صدر ٹرمپ نے اسرائیلی نژاد امریکی فوجی کی رہائی کے اعلان کو تاریخی قراردیدیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 12 مئی ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیلی نژاد امریکی فوجی عیدان الیگزینڈر کی رہائی کے حماس کے فیصلے کو سراہتے ہوئے اسے تاریخی خبر قرار دیا ہے انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور غزہ میں جاری لڑائی کا خاتمہ ہو گا.
(جاری ہے)
انہوں نے قیدی کی رہائی کو نیک نیتی کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امید ہے یہ قدم اس خون ریز تنازع کے خاتمے کی جانب ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گا صدر ٹرمپ نے تمام ثالثوں خصوصاً مصر اور قطر کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے اس رہائی میں کردار ادا کیا. یادرہے کہ گزشتہ روز حماس نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی امریکی فوجی عیدان الیگزینڈر کو رہا کرے گی یہ اعلان ان اطلاعات کے فوراً بعد سامنے آیا جن کے مطابق حماس کے کچھ راہنماﺅں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کی جس میں جنگ بندی اور غزہ میں امدادی سامان کے داخلے جیسے امور زیر بحث آئے. حماس کے وفد کے سربراہ نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی اور امریکی شہریت رکھنے والے فوجی عیدان الیگزینڈر کی رہائی ان کوششوں کا حصہ ہے جن کا مقصد جنگ بندی، سرحدی راہ داریوں کا کھولا جانا اور غزہ کے عوام تک امداد اور راحت رسانی پہنچانا ہے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس فوری اور بھرپور مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے حتمی معاہدے تک پہنچا جا سکے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی امریکی فوجی کی رہائی منگل کے روز عمل میں آئے گی مصر اور قطر نے بھی حماس کے اس اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ نیک نیتی کی علامت اور ایک ایسا مثبت قدم ہے جو فریقین کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد دے گا. دونوں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ قیدی کی رہائی جنگ بندی، دیگر قیدیوں اور زیر حراست افراد کی رہائی اور غزہ میں امداد کے بلا تعطل داخلے کو ممکن بنانے کے لیے اہم موقع ہے تاکہ اس علاقے میں انسانی بحران کا تدارک کیا جا سکے اس ضمن میں امریکی خصوصی ایلچی، ایڈم بوہلر، نے حماس کے اس فیصلے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تنظیم دیگر چار امریکی شہریوں کی باقیات بھی حوالے کرے دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کو اطلاع دی ہے کہ یہ غیر مشروط اقدام حماس کی جانب سے نیک نیتی کے اظہار کے طور پر سامنے آیا ہے توقع ہے کہ اس اقدام سے مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی فوجی کی رہائی حماس کے اور غزہ کہا کہ
پڑھیں:
امریکی قیدی کی رہائی کا معاہدہ تل ابیب کی سیاسی شکست اور مزاحمت کے لیے بڑی کامیابی قرار
حماس اور ٹرمپ کے درمیان معاہدے کے تحت غزہ میں باقی رہ جانے والے واحد امریکی قیدی کی رہائی تل ابیب کی سیاسی شکست ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی رژیم فلسطینی عوام پر مزید دباؤ ڈال کر اور انہیں بھوک کا شکار کر کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ اور حماس تحریک کے درمیان براہ راست مذاکرات نے، جس کے نتیجے میں امریکی اسرائیلی اسیر عیدان الیگزینڈر کی رہائی کا معاہدہ انجام پایا، صیہونی رژیم کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ مذاکرات اور معاہدے امریکہ اور یمن کی انصار اللہ تحریک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی یاد تازہ کر رہے ہیں۔ دونوں صورتوں میں امریکہ نے تل ابیب کے بغیر بااثر سیاسی جماعتوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور اس کے نتیجے میں امریکہ کے کچھ مفادات کی تکمیل ہوئی۔ انصار اللہ یمن کے ساتھ معاہدے میں امریکی جہاز رانی کا تحفظ حاصل کیا گیا جبکہ حماس کے ساتھ معاہدے میں امریکی شہریت کے حامل صہیونی قیدی کی رہائی حاصل ہوئی۔ دونوں معاہدوں میں صیہونی رژیم کے مفادات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ درحقیقت انصار اللہ کے ساتھ امریکی معاہدے میں مقبوضہ علاقوں پر میزائل حملوں کو روکنا یا صیہونی رژیم کی جہاز رانی کی سرگرمیاں شامل نہیں تھیں اور حماس کے ساتھ امریکی معاہدے میں بھی صہیونی قیدیوں کا کوئی تذکرہ شامل نہیں تھا بلکہ اس کی جگہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی منتقلی شامل تھی۔ امریکا اور حماس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے نے نہ صرف صیہونی رژیم پر امریکی مفادات کی برتری کی نشاندہی کی بلکہ اس سے قبل امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات کا آغاز، شام کے بارے میں امریکی مؤقف اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صیہونی رژیم کے مقابلے میں شام میں ترکی کے کردار کو ترجیح دینا، اسی طرز عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔
صیہونی رژیم کا خیال تھا کہ خطے میں امریکہ کے مفادات مختلف مسائل میں یکساں اور متوازی ہوں گے لیکن اسے اچانک احساس ہوا کہ امریکہ کے مفادات اس کے مفادات پر غالب ہیں۔ اس معاملے میں تل ابیب کی ناکامی دوچندان ہے۔ اول یہ دوسرا موقع ہے جب امریکی حکومت نے حماس کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ ان مذاکرات کا پہلا دور امریکی ایلچی ایڈم بوہلر کے ذریعے انجام پایا تھا۔ اس وقت تل ابیب نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور اسے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ صیہونی رژیم پوری طرح مطمئن تھی کہ دوبارہ ایسے مذاکرات ہر گز انجام نہیں پائیں گے، خاص طور پر چونکہ ان مذاکرات کے بعد بوہلر کی مدت ملازمت ختم ہو گئی تھی۔ دوم یہ کہ ان مذاکرات کا نتیجہ تل ابیب کو اطلاع دیے بغیر یا اس سے رابطہ برقرار کیے بغیر حماس سے معاہدے پر اختتام پذیر ہوئے۔ اس معاہدے کی اہمیت کئی نکات پر مضمر ہے جن میں سب سے اہم غزہ کی پٹی کی سیاسی اور عسکری صورت حال میں تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی تل ابیب کی طرف سے جنگ بند کرنے یا جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہونے سے انکار اور صرف اپنی تجویز کی بنیاد پر مذاکرات میں داخل ہونے پر اصرار کے تناظر میں حاصل ہوئی ہے۔ یوں اگر یہ معاہدہ فریقین کو نئی شرائط کے ساتھ جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے آغاز پر مجبور کر دیتا ہے تو یہ غزہ میں فوجی آپریشن کی توسیع کو بھی روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
جیسا کہ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید نے حماس اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بارے میں کہا ہے، یہ معاہدہ تل ابیب کی سیاسی شکست کے مترادف ہے۔ اس معاہدے نے بھوک کے اس ہتھیار کو بھی بے اثر کر دیا ہے جسے صیہونی رژیم حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی تھی۔ غزہ کی پٹی کے مکینوں کو بھوکا مار کر تل ابیب نے حماس کو ایک ایسا معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جس کے مطابق تمام صہیونی قیدیوں میں سے نصف کو انسانی امداد کی منتقلی اور 40 دن کی عارضی جنگ بندی کے بدلے میں رہا کروایا جا سکے اور اس میں مستقل جنگ بندی اور غزہ کے مقببوضہ علاقوں سے فوجی انخلاء شامل نہ ہو۔ مذکورہ بالا معاہدے نے غزہ کی پٹی کے حوالے سے صیہونی رژیم کے نقطہ نظر اور پالیسیوں میں موجود خلا کو بے نقاب کر دیا ہے جس کا خاکہ نیتن یاہو کی کابینہ نے فلسطینیوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کو بڑھانے اور قحط کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر اتفاق کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ حماس پر دباؤ ڈال کر صہیونی قیدیوں کی رہائی میں ناکامی ہوئی لیکن امریکہ اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات اس امریکی قیدی کی رہائی کا باعث بنے۔