوامی سطح پر پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جبکہ سی پیک حملوں کے پیچھے موجود بی ایل اے دہشتگرد گروپ ہے، جبکہ بلوچ یوتھ کمیٹی عسکریت پسندی کو ’حقوق انسانی کی سرگرمی‘ کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ ’را‘ مالی و لوجسٹک معاونت فراہم کرتی ہے۔

اس حوالے سے اوسلو لنک بھی قابل ذکر ہے، جہاں Frydnes کی نوبل کمیٹی میں موجودگی، کیا بلوچ کی لیکس اور ’را‘ کے بیانیے کی بین الاقوامی سطح پر توثیق نے عسکریت پسندی کو ’انسانی حقوق‘ کے پردے میں پیش کرنے کا راستہ فراہم کیا۔

اس تضاد کی مثال یہ ہے کہ ادھی جیسے حقیقی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو نوبل امن انعام نہیں ملا، جبکہ ایک علیحدگی پسند گروپ سے منسلک شخصیت کو یہ موقع فراہم کیا گیا۔ پاکستان کی سرحدی سالمیت کے قوانین کے باوجود، نوبل کے چینلز اس نامزدگی کو عالمی سطح پر معمول کا حصہ بنا رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی انسانی حقوق کی سرگرمی سے زیادہ ’را‘ کے منصوبہ بند پروپیگنڈا کا حصہ معلوم ہوتی ہے، جس میں عسکریت پسندی کو بین الاقوامی سطح پر جائز اور قابل قبول دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • انوشے عباسی نے طلاق خفیہ رکھنے کی وجہ بتادی
  • ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کی نامزدگی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی کا کیا کردار ہے؟
  • ایران اسرائیلی جوہری منصوبوں اور سائنسدانوں کی خفیہ معلومات منظرعام پر  لے آیا
  • اوورسیز پاکستانیوں کی جائیداد کے تنازعات کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں: اسحاق ڈار
  • پنجاب میں قبضے ختم کرانے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم ہوں گی، فیصلے 90 دن میں ہوں گے: وزیراعلیٰ
  • بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کو 114 سال قید کی سزا، انسدادِ دہشت گردی عدالت کا فیصلہ
  • اوور سیز پاکستانیوں کی جائیداد کے تنازعات کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں: اسحاق ڈار
  • جائیداد تنازعات، اوور سیز کو فوری انصاف ملے گا، حکومت کا خصوصی عدالتیں بنانے کا اعلان
  • اوورسیز پاکستانیوں کی جائیداد کے تنازعات کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کی جارہی ہیں: اسحاق ڈار
  • ایران نے اسرائیلی جوہری منصوبوں اور تنصیبات کی خفیہ معلومات ظاہر کر دیں