محکمہ صحت پنجاب نے 450 ڈاکٹروں کو عارضی تقرر کے لیٹرز جاری کر دیے
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 12 مئی ۔2025 )محکمہ صحت پنجاب نے لاہور سمیت صوبے بھر کے سرکاری ٹیچنگ ہسپتالوں میں ہنگامی حالات میں ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے 450 ڈاکٹروں کو عارضی تقرر کے لیٹرز جاری کر دیے، جن میں مرد و خواتین میڈیکل افسران کے علاوہ 25 کنسلٹنٹ/سینئر رجسٹرارز بھی شامل ہیں.
(جاری ہے)
نجی ٹی وی کے مطابق محکمہ صحت پنجاب کی جاری کردہ اسکیم کے مطابق سینئر رجسٹرارز/کنسلٹنٹس کو 10 ہزار روپے جبکہ میڈیکل افسر/خواتین میڈیکل افسر کو ڈیوٹی کے مقرر کردہ اوقات کار آٹھ گھنٹے پورے کرنے پر 8 ہزار روپے ادا کیے جائیں گے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس لاہور نے پنجاب کے سرکاری و تدریسی ہسپتالوں میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کی ہڑتال کی کال کے بعد اب تک ساڑھے 4 ہزار ڈاکٹروں کو رجسٹر کیا ہے جن میں کنسلٹنٹس، میڈیکل افسران/خواتین میڈیکل افسران شامل ہیں.
باخبر ایک عہدیدار نے بتایا امریکا، برطانیہ اور خلیج سمیت پوری دنیا میں ڈاکٹرز کی عارضی تقرری کی جاتی ہے جس کے تحت ضرورت پڑنے پر ہسپتالوں میں اسٹاف کی کمی کو پورا کیا جاتا ہے تاہم یہ تقرری عارضی ہوتی ہے اور ان ڈاکٹرز کو مستقل ملازمت نہیں دی جاتی محکمہ صحت پنجاب کی جاری کردہ اسکیم میں محض ایک ہفتے کے عرصے میں ہی رجسٹریشن مکمل ہوگئی. تاہم عہدیدار نے اسکیم پر اتنا زیادہ اور غیر متوقع ردعمل کو انتہائی پریشان کن رجحان قرار دیا اور کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں قابل اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی ایک بہت بڑی تعداد بے روزگاری کا سامنا کر رہی ہے محکمہ پنجاب صحت کی جانب سے یہ عمل اس وقت کیا گیا جب وائی ڈی اے پنجاب نے سہولیات کی آﺅٹ سورسنگ کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا تھا تاکہ ہسپتالوں کے آﺅٹ پیشنٹ (او پی ڈیز) اور ان ڈور ڈیپارٹمنٹس میں مریضوں کی بلاتعطل دیکھ بھال کو یقینی بنایا جاسکے. محکمہ صحت پنجاب کے خط کے مطابق مجاز اتھارٹی نے دی گئی شرائط کے تحت عارضی بنیادوں پر ڈاکٹروں کی بھرتی کی اجازت دینے پر خوشی کا اظہار کیا اور یو ایچ ایس لاہور کو قوانین کے مطابق سینئر رجسٹرار، کنسلٹنٹس اور میڈیکل افسران کی پوسٹوں کے لیے عارضی ڈاکٹروں کی اہلیت کا تعین کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے اسکیم کے تحت یو ایچ ایس لاہور عارضی ڈاکٹروں کو مراکزصحت یا ٹیچنگ ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کے اختیار میں رکھے گی جبکہ رجسٹریشن کے لیے درخواست دیتے وقت امیدواروں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ضلع کا انتخاب خود کرسکیں جہاں پر وہ تعینات ہونا چاہتے ہیں. منتخب ڈاکٹرز کو ایک ماہ کے لیے بھرتی کیا جائے گا جس میں ضرورت پڑنے پر توسیع بھی کی جاسکتی ہے اس دوران انہیں تفویض کردہ شفٹ کے دوران ڈیوٹی کے فرائض سرانجام دینے ہوں گے اور وہ اپنی حاضری کسی بھی ڈیجیٹل ایپ یا ڈیوائس کے ذریعے لگا سکتے ہیں پنجاب بھر میں عارضی بنیادوں پر قابل نرسنگ اسٹاف کی بھرتی کا عمل بھی جاری ہے اور صرف دو دن میں ہی 150 نرسوں نے اسکیم کے لیے رجسٹریشن کروالی ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میڈیکل افسران ڈاکٹروں کو کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
بینظیر انکم سپورٹ یا ووٹ بینک اسکیم؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
عبید مغل
خیرات کا ذکر ہو تو ایک پرانا، مگر پْراثر محاورہ ذہن میں گونجتا ہے: ’’Charity begins at home‘‘ یعنی نیکی کا آغاز اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ مگر پاکستان میں نیکی نہیں، نمائش کا آغاز ہوتا ہے وہ بھی قوم کے خالی پیٹ، قرض کے پیسوں اور حکمرانوں کی رنگین تصویروں کے ساتھ! بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کو ملک کا سب سے بڑا فلاحی منصوبہ قرار دیا گیا ہے، مگر اصل میں یہ ایک ایسا سیاسی مزار بن چکا ہے۔ جس کو ہر سال غسل عوام کے خون سے دیا جاتا ہے، اور جس کے در و دیوار پر بزرگانِ دین کے بجائے ایک مخصوص سیاسی خاندان کے چہرے آویزاں ہیں۔ ایسے چہرے جنہوں نے نہ اس میں عطیہ دیا، نہ اپنی جیب سے ایک روپیہ خرچ کیا اور پھر بھی کریڈٹ لینے کے لیے صف ِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ قوم کی بدقسمتی دیکھیے اس پروگرام کی بنیاد پیپلز پارٹی نے رکھی، نام دیا ’’بے نظیر‘‘ تاکہ شہادت، ہمدردی اور جذبات کو بیلٹ باکس تک لایا جا سکے اور بخوبی لایا جا رہا ہے! مگر جب سوال ہوتا ہے کہ آصف زرداری، بلاول یا فریال تالپور نے بطور فرد یا جماعت اس پروگرام میں کیا مالی حصہ ڈالا؟ تو جواب ’’خاموشی کے قبرستان‘‘ میں دفن ہو جاتا ہے۔ نہ رسید، نہ اعلان، نہ فنڈ کا سراغ۔ بس عوام کا پیسہ، غیر ملکی قرضے اور ریاستی وسائل، اور ان پر لگا بھٹو خاندان کا لیبل۔ یہ پیپلز پارٹی کا تیار کردہ ایسا نسخہ ہے جس میں بھیک کو بقا، غلامی کو خدمت، اور محتاجی کو پالیسی بنا دیا گیا ہے۔
چند ہزار روپے کی قسط ہر چند ماہ بعد ایسے دی جاتی ہے جیسے کسی جانور کو دانہ ڈال کر پالاجا رہا ہو نہ تعلیم، نہ ہنر، نہ شعور۔ یہاں غربت کو سیاست کی خوراک بنایا گیا ہے تاکہ غلامی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کہ دنیا میں حکومتیں غربت ختم کرنے کے لیے علم، ہنر، روزگار اور مواقع دیتی ہیں۔ مگر یہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے! زرداری اور شہباز صاحب قوم سے ٹیکس لیتے ہیں، پھر اسی ٹیکس کو ’’خیرات‘‘ بنا کر بینظیر کے نام سے واپس دیتے ہیں جیسے گویا محترمہ نے عالم ِ برزخ سے کسی نورانی چیک پر دستخط کر دیے ہوں! حقیقت یہ ہے کہ حکومت کا اصل مقصد ریلیف دینا نہیں، بلکہ سیاسی احسان جتانا ہوتا ہے۔ قوم کی کھال اتار کر، ہر چیز پر ٹیکس لیا جاتا ہے پھر اسی ٹیکس کے پیسے سے خیرات کی قسط آتی ہے اور اس پر تصویر بھی چسپاں کی جاتی ہے۔
قیمتیں آسمان پر، خیرات زمین پر جیسا کہ گیس، جو ہماری زمین سے نکلتی ہے، اس پر بھی عالمی نرخ لاگو ہیں۔ پٹرول جب دنیا بھر میں سستا ہوتا ہے، تب بھی یہاں سستا نہیں ہوتا۔ آٹا، دودھ، سبزیاں، دوائیں سب چھت توڑ مہنگی۔ یہ کیسی ریاست ہے جو نہ مہنگائی کم کر سکتی ہے، نہ تعلیم دے سکتی ہے، نہ صحت، نہ روزگارمگر دعویٰ کرتی ہے: ’’ہم نے بھٹو کے نام پر خیرات دے دی!‘‘۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اصل خدمت کہاں ہو رہی ہے؟ وہ ادارے جن کا بس ایک ہی مشن: خدمت برائے خدا۔ الخدمت فاؤنڈیشن: 60 اسکول، اسپتال، یتیم خانے، جیلوں میں تربیت۔ بنو قابل پروگرام: 50,000 نوجوانوں کو آئی ٹی و روزگار سے جوڑ چکا۔ اخوت: 40 لاکھ خاندانوں کو بلا سود قرض، مفت یونیورسٹی۔ سیلانی ٹرسٹ: لاکھوں کو کھانا، ہنر، علاج۔ یہ وہ ادارے ہیں جو بلا امتیاز خاموشی سے روشنی بانٹ رہے ہیں وہ بھی عوام سے ٹیکس لیے بغیر، کوئی کرپشن کیے بغیر۔ اب سوال عالمی اداروں سے بھی ہے کہ جن عالمی اداروں کو اصل میں غربت کے خاتمے سے دلچسپی ہونی چاہیے اْن کو اپنے سیاسی ایجنڈے سے زیادہ محبت ہے اسی لیے وہ ہماری انہی بدعنوان حکومتوں کو اربوں روپے دیتے ہیں جو خود عوام کو غلام بناتی ہیں تاکہ استعمار کے اتحادی حکمران قوم پر مسلط رہیں اور عالمی منڈیوں کے لیے بوجھ ڈھونے والے کاندھے تیار کرتے رہیں۔