پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ہی جانب مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑتا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست سن انیس سو سنیتالیس کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے تھے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر آزاد کیا گیا تھا۔ بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا جبکہ مسلم اکثریتی قوم ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا تھا مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات قائم نہیں رہ پائے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی جنگوں جبکہ متعدد سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ سن انیس سو اکتھر اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیرکی تحریک آزادی رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ سن انیس سو اسی کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان میں تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا جانے لگا تھا۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع، سن انیس سو نواسی میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، سن انیس سو نوازسی میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور سن انیس سو ننانوے کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سن دو ہزار تین میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ اور سرحد پار بس سرورس کا آغاز کیا گیا تھا مگر تعلقات کو بہت بنانے کے لیے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں سن دو ہزار ایک میں بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، سن دو ہزار سات میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور چھبیس نومبر سن دو ہزار آٹھ ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ سن دو ہزار تیرہ بی بی سی کے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق تقریباً چون فیصد پاکستانیوں کی نظر میں بھارت کا رویہ منفی جبکہ انیس فیصد کے نزدیک مثبت رہا ہے۔ دوسری جانب گیارہ فیصد بھارتیوں کے نزدیک پاکستان کا رویہ مثبت رہا جبکہ پیتالیس فیصد کے نزدیک منفی رویہ دیکھا گیا۔
مئی سن بیس پچیس کی ابتدأ نے جنوبی ایشیا کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا تھا۔ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کیا بلکہ دو ایٹمی طاقتوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو شدید متاثر بھی کرکے رکھ دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر ’’دی ریزسٹنس فرنٹ‘‘ نے قبول کرلی تھی جو بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر واپس لے لی گئی تھی۔ تاہم بھارت نے حسب عادت الزام اس حملے کے فوری بعد پاکستان پر الزام عائد کیا کہ ’’دہشت گردی کو سرحد پار سے تقویت دی جا رہی ہے‘‘ جس پر حکومت پاکستان نے سختی سے انکار کرتے ہوئے اس کی شدید مزاحمت کی کی تھی پھر بھی بھارت حکومت نے اپنی ازلی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی کرتے ہوئے چھے مئی کی شب پاکستان پر حملہ کیا جس میں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے مبینہ ٹھکانوں پر میزائل حملے شامل تھے، یہ کارروائی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ایک نئے مرحلے میں لے گئیں۔ اس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف اپنے فضائی دفاع کو فعال کیا بلکہ کئی بھارتی ڈرونز اور ساتھ ہی تین فرانسسی ساختہ کے ’’رافیل‘‘ طیارے ایک میک اور یوسی طیارے شامل تھے اور متعدد فوجی چھاؤنیوں اور اہم مراکز کو ہداف بنایا جس کے نتائج میں کئی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چھے مئی سے جاری فضائی جھڑپوں میں دونوں ممالک کی جدید جنگی مشینری آمنے سامنے آئی، جس نے خطے میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی تھی۔ ایک خبر کے مطابق فرانس کی حکومت نے بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنی خفگی اور ناراضی ہونے کا اظہار بھی کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی چین اور بنگلہ دیش سمیت کئی برادر ممالک نے اپنی حمایت اور ساتھ کی حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اقدام بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہے جو سن انیس سو ساٹھ سے دونوں ممالک کے درمیان آبی اشتراک کی بنیاد رہا ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی بلکہ ایک جنگی عمل قرار دیا تھا۔ اس تمام ترت صورت حال میں عالمی برادری کی مداخلت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ اور چین جیسے ممالک دونوں فریقین سے تحمل کی اپیل کررہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش بھی کردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک عقل و فہم سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ مزید مسائل کو جنم لیتی ہے اور اس سے حکومتی سطح سے زیادہ عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے، مل بیٹھ کر خطے کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ امن کی طرف پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہوتا ہے مگر یہی قدم قوموں کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔ تاریخ ان ہی قوموں کو یاد رکھتی ہے جو جنگ نہیں، امن کی راہ پر چلتی ہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں میڈیا کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ بعض اوقات میڈیا حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جیسا کہ اس وقت بھارتی میڈیا کررہا ہے اس سے عوامی جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ بھارت میں چند چینل ہندو مسلم کو لڑانے کی درپے ہیں اور شہروں میں گھوم گھوم کر ایسے سوالات کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں جس سے عوام میں انتشار اور اشتعال پھیل رہا ہے اگر دیکھا جائے تو بھارت حکومت اس نازک دور میں ایسا طرح کی بیوقوفی کرنے کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔ فیس بک پر ہی ایک کلپ دیکھا جس میں ہمارے ملک کے نام ور سیاست دان نے ایک پروگرام میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ سے کیا کہ ’’یہ پاک بھارت جنگ سے زیادہ چین اور مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی جنگ نظر آئی‘‘ اس وقت بھی دونوں ممالک میں حب الوطنی کے نام پر جنگی بیانیہ دے رہے ہیں، جس سے بات چیت کے دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ذمہ دار صحافت اور متوازن رپورٹنگ ہی موجودہ بحران میں کمی لاسکتی ہے۔ یہ کشیدگی صرف سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کی معیشت پر بھی برا اثر ڈال رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹس میں گراوٹ، کرنسی کی قدر میں کمی اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ جیسے اثرات دونوں ممالک کو معاشی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جنگ نہیں بلکہ اقتصادی استحکام کی طرف توجہ دینا دونوں ممالک کے مفاد میں رہے گا۔ آج کی نوجوان نسل جنگ سے نہیں، تعلیم، روزگار اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ امن، تعاون اور ترقی کے خواب دیکھتی ہے۔ اگر دونوں ممالک کے نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ دشمنی کے بجائے دوستی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
اس موقع پر اقوام متحدہ یا اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی جیسے بین الاقوامی اداروں کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جنگ کے امکانات کو ختم کیا جاسکے اور ایک بامعنی مذاکراتی عمل کا آغاز ہو۔
بقول فراق گورکھ پوری
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان پاکستان اور بھارت پاک بھارت تعلقات کو کی بنیاد رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
جنگ بندی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کیجانب ایک اہم قدم ہے: مراد علی شاہ
وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسےامن کی فتح اور خطے کی پائیداری کے خواہشمند تمام افراد کی فتح سے منسوب کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس اعلان کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی۔ جنگ بندی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کی جانب ایک اہم قدم ہے اور دونوں ممالک کو بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کو مستقل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرے۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے قومی سلامتی کو برقرار رکھنے میں مسلح افواج کے کردار کو سراہا۔
انہوں نے خصوصی طور پر پاک فضائیہ، صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت کو مبارک باد پیش کی جن کی کوششوں اور اقدامات سے جلد ہی جنگ بندی ممکن ہوسکی۔
مزید برآں مراد علی شاہ نے دوست ممالک بالخصوص امریکا کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے معاہدے کے حصول کو آسان بنانے کے لیے سفارتی طورپر اہم کرادار ادا کیے۔
مرادعلی شاہ نے امن کی وکالت کرنے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف کی نمائندگی کرنے پر پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کا بھی اعتراف کیا۔