Daily Ausaf:
2025-06-27@00:06:37 GMT

پاک بھارت کشیدگی

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ دونوں ہی جانب مختلف واقعات سے تعلقات پر بہت گہرا اثر پڑتا رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت بالترتیب چودہ اور پندرہ اگست سن انیس سو سنیتالیس کو آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئے تھے۔ دونوں ممالک کو برطانوی ہند کو ہندو مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر آزاد کیا گیا تھا۔ بھارت جس میں ہندو اکثریتی قوم تھی، ایک سیکولر ریاست قرار پایا جبکہ مسلم اکثریتی قوم ہونے کی وجہ سے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ ریاست کا نام دیا گیا۔ آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہرکیا تھا مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات قائم نہیں رہ پائے۔ آزادی کے وقت سے اب تک دونوں ممالک چار بڑی جنگوں جبکہ متعدد سرحدی جھڑپوں میں ملوث رہ چکے ہیں۔ پاک بھارت جنگ سن انیس سو اکتھر اور جنگ آزادی بنگلہ دیش کے علاوہ تمام جنگوں اور سرحدی کشیدگیوں کامحرک کشمیرکی تحریک آزادی رہی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا، شملہ اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے۔ سن انیس سو اسی کی دہائی سے دونوں ممالک کے تعلقات کے درمیان میں تاریخ ساز بگاڑ محسوس کیا جانے لگا تھا۔ اس بگاڑ کا سبب سیاچن کا تنازع، سن انیس سو نواسی میں کشمیر میں بڑھتی کشیدہ صورت حال، سن انیس سو نوازسی میں بھارت اور پاکستانی ایٹمی دھماکے اور سن انیس سو ننانوے کی کارگل جنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان میں کشیدہ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سن دو ہزار تین میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ اور سرحد پار بس سرورس کا آغاز کیا گیا تھا مگر تعلقات کو بہت بنانے کے لیے تمام کوشش پے در پے رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی نظر ہوتی گئیں۔ جن میں سن دو ہزار ایک میں بھارتی پارلیمان عمارت پر حملہ، سن دو ہزار سات میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کا دھماکا اور چھبیس نومبر سن دو ہزار آٹھ ممبئی میں دہشت گردی کی کاروائیاں شامل ہیں۔ سن دو ہزار تیرہ بی بی سی کے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ایک سروے کے مطابق تقریباً چون فیصد پاکستانیوں کی نظر میں بھارت کا رویہ منفی جبکہ انیس فیصد کے نزدیک مثبت رہا ہے۔ دوسری جانب گیارہ فیصد بھارتیوں کے نزدیک پاکستان کا رویہ مثبت رہا جبکہ پیتالیس فیصد کے نزدیک منفی رویہ دیکھا گیا۔
مئی سن بیس پچیس کی ابتدأ نے جنوبی ایشیا کو ایک مرتبہ پھر جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کردیا تھا۔ جموں و کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے نے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع کیا بلکہ دو ایٹمی طاقتوں، پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو شدید متاثر بھی کرکے رکھ دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر ’’دی ریزسٹنس فرنٹ‘‘ نے قبول کرلی تھی جو بعد میں نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر واپس لے لی گئی تھی۔ تاہم بھارت نے حسب عادت الزام اس حملے کے فوری بعد پاکستان پر الزام عائد کیا کہ ’’دہشت گردی کو سرحد پار سے تقویت دی جا رہی ہے‘‘ جس پر حکومت پاکستان نے سختی سے انکار کرتے ہوئے اس کی شدید مزاحمت کی کی تھی پھر بھی بھارت حکومت نے اپنی ازلی ہٹ دھرمی کو برقرار رکھتے ہوئے ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے فوجی کارروائی کرتے ہوئے چھے مئی کی شب پاکستان پر حملہ کیا جس میں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے مبینہ ٹھکانوں پر میزائل حملے شامل تھے، یہ کارروائی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو ایک نئے مرحلے میں لے گئیں۔ اس کے جواب میں پاکستان نے نہ صرف اپنے فضائی دفاع کو فعال کیا بلکہ کئی بھارتی ڈرونز اور ساتھ ہی تین فرانسسی ساختہ کے ’’رافیل‘‘ طیارے ایک میک اور یوسی طیارے شامل تھے اور متعدد فوجی چھاؤنیوں اور اہم مراکز کو ہداف بنایا جس کے نتائج میں کئی فوجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چھے مئی سے جاری فضائی جھڑپوں میں دونوں ممالک کی جدید جنگی مشینری آمنے سامنے آئی، جس نے خطے میں خوف و ہراس کی فضا قائم کر دی تھی۔ ایک خبر کے مطابق فرانس کی حکومت نے بھارتی حکومت سے شدید احتجاج کرتے ہوئے اپنی خفگی اور ناراضی ہونے کا اظہار بھی کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی چین اور بنگلہ دیش سمیت کئی برادر ممالک نے اپنی حمایت اور ساتھ کی حکومت پاکستان کو یقین دہانی بھی کرا دی ہے۔
اس سے بھی زیادہ تشویش ناک اقدام بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی معطلی ہے جو سن انیس سو ساٹھ سے دونوں ممالک کے درمیان آبی اشتراک کی بنیاد رہا ہے۔ پاکستان نے اس اقدام کو نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی بلکہ ایک جنگی عمل قرار دیا تھا۔ اس تمام ترت صورت حال میں عالمی برادری کی مداخلت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ اور چین جیسے ممالک دونوں فریقین سے تحمل کی اپیل کررہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی پیشکش بھی کردی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک عقل و فہم سے کام لیتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ مزید مسائل کو جنم لیتی ہے اور اس سے حکومتی سطح سے زیادہ عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر الزامات لگانے کے بجائے، مل بیٹھ کر خطے کے دیرینہ مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ امن کی طرف پہلا قدم ہمیشہ مشکل ہوتا ہے مگر یہی قدم قوموں کے مستقبل کا تعین کرتی ہیں۔ تاریخ ان ہی قوموں کو یاد رکھتی ہے جو جنگ نہیں، امن کی راہ پر چلتی ہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں میڈیا کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ بعض اوقات میڈیا حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے جیسا کہ اس وقت بھارتی میڈیا کررہا ہے اس سے عوامی جذبات بھڑک اٹھے ہیں۔ بھارت میں چند چینل ہندو مسلم کو لڑانے کی درپے ہیں اور شہروں میں گھوم گھوم کر ایسے سوالات کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں جس سے عوام میں انتشار اور اشتعال پھیل رہا ہے اگر دیکھا جائے تو بھارت حکومت اس نازک دور میں ایسا طرح کی بیوقوفی کرنے کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔ فیس بک پر ہی ایک کلپ دیکھا جس میں ہمارے ملک کے نام ور سیاست دان نے ایک پروگرام میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ سے کیا کہ ’’یہ پاک بھارت جنگ سے زیادہ چین اور مغربی ممالک کی ٹیکنالوجی جنگ نظر آئی‘‘ اس وقت بھی دونوں ممالک میں حب الوطنی کے نام پر جنگی بیانیہ دے رہے ہیں، جس سے بات چیت کے دروازے بند ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ذمہ دار صحافت اور متوازن رپورٹنگ ہی موجودہ بحران میں کمی لاسکتی ہے۔ یہ کشیدگی صرف سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ دونوں ممالک کی معیشت پر بھی برا اثر ڈال رہی ہے۔ اسٹاک مارکیٹس میں گراوٹ، کرنسی کی قدر میں کمی اور سرمایہ کاری میں رکاوٹ جیسے اثرات دونوں ممالک کو معاشی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں جنگ نہیں بلکہ اقتصادی استحکام کی طرف توجہ دینا دونوں ممالک کے مفاد میں رہے گا۔ آج کی نوجوان نسل جنگ سے نہیں، تعلیم، روزگار اور ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ امن، تعاون اور ترقی کے خواب دیکھتی ہے۔ اگر دونوں ممالک کے نوجوانوں کو مواقع فراہم کیے جائیں تو وہ دشمنی کے بجائے دوستی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
اس موقع پر اقوام متحدہ یا اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی جیسے بین الاقوامی اداروں کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ جنگ کے امکانات کو ختم کیا جاسکے اور ایک بامعنی مذاکراتی عمل کا آغاز ہو۔
بقول فراق گورکھ پوری
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان پاکستان اور بھارت پاک بھارت تعلقات کو کی بنیاد رہے ہیں رہا ہے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو خراج تحسین، پاک بھارت کشیدگی کم کرانے پر سراہا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی عالمی سطح پر قیام امن کے لیے خدمات کو سراہاہوئے  کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے اور ممکنہ جوہری تصادم کو روکنے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اہم اور مؤثر کردار ادا کیا۔

نیٹو اجلاس کے بعد دی ہیگ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان کشیدگی دنیا بھر کے لیے خطرہ بن سکتی تھی،’ہم نے کئی بار فون کالز کے ذریعے دونوں ملکوں کو جنگ سے روکا، ہم نے کہا کہ جنگ نہیں، تجارت کرو، ایسے نازک وقت میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی حالیہ ملاقات وائٹ ہاؤس میں فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ہوئی، جہاں ان کے اعزاز میں ظہرانہ بھی دیا گیا، اس ملاقات میں ایران، اسرائیل، راونڈا، کانگو اور جنوبی ایشیا کے حالات پر بھی تبادلہ خیال ہوا، تاہم پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا معاملہ خاص طور پر گفتگو کا مرکز رہا۔

امریکی صدر نے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی شخصیت متاثرکن ہے، وہ نہ صرف ایک مضبوط عسکری قیادت رکھتے ہیں بلکہ سفارتی فہم و بصیرت بھی رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے حساس تنازع میں انہوں نے انتہائی متوازن رویہ اپنایا اور جنگ کے بجائے بات چیت کو ترجیح دی۔

واضح رہے کہ کچھ روز قبل فیلڈ مارشل عاصم منیر نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میں نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو بھارت کے خلاف جنگ نہ کرنے پر شکریہ ادا کرنے کے لیے مدعو کیا، کیونکہ ان کا کردار صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ دنیا کے امن کے لیے قابل ستائش ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ
  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوطرفہ سیاسی مشاورت کے دوسرے دور کا ابوظہبی میں انعقاد
  • صدر ٹرمپ کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو خراج تحسین، پاک بھارت کشیدگی کم کرانے پر سراہا
  • پاک بھارت جنگ کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے درمیان پہلی ملاقات کا امکان
  • پاک بھارت کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے درمیان پہلی بالمشافہ ملاقات کا امکان
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات  کامیاب؛آئندہ ہفتے معاہدے کی تکمیل پر اتفاق
  • پاکستان اور یو اے ای کا معاہدہ، مخصوص پاسپورٹ پر ویزہ کی شرط ختم
  • پاکستان امارات  مشترکہ وزارتی کمیشن اجلاس؛ سرکاری و سفارتی پاسپورٹ پر ویزا کی شرط ختم
  • پاکستان-ترکی بزنس کونسل کااجلاس، ایف ٹی اے معاہدے پر زور
  • ایرانی حملے پر حیرت ہوئی، یہ دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر ڈالیں گے: قطری وزیراعظم