پاکستان سے جنگ بندی: بھارتی سیکریٹری خارجہ اور ان کی بیٹی تنقید کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
پاکستان سے جنگ بندی: بھارتی سیکریٹری خارجہ اور ان کی بیٹی تنقید کی زد میں WhatsAppFacebookTwitter 0 12 May, 2025 سب نیوز
نئی دہلی :بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کو ان کے ملک کے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید تنقید اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بھارتی میڈیاکے مطابق اتوار کو سوشل میڈیا صارفین نے وکرم مسری اور ان کی بیٹی کو گالیاں دیں اور ان کی نجی زندگیوں کو بھی نشانہ بنایا۔
اعلٰی بھارتی سفارت کار کو ’غدار‘ اور ’دیش دروہی‘ کہا گیا جبکہ بعض پوسٹوں میں ان کی بیٹی پر تنقید کرتے ہوئے ان کی شہریت کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے۔
تاہم بعض بھارتی صحافیوں نے وکرم مسری اور ان کی بیٹی کو گالیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
صحافی سواتی چترویدی نے کہا کہ ’ان ٹرولز کے خلاف لازمی کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے وکرم مسری کی بیٹی کی نجی معلومات شیئر کیں اور انہیں گالیاں دیں۔‘
فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے یہ نیوی افسر وِنے نروال کی بیوی ہمانشی ناروال کے پیچھے پڑے۔ اور اب وہی ٹرولز انڈیا کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور ان کی بیٹی کو گالیاں نکال رہے ہیں اور ان کا موبائل نمبر شیئر کر رہے ہیں۔‘
بھارتی سیکریٹری خارجہ نے سوشل میڈیا پر اس تنقید کے بعد اپنا ایکس اکاؤنٹ پرائیوٹ کر دیا ہے۔
خیال رہے ہفتہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے بھی جنگ بندی کی تصدیق کی۔ امریکی وزیر خارجہ مارک روبیو نے جنگ بندی پر دونوں ممالک کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان اور بھارت کے ایک غیرجانبدار مقام پر کئی اہم امور پر بات چیت شروع کرنے پر تیار ہیں۔‘
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحماس نے آخری زندہ امریکی قیدی کو رہا کرنے کا اعلان کردیا حماس نے آخری زندہ امریکی قیدی کو رہا کرنے کا اعلان کردیا پاک بھارت کشیدگی ،امریکہ وزیر خارجہ کا جنگ بندی برقرار رکھنے پر زور بھارتی فوجی افسران نے ڈھکے چھپے الفاظ میں رافیل کی تباہی کا اعتراف کرلیا بھارتی اپوزیشن کا نریندر مودی سے پہلگام واقعے، آپریشن سندور پر پارلیمان میں جواب دینے کا مطالبہ نئے پوپ لیو کا پاک بھارت جنگ بندی کا خیر مقدم، غزہ میں بھی جنگ بندی کا مطالبہ چینی صدر شی جن پھنگ کی اپنی ماں سے محبت کی داستانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سیکریٹری خارجہ اور ان کی بیٹی
پڑھیں:
بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز
ریاض احمدچودھری
شدت پسند مودی حکومت کے دور میں ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا، حالیہ ہندو مسلم فسادات نے بھارت میں مذہبی رواداری اور جمہوریت کے دعوؤں کو بے نقاب کر دیا۔ کانپور سے شروع ہونے والے مذہبی تنازع نے 4 ستمبر کو بڑے فسادات کی شکل اختیار کر لی جسے مبصرین نے "گجرات ٹو” قرار دیا ہے، یہ آگ تیزی سے دیگر ریاستوں میں بھی پھیل گئی۔ فسادات کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں متعدد معصوم مسلمان زخمی ہوئے جبکہ پولیس نے اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں مظاہرین کے خلاف مقدمات درج کر لیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی حکومت کا ہندوتوا ایجنڈا بھارت کو فاشزم کی تجربہ گاہ میں بدل چکا ہے، نہ صرف اظہارِ رائے بلکہ مذہبی آزادی بھی اب مکمل طور پر ہندوتوا نظریے کی تابع بنا دی گئی ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ مودی کی سیاست نے بھارت کو مذہبی منافرت اور ریاستی جبر کے اندھیرے میں دھکیل دیا ہے جس کے نتیجے میں مسلمان مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
سال 2025ء کی آمد پر بھارتی ریاست منی پور میں خونریزی اور نسلی فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر چکا ہے، جہاں مسیحی برادری اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ منی پور کے علاقے امپھال میں عسکریت پسندوں نے حالیہ حملے کیے ہیں جس کے نتیجے میں کئی افراد اپنے گھروں کو چھوڑرہے ہیں۔ان حملوں میں عسکریت پسندوں نے جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا اور نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا۔ حملوں کے بعد، کوکی قبائل کے افراد نے بھارتی فورسز اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا، اور ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فورسز نے عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے گاؤں والوں کو لوٹا۔ مقامی رہنماؤں کا الزام ہے کہ مودی سرکار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے نہتے عوام کی زندگیوں سے کھیل رہی ہے۔کوکی قبائل کے افراد نے یہ بھی کہا کہ بھارتی حکومت کی متصبانہ پالیسیوں اور فرقہ وارانہ حکمت عملیوں کے باعث منی پور میں حالات مزید بگڑ چکے ہیں، اور مقامی لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی سرکار نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔یہ واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ منی پور میں نسلی اور مذہبی کشیدگی کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی اور عدم مداخلت کی وجہ سے ریاست میں امن و سکون کی فضا متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے فوری طور پر مداخلت کی اپیل کی ہے تاکہ اقلیتی برادریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور اس بحران پر قابو پایا جا سکے۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کو منظم طور پر ہوا دینے کے واقعات دستاویزی شکل میں موجود ہیں۔ امتیازی شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) سے لے کر گھروں کو بلڈوز کرنے تک؛ 2002 کے گجرات قتل عام سے لے کر 2020 کے دہلی فسادات تک؛ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت سے لے کر 2024 میں اس کے ملبے پر مندر کی تعمیر تک؛ گاؤ کے تحفظ کی آڑ میں تشدد اور پر ہجوم تشدد کے واقعات سے لے کر مساجد اور مزارات پر حملے—ہندوستان کا ریکارڈ مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں سے داغدار ہے۔
بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت مسلم ثقافت، مذہبی ورثے اور تاریخی شناخت کو نشانہ بنانے کی منظم مہم پر گامزن ہے۔ مودی سرکار کی یہ پالیسیاں بھارت کو ”ہندو راشٹر” میں تبدیل کرنے کے انتہاء پسندانہ ایجنڈے کی عکاس ہیں۔مودی حکومت کے تحت مساجد کی شہادت، تاریخی عمارتوں پر قبضے اور مسلمانوں سے منسوب شہروں کے نام تبدیل کرنے جیسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے، جو بھارتی مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ نفرت اور سیاسی مفاد پر مبنی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔دی ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اْتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع لکھیم پور کھیری کے علاقے مصطفیٰ آباد کا نام بدل کر کبیر دھام رکھنے کا اعلان کیا ہے۔مقامی ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے مصطفی آباد کا نام کبیر دھام رکھا جائے گا۔یوگی آدتیہ ناتھ کا الزام ہے کہ ماضی میں مسلمان حکمرانوں نے ایودھیا کا نام فیض آباد، اور پریاگ راج کا الہٰ آباد رکھا تھا۔اب مودی حکومت تاریخی مقامات کے نام ہندو مذہب سے منسوب کرنے کی مہم جاری رکھے گی۔آدتیہ ناتھ نے کہا ہے کہ فنڈز اب قبرستانوں کی چاردیواری کی تعمیر کے بجائے ہندو عقیدے اور ورثہ کی ترقی کیلئے استعمال ہوں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، بی جے پی کی یہ مہم محض شہروں کے ناموں کی تبدیلی نہیں بلکہ بھارت کی مسلم تاریخ اور شناخت کو مٹانے کی سازش ہے۔ مودی کا نعرہ ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس” عملی طور پر ”سب کو مٹاؤ، ایک کا راج” میں بدل چکا ہے۔بھارتی مسلمان، مودی حکومت کی سرپرستی میں ریاستی سطح پر جاری نفرت، انتقام اور فرقہ وارانہ تقسیم کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔