Express News:
2025-08-11@19:34:34 GMT

ناقابلِ فراموش واقعات، جو زندگی بدل دیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

ْجس قوم کے اخلاق ڈوب جائیں وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہا کرتی۔ تاریخ کا یہ سبق تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔

کسی قوم کے عروج کا سورج ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی شعبے کا زوال ہوتا ہے۔ بقیہ تمام شعبہ جات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ مغربی سورج بھی زرد ہو رہا ہے یا یہ ترقی منتقل کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے پاس انسانی تاریخ کی وہ عظیم اور حیرت انگیز مثالیں ہیں جو حقیقی بھی ہیں اور ترقی حاصل کرنے کا خطِ مستقیم بھی۔ مغرب کے نبض شناس اقبال نے مرض کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کرکے نوجوانوں کوخبردار کیا:

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

شاید دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنے عظیم، بے غرض اور مخلص لوگ مہیا نہ کرسکے جتنے اسلامی تہذیب نے پیدا کیے ہیں۔ دل کی آنکھیں کھول کے پڑھو تو یہاں بیان کردہ ایک ایک واقعہ زندگی پلٹ کے رکھ دے گا۔ اپنی زندگی میں مثبت تحرک اور تبدیلی کے خواہش مند متوجہ ہوں۔

صحیح سمت

شفیق بلخی ؒ، ابراہیم ادھم ؒ سے ملنے گئے۔ ’تجارت کے لیے جارہا ہوں ، کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا‘۔ چند دن بعد نماز میں ابراہیم ادھم نے شفیق کو مسجد میں دیکھا۔ پوچھا، آپ تو چلے گئے تھے، یہاں کیسے؟ شفقیق بولے: میں راستے میں ایک ویران جگہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ دیکھا ، ایک چڑیا ہے جو اڑنے سے معذور ہے۔ سوچاکہ یہ کیسے کھانا کھاتی ہوگی۔ اتنے میں ایک اور چڑیا منہ میں خوراک دبائے آئی۔

اس کے منہ سے خوراک گر گئی جو اِس چڑیا نے اٹھا لی۔ میں نے سوچا کہ اللہ جب اس معذور چڑیا کو رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھے شہر شہر بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے۔ بس میں واپس آگیا۔ ابراہیم نے جواب دیا: شفیق ، تم نے وہ پرندہ بننا پسند کیا جو محتاج ہے ۔ وہ بننا کیوں پسند نہ کیا جو اپنے پروں پہ اڑ کے جاتا ہے۔ اپنے بازوؤں کی طاقت سے خود بھی زندہ ہے اور دوسروں کی زندگی کا سامان بھی کرتا ہے۔

شفیق نے ابراہیم کا ہاتھ چوما اور بولے، ابراہیم … اللہ تم پہ رحمتیں کرے۔ تم نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا۔ بات جو تم نے کی وہی صحیح ہے۔ یہ وہ صحیح ترین رویہ ہے جو انسان اختیار کرتا ہے۔ صالح اور مفید لوگ دنیا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں لگاتے۔ وہ اشیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے متعلق دی گئی ہدایات سے بھی۔ شاعرِ نے کمزوری کا نتیجہ بیان فرمایا:

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

بد کرداروں کے نزدیک تو ضعیفی ہے ہی ناقابلِ معافی جرم۔ اسی بنا پہ خدا دینے والے طاقتور صالح ہاتھ کو پسند فرماتا ہے۔

بڑا مقصد، بڑی کامیابی

محمد شریف میرے ہئیر ڈریسر ہیں۔علاقے میں اپنے کام پر گرفت کے حوالے سے معروف ہیں۔ پڑھ لکھ نہیں سکتے لیکن خود کو بنا سنوار کے رکھتے ہیں۔ دوپہر کے وقت ان کے اسسٹنٹ موجود نہ پا کر میں نے پوچھا کہ کیا کھانا کھانے گھر گئے ہیں۔ ’میں انہیں یہیں قریب میں کھلا دیتا ہوں۔ اگر گھر بھیجوں تو ایک گھنٹے میں آتے ہیں۔ اس دوران اگر دو گاہک بھی آجائیں تو دونوں کے چار گاہک بنے۔ میں انہیں پچاس روپے دے کر تین سو کا نقصان بچا لیتا ہوں‘۔

میں متاثر ہوا لیکن …حیرت ابھی باقی تھی۔ کہنے لگے ، شاہ صاحب ہمارے بچے ان کی وجہ سے روٹی کھاتے ہیں اگر ہم نے ان پر بھی پچاس روپے لگادیے تو کون سی بڑی بات ہوگئی۔ دیتی تو اوپر والے کی ذات ہے۔‘ میں خاموش تھا اور مسرت میں جھوم رہا تھا۔ انسان کا مقصد بڑا ہو تو چھوٹی چیزیں حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔ اپنی ورکشاپس میں اکثریہ بات دہراتا ہوں کہ جو پنڈی کے لیے چلے گا وہ گوجرانوالہ پہنچ ہی جائے گا۔ لیکن جو گوجرانوالہ کا قصد باندھے گا۔ وہ پنڈی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔پس زندگی میں مقاصد اونچے ہوں تو کامیابی بھی اسی کے مطابق ملتی ہے۔

ایکسیلنس

اتوار کے دن عصر کے وقت ظفروال سے واپسی پر بس سے اترا۔ ایک رکشہ والے نے آواز لگائی۔ باؤ جی چورس ٹینکی جانا ہے کہ گرین ٹاؤن۔ راستے میں حیرت سے پوچھا۔ کیا تم میرے علاقے میں رہتے ہو؟ نہیں صاحب جی۔ کیا میرے ساتھ پہلے بھی سفر کیا ہے؟ نہیں جی۔کیا مجھے جانتے ہو؟ نہ جی۔ تو پھر آپ کو پتہ کیسے لگا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ جوابات نے میرے دماغ کے فیوز بھک سے اڑا دیے۔ ’باؤ جی رکشہ چلاتے بیس سال ہوگئے۔

اب گاہک پہچانا جاتا ہے‘۔ حیرت دوچند ہوگئی۔کیا مطلب؟’ صاحب جی گرین ٹاؤن ، ٹاؤنز کی طرف کا آخری علاقہ ہے جیسے واپڈا ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن وغیرہ۔ جب گرین ٹاؤن کا نام لیا جاتا ہے تو ان تمام اطراف کی سواری خود بول پڑتی ہے‘۔ دل چسپی بڑھی۔پوچھا، اس طرح تو چونگی امرسدھو بھی آخری علاقہ ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ بھی۔ کہا، ’چونگی امرسدھو کے لوگ رکشہ استعمال نہیں کرتے۔ یہ ٹاؤنز کے لوگوں میں استطاعت ہے۔ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے لوگ اس وقت رکشہ استعمال نہیں کرتے‘۔ پھر ان ٹاؤنز میں لوگ اندرون لاہور سے جا آباد ہوئے ہیں۔

یہ اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے اور ملوانے چھٹی کے دن یہاں لاتے ہیں۔ اور اس وقت واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ چانسز زیادہ ہوتے ہیں کہ اس ٹائم پہ ان علاقوں کی سواری مل جائے گی۔ جانے وہ کون خوش اخلاق تھا۔ مجھے حیرانیوں میں گم چھوڑگیا ۔اس کی شکل بھی یاد نہیں۔ سکھا بہت کچھ گیا۔ جو بھی اپنے ذوق کے کام میں منہمک ہو جاتا ہے، اس پر جزئیات کا علم کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بھلا اس کے علاوہ کون گُرو ہوگا۔کامیاب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ایکسیلنس معمولی چیزوں میںبھی ممکن حد تک کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ اسے حاصل وہی کریں گے جو اپنے رجحان کے کام میں مشغول ہیں۔

اخلاص کا انعام

سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔ لکھنؤ کے بازار میں ایک درزی کی دکان تھی۔ وہ ہر جنازے کے لیے اپنی دکان بند کرتا۔ لوگوں نے کہا اس طرح تو تمہاری دکان کا نقصان ہوتا ہوگا۔ کہنے لگا، صلحا سے سنا ہے۔ جو مسلمان کے جنازے پہ جاتا ہے کل اس کے جنازے پہ ان شاء اللہ ہجوم ہوگا۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے جنازے پہ کون آدمی آئے گا۔

ایک تو بھائی کا حق بھی ہے اور اللہ پاک بھی راضی ہوتے ہیں۔ شانِ خداوندی دیکھیے۔ 1902ء میں ریڈیو پہ اعلان ہواکہ مولانا عبدالحی کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے جنازے پر ہزاروں کا مجمع تھا۔ جنازہ ہو چکا تو ایک اور جنازہ داخل ہوا۔ اعلان ہوا سب لوگ اس بھائی کا جنازہ پڑھ کے جائیں۔ یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔ جو لوگ پچھلا جنازہ نہیں پڑھ سکے تھے وہ بھی اور جو دوسرے جنازے کے ساتھ آئے تھے دونوں اس جنازے میں شریک ہو گئے۔ اللہ نے اپنے مخلص بندے کے قول کی لاج رکھ لی۔ اخلاص کے بغیر عمل بے کار ہو کے رہ جائے۔ دور آیا ہے کہ میک اپ بہت جلدی پہچان لیا جاتا ہے اور اخلاص دل فتح کرلیتا ہے۔

یقین

اشفاق احمد کہتے ہیںمیر ے پاس ایک بلی تھی۔ جب اسے بھوک لگتی میرے پاؤں چاٹنے لگتی۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلی مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ اسے پکا یقین ہے کہ مالک کے پاس سے اس کی طلب پوری ہوگی۔ لیکن انسان کو یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ ان کاموں کی بھی جو اس کے اختیار میں نہیں۔ اپنی ہر طلب اپنے رب سے مانگو اور قبولیت کا مکمل یقین رکھو۔

بڑا پن

شفیق بلخی اور عبداللہ بن مبارک ہماری تاریخ کے دو بڑے نام ہیں۔ شفیق، ابن مبارک سے ملنے بلخ سے چلے۔ بغداد پہنچے تو پتہ چلا کو وہ مدینے میں ہیں۔ سوچا اتنی دور آیا ہوں وہاں بھی چلتے ہیں۔ دونوں بزرگ چہرے سے ایک دوسرے کے شناسا نہیں تھے۔ ملے تو عبداللہ نے پوچھا، بلخ میں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں شفیق۔ جانتے ہو؟ بولے جی ہاں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ دن رات کیسے گزارتاہے؟ کہا، خود نیک بننے اور دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

یہ مطلب نہیں تھا، عبداللہ کہنے لگے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ شب و روز گزارہ کیسے کرتا ہے۔ جواب دیا، مل جائے تو شکر کرتا ہے۔ نہ ملے تو صبر کرتا ہے۔ فرمایا، یہ تو مدینے کی گلی کا کتا بھی کرتا ہے۔ شفیق سٹپٹائے، پوچھا: حضرت آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں۔ جواب وہاں سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ختم کیا تھا، نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔ اور مل جائے تو بانٹ دیتے ہیں۔

 یہ وہ ہیں جن کے در پہ بادشاہ حاضری دیتے ہیں۔ دنیا جن کی دہلیز پہ ناک رگڑتی ہے۔ ان کے ہاتھ کبھی نہیں رکتے اور خالی بھی نہیں ہوتے۔ یہ وہ ہیں جن کے باعث چکی کے دو پاٹ زمین آسمان آپس میں ملنے سے رکے ہوئے ہیں۔ان کے رستے چلنا ترقی اور فلاح کا باعث ہے۔ محض نام جپنے کا دھوکا کہاں تک چلے گا۔

اپنا رنگ

میرے عزیز دوست طاہر اعوان فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں دبئی پہنچے۔ جس عربی کے محل میں شوٹنگ چل رہی تھی ، اس کے وسطِ ہال میں ایک نہایت قیمتی اور بہت بڑا قرآن حکیم رکھا تھا۔ایک دن یہ وقت سے پہلے وہاں پہنچے ۔ سورہ ئِ یوسف کی تلاوت شروع کی۔ دلیر سنگھ مہدی کی بیٹی بھی اتفاق سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئی۔ آواز سنی تو قریب آئی ۔ کچھ دیر بعد پوچھا، آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ’یہ ہماری ہدایت کی کتاب ہے‘۔ آپ اس کا مطلب جانتے ہیں؟ ’میں جھینپ گیا، اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے کہا کہ کچھ مفہوم مجھے آتا ہے، ترجمہ نہیں۔‘ وہ مسکرائی اور بولی۔ میرے پاس بھی یہ کتاب موجود ہے اور اس کا انگلش ترجمہ میں پڑھتی ہوں۔ طاہر حسرت سے یہ واقعہ دہراتے ہیں کہ کاش میں نے زندگی میں وہ ترجمہ ئِ قرآن کورس کیا ہوتا جسے لاعلمی میں گزاردیا۔ یہ واقعہ ہر فیلڈ کے لیے اہم ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے رنگ میں رنگ جانے والے بھلا کیا متاثر کریں گے۔ جو تمہاری قدرت اور کردار ہے اسے ظاہر کرو۔عجیب ہے جس کے پاس نسخہئِ شفا ہو وہ نیم حکیموں کے پاس بھاگے۔ عجب ہے جس کے پاس عصائے موسی ہو وہ رسیوں کو دیکھ کے کانپے۔

یہ واقعات محض پڑھ کے گزر جانے کے لیے کب ہیں۔ یہ وقت ِ فرصت کی ذہنی عیاشی نہیں ۔یہ کامیاب لوگوں کی مثالیں ہیں۔ ان کو زندگی میں جگہ دینے والا ان کا اثر محسوس کرے گا۔ پکی پکائی کھیر ملنے کے خواہش مند تو ’ہم کمزور ہیں‘ کِہہ کر گزر جاتے ہیں۔حوصلہ مند وننگ لائن پار کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی میں ہوتے ہیں کرتے ہیں کرتا ہے جاتا ہے میں ایک ہے اور کے پاس کے لیے

پڑھیں:

فلسطین فلسطینیوں کا ہے، بے دخلی کی کوشش ناقابل قبول ہے: ترک وزیرِ خارجہ

فلسطین فلسطینیوں کا ہے، بے دخلی کی کوشش ناقابل قبول ہے: ترک وزیرِ خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 August, 2025 سب نیوز

انقرہ(سب نیوز )ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان کا کہنا ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، فلسطینیوں کو ان کی سر زمین سے بے دخل کرنے کی کوشش غیر قانونی اور ناقابل قبول ہے۔مصری ہم منصب بدر عبدالعاطی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ غزہ پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف تمام مسلمان ممالک کو متحد ہونا ہو گا اور عالمی برادری کو حرکت میں لانے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔

مصری ہم منصب بدر عبدالعاطی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ غزہ پر قبضے کے اسرائیلی منصوبے کے خلاف تمام مسلمان ممالک کو متحد ہونا ہو گا اور عالمی برادری کو حرکت میں لانے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔حاقان فیدان نے کہا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی اب اسرائیل کا ساتھ دے کر اخلاقی بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا، پوری دنیا اب جان چکی ہے کہ اسرائیل کو فاشسٹ ذہنیت کے تحت چلایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے مصر کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ترک وزیرِ خارجہ حاقان فیدان نے بتایا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال پر اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارتی عوام اور حکومت سے دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں پر اختلاف ہے، وزیر مملکت بھارتی عوام اور حکومت سے دشمنی نہیں بلکہ پالیسیوں پر اختلاف ہے، وزیر مملکت پنجاب حکومت 31 سال بعد مقامی بینکوں کے قرضوں سے آزاد ہوگئی لاہور: 9 مئی جلا گھیرا ئوکے مزید 2 مقدمات کا فیصلہ محفوظ غزہ پر ملٹری کنٹرول؛ اسرائیلی مشیرِ قومی سلامتی نے نیتن یاہو کے منصوبے کو مسترد کردیا آرمینیا آذربائیجان تنازع حل کرانے میں بہت لوگ ناکام رہے، بالآخر ہم کامیاب ہوئے: ٹرمپ چیئرمین سی ڈی اے کی اسلام آباد میں جاری ترقیاتی کام بروقت مکمل کرنے کی ہدایت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • تاریخ کے وارث یا مجرم
  • پاکستان کی تاریخ میں اقلیتوں کا کردار ناقابلِ فراموش ہے، ناصر حسین شاہ
  • ملکی ترقی میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور کالاش برادری کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے،وزیر ریلوے
  • 9 مئی سیاسی نہیں جرائم  کے مقدمات ہیں، یہ واقعات کہیں اور ہوتے تو نتائج سنگین ہوتے، عرفان صدیقی
  • نو مئی سیاسی نہیں جرائم کے مقدمات ہیں، یہ واقعات کہیں اور ہوتے تو نتائج سنگین ہوتے، عرفان صدیقی
  • ملکی ترقی میں مسیحی، ہندو، سکھ، پارسی اور کالاش برادری کا ناقابلِ فراموش کردار رہا ہے،وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • فلسطین فلسطینیوں کا ہے، بے دخلی کی کوشش ناقابل قبول ہے: ترک وزیرِ خارجہ
  • میری ذاتی زندگی پر کسی کو رائے دینے کا حق نہیں،کنول آفتاب