حماس کا غزہ میں قید اسرائیلی امریکی فوجی کی رہائی کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس، جسے امریکہ سمیت کئی ممالک نے ایک دہشت گرد گروہ قرار دے رکھا ہے، نے اتوار کے روز کہا کہ اس نے دوحہ میں امریکی نمائندوں کے ساتھ غیر معمولی براہ راست بات چیت کی ہے، کیونکہ وہ جنگ بندی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے پانچ سالہ جنگ بندی، حماس کی پیشکش
کئی خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق حماس کے سینیئر عہدیداروں نے کہا کہ ایڈن الیگزینڈر کی رہائی 48 گھنٹوں کے اندر (منگل تک) متوقع ہے۔
اکیس سالہ الیگزینڈرکے اہل خانہ نے کہا کہ انہیں اطلاع دی گئی ہے کہ ایڈن کو ''آئندہ دنوں میں‘‘ رہا کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ حماس نے یہ نہیں بتایا کہ ایڈن الیگزینڈر کی رہائی کب عمل میں آئے گی۔
(جاری ہے)
تاہم یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے خطے کا دورہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ہم امریکہ اور حماس کے مذاکرات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے دو اعلیٰ عہدیداروں نے اتوار کے روز نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ حماس اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان حالیہ دنوں میں دوحہ میں براہ راست مذاکرات ہوئے۔
ان میں سے ایک عہدیدار کے مطابق غزہ میں فائر بندی کے حوالے سے 'پیش رفت‘ ہوئی ہے۔غزہ پٹی کی ناکہ بندی فوراﹰ ختم کی جائے، یورپی یونین
حماس کے اس سینیئر عہدیدار نے کہا، ''دوحہ میں حماس کی قیادت اور امریکہ کے درمیان غزہ پٹی میں فائر بندی، قیدیوں کے تبادلے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے حوالے سے براہ راست بات چیت ہوئی، جو اب بھی جاری ہے۔
‘‘حماس کے دوسرے عہدیدار نے کہا، ''خاص طور پر غزہ میں امداد کی فراہمی اور اسرائیلی حراست میں موجود فلسطینیوں کے بدلے اسرائیلی قیدیوں کے ممکنہ تبادلے کے معاملے پر پیش رفت ہوئی ہے۔‘‘
غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے ایک بیان میں کہا کہ حماس طویل المدتی جنگ بندی کے لیے کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ''فوری طور پر بھرپور مذاکرات شروع کرنے‘‘ پر تیار ہے، جس میں ''جنگ کا خاتمہ، غزہ میں فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ اور غزہ میں اقتدار ایک آزاد ٹیکنوکریٹ باڈی کے حوالے کرنا شامل ہیں۔
‘‘حماس نے ایک بیان میں کہا، ''اسرائیلی فوجی ایڈن الیگزینڈر، جو امریکی شہری بھی ہے، کو غزہ میں جنگ بندی اور امدادی گزرگاہوں کو دوبارہ کھولنے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر رہا کیا جائے گا۔‘‘
یرغمالیوں کی رہائی 'یادگار‘ خبر، ٹرمپامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تصدیق کی ہے کہ ایڈن الیگزینڈر اپنے اہل خانہ کے پاس گھر آ جائیں گے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ ''ان تمام لوگوں کے شکر گزار ہیں، جو اس یادگار خبر کو ممکن بنانے میں شامل رہے۔‘‘
امریکی صدر نے مزید کہا، ''امید ہے کہ یہ ان حتمی اقدامات میں سے پہلا اقدام ہو گا، جو اس وحشیانہ تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہیں۔‘‘
دوسری جانب امریکہ کے خصوصی ایلچی ایڈم بولر نے حماس کے فیصلے کو ''مستقبل کی جانب ایک مثبت قدم‘‘ قرار دیا اور حماس سے مطالبہ کیا کہ وہ چار دیگر امریکی اسرائیلی شہریوں کی لاشیں بھی واپس کرے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا بیاناسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ اسے ایڈن الیگزینڈر کی آئندہ رہائی کی اطلاع مل گئی ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو مطلع کیا ہے کہ یہ اقدام حماس کی جانب سے بغیر کسی شرط کے خیر سگالی کے طور پر کیا جا رہا ہے اور توقع ہے کہ اس سے مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات ممکن ہوں گے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے مزید کہا کہ اسرائیل کی پالیسی لڑائی کے دوران مذاکرات کرنا بھی ہے اور جنگ کے تمام اہداف کے حصول کے لیے مسلسل عزم کا اظہار کرنا بھی۔
اسی دوران غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے اتوار کو بھی جاری رہے، جن میں غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے چار چھوٹے بچوں سمیت 12 افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔
خیال رہے کہ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل میں حملے کرتے ہوئے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بنالیا تھا۔
اس حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اس وقت سے جاری غزہ کی جنگ میں اسرائیلی مسلح افواج کی جوابی کارروائیوں میں اب تک 52,800 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔دریں اثنا مصر اور قطر نے حماس کی جانب سے ایڈن الیگزینڈر کو عنقریب رہا کر دینے پر رضامندی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے اپنی ثالثی کوششوں کو جاری رکھنے کی توثیق بھی کی۔
ادارت: مقبول ملک، عدنان اسحاق
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا کہ کی رہائی حماس کی حماس کے کہ ایڈن کے لیے
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ بندی؛ ٹرمپ نے سیزفائر کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیل اور ایران کے درمیان گھمسان کی جنگ جو مزید طویل، وسیع، اور شدید ہونے جا رہی تھی لیکن گزشتہ شب اچانک اور غیر متوقع طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کرکے دنیا کو حیران کردیا۔
امریکی اخبار “نیویارک ٹائمز” کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کرکے صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی حلقوں کو بھی سرپرائز دیا۔
امریکی عہدیدار نے مزید بتایا کہ صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کے درمیان طے پاجانے والے جنگ بندی معاہدے سے متعلق اپنی کابینہ کو بھی اُس وقت بتایا جب تک وہ خود سب کچھ فائنل کرچکے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ جنگ بندی معاہدے کے لیے صدر ٹرمپ نے قطر کی ثالثی میں اسرائیلی وزیراعظم اور ایرانی حکومت سے بات چیت کی۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے جنگ بندی کی بات چیت میں کردار ادا کیا تھا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی ان کوشششوں کی صدر ٹرمپ نے کسی بھنک بھی نہ پڑنے دی اور اپنے بیانات سے بھی ایسے ظاہر کرتے آئے جیسے وہ جنگ کو طول دے رہے ہو۔
امریکی عہدے دار نے مزید بتایا کہ ایرانی قیادت سے امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے قطر کی ثالثی میں رابطہ کیا تھا کیوں یہ حضرات گزشتہ اپریل سے جوہری معاہدے کی کوششوں میں بھی ایران کے ساتھ رابطے میں تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان تینوں امریکی عہدیداروں نے ایرانی حکام سے براہ راست اور بالواسطہ دونوں ذرائع سے رابطے کیے تھے۔
امریکی عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ ان سفارتی کوششوں کے ساتھ جنگ بندی کی راہ ہموار کرنے کا سہرا اُن امریکی فضائی حملوں کو بھی جاتا ہے جس میں ایران کی 3 یورینیم افزودگی کی تنصیبات اصفہان، نطنز، اور فردو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے بھی جنگ بندی کا سہرا انھی حملوں کو دیا تھا۔
امریکی اخبار کے بقول ان عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ ایران نے کن شرائط پر جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی اور کیا ایران نے افزودہ یورینیم کے ذخائر سے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ ایک ہفتے سے زائد دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں اسرائیلی حملوں میں ان حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈرز اور 14 سے زائد جوہری سائنس دان جاں بحق ہوگئے تھے۔