Express News:
2025-09-26@19:47:06 GMT

ناقابلِ فراموش واقعات، جو زندگی بدل دیں

اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT

ْجس قوم کے اخلاق ڈوب جائیں وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہا کرتی۔ تاریخ کا یہ سبق تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔

کسی قوم کے عروج کا سورج ڈوبنے کی سب سے بڑی وجہ اخلاقی شعبے کا زوال ہوتا ہے۔ بقیہ تمام شعبہ جات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ مغربی سورج بھی زرد ہو رہا ہے یا یہ ترقی منتقل کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے پاس انسانی تاریخ کی وہ عظیم اور حیرت انگیز مثالیں ہیں جو حقیقی بھی ہیں اور ترقی حاصل کرنے کا خطِ مستقیم بھی۔ مغرب کے نبض شناس اقبال نے مرض کی ٹھیک ٹھیک تشخیص کرکے نوجوانوں کوخبردار کیا:

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی

یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

شاید دنیا کی کوئی دوسری قوم اتنے عظیم، بے غرض اور مخلص لوگ مہیا نہ کرسکے جتنے اسلامی تہذیب نے پیدا کیے ہیں۔ دل کی آنکھیں کھول کے پڑھو تو یہاں بیان کردہ ایک ایک واقعہ زندگی پلٹ کے رکھ دے گا۔ اپنی زندگی میں مثبت تحرک اور تبدیلی کے خواہش مند متوجہ ہوں۔

صحیح سمت

شفیق بلخی ؒ، ابراہیم ادھم ؒ سے ملنے گئے۔ ’تجارت کے لیے جارہا ہوں ، کچھ ماہ لگ جائیں گے۔ اس لیے آپ سے ملنے چلا آیا‘۔ چند دن بعد نماز میں ابراہیم ادھم نے شفیق کو مسجد میں دیکھا۔ پوچھا، آپ تو چلے گئے تھے، یہاں کیسے؟ شفقیق بولے: میں راستے میں ایک ویران جگہ کچھ دیر کے لیے رکا۔ دیکھا ، ایک چڑیا ہے جو اڑنے سے معذور ہے۔ سوچاکہ یہ کیسے کھانا کھاتی ہوگی۔ اتنے میں ایک اور چڑیا منہ میں خوراک دبائے آئی۔

اس کے منہ سے خوراک گر گئی جو اِس چڑیا نے اٹھا لی۔ میں نے سوچا کہ اللہ جب اس معذور چڑیا کو رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے تو مجھے شہر شہر بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے۔ بس میں واپس آگیا۔ ابراہیم نے جواب دیا: شفیق ، تم نے وہ پرندہ بننا پسند کیا جو محتاج ہے ۔ وہ بننا کیوں پسند نہ کیا جو اپنے پروں پہ اڑ کے جاتا ہے۔ اپنے بازوؤں کی طاقت سے خود بھی زندہ ہے اور دوسروں کی زندگی کا سامان بھی کرتا ہے۔

شفیق نے ابراہیم کا ہاتھ چوما اور بولے، ابراہیم … اللہ تم پہ رحمتیں کرے۔ تم نے میری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا۔ بات جو تم نے کی وہی صحیح ہے۔ یہ وہ صحیح ترین رویہ ہے جو انسان اختیار کرتا ہے۔ صالح اور مفید لوگ دنیا کی نعمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن ان سے دل نہیں لگاتے۔ وہ اشیا کی حقیقت سے بھی آگاہ ہوتے ہیں اور ان سے متعلق دی گئی ہدایات سے بھی۔ شاعرِ نے کمزوری کا نتیجہ بیان فرمایا:

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

بد کرداروں کے نزدیک تو ضعیفی ہے ہی ناقابلِ معافی جرم۔ اسی بنا پہ خدا دینے والے طاقتور صالح ہاتھ کو پسند فرماتا ہے۔

بڑا مقصد، بڑی کامیابی

محمد شریف میرے ہئیر ڈریسر ہیں۔علاقے میں اپنے کام پر گرفت کے حوالے سے معروف ہیں۔ پڑھ لکھ نہیں سکتے لیکن خود کو بنا سنوار کے رکھتے ہیں۔ دوپہر کے وقت ان کے اسسٹنٹ موجود نہ پا کر میں نے پوچھا کہ کیا کھانا کھانے گھر گئے ہیں۔ ’میں انہیں یہیں قریب میں کھلا دیتا ہوں۔ اگر گھر بھیجوں تو ایک گھنٹے میں آتے ہیں۔ اس دوران اگر دو گاہک بھی آجائیں تو دونوں کے چار گاہک بنے۔ میں انہیں پچاس روپے دے کر تین سو کا نقصان بچا لیتا ہوں‘۔

میں متاثر ہوا لیکن …حیرت ابھی باقی تھی۔ کہنے لگے ، شاہ صاحب ہمارے بچے ان کی وجہ سے روٹی کھاتے ہیں اگر ہم نے ان پر بھی پچاس روپے لگادیے تو کون سی بڑی بات ہوگئی۔ دیتی تو اوپر والے کی ذات ہے۔‘ میں خاموش تھا اور مسرت میں جھوم رہا تھا۔ انسان کا مقصد بڑا ہو تو چھوٹی چیزیں حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔ اپنی ورکشاپس میں اکثریہ بات دہراتا ہوں کہ جو پنڈی کے لیے چلے گا وہ گوجرانوالہ پہنچ ہی جائے گا۔ لیکن جو گوجرانوالہ کا قصد باندھے گا۔ وہ پنڈی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔پس زندگی میں مقاصد اونچے ہوں تو کامیابی بھی اسی کے مطابق ملتی ہے۔

ایکسیلنس

اتوار کے دن عصر کے وقت ظفروال سے واپسی پر بس سے اترا۔ ایک رکشہ والے نے آواز لگائی۔ باؤ جی چورس ٹینکی جانا ہے کہ گرین ٹاؤن۔ راستے میں حیرت سے پوچھا۔ کیا تم میرے علاقے میں رہتے ہو؟ نہیں صاحب جی۔ کیا میرے ساتھ پہلے بھی سفر کیا ہے؟ نہیں جی۔کیا مجھے جانتے ہو؟ نہ جی۔ تو پھر آپ کو پتہ کیسے لگا کہ میں نے کہاں جانا ہے؟ جوابات نے میرے دماغ کے فیوز بھک سے اڑا دیے۔ ’باؤ جی رکشہ چلاتے بیس سال ہوگئے۔

اب گاہک پہچانا جاتا ہے‘۔ حیرت دوچند ہوگئی۔کیا مطلب؟’ صاحب جی گرین ٹاؤن ، ٹاؤنز کی طرف کا آخری علاقہ ہے جیسے واپڈا ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن وغیرہ۔ جب گرین ٹاؤن کا نام لیا جاتا ہے تو ان تمام اطراف کی سواری خود بول پڑتی ہے‘۔ دل چسپی بڑھی۔پوچھا، اس طرح تو چونگی امرسدھو بھی آخری علاقہ ہے اور ٹھوکر نیاز بیگ بھی۔ کہا، ’چونگی امرسدھو کے لوگ رکشہ استعمال نہیں کرتے۔ یہ ٹاؤنز کے لوگوں میں استطاعت ہے۔ اور ٹھوکر نیاز بیگ کے لوگ اس وقت رکشہ استعمال نہیں کرتے‘۔ پھر ان ٹاؤنز میں لوگ اندرون لاہور سے جا آباد ہوئے ہیں۔

یہ اپنے بچوں کو گھمانے پھرانے اور ملوانے چھٹی کے دن یہاں لاتے ہیں۔ اور اس وقت واپس جا رہے ہوتے ہیں۔ چانسز زیادہ ہوتے ہیں کہ اس ٹائم پہ ان علاقوں کی سواری مل جائے گی۔ جانے وہ کون خوش اخلاق تھا۔ مجھے حیرانیوں میں گم چھوڑگیا ۔اس کی شکل بھی یاد نہیں۔ سکھا بہت کچھ گیا۔ جو بھی اپنے ذوق کے کام میں منہمک ہو جاتا ہے، اس پر جزئیات کا علم کھلنا شروع ہوجاتا ہے۔ بھلا اس کے علاوہ کون گُرو ہوگا۔کامیاب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ایکسیلنس معمولی چیزوں میںبھی ممکن حد تک کمال حاصل کرنے کا نام ہے۔ اسے حاصل وہی کریں گے جو اپنے رجحان کے کام میں مشغول ہیں۔

اخلاص کا انعام

سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں۔ لکھنؤ کے بازار میں ایک درزی کی دکان تھی۔ وہ ہر جنازے کے لیے اپنی دکان بند کرتا۔ لوگوں نے کہا اس طرح تو تمہاری دکان کا نقصان ہوتا ہوگا۔ کہنے لگا، صلحا سے سنا ہے۔ جو مسلمان کے جنازے پہ جاتا ہے کل اس کے جنازے پہ ان شاء اللہ ہجوم ہوگا۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے جنازے پہ کون آدمی آئے گا۔

ایک تو بھائی کا حق بھی ہے اور اللہ پاک بھی راضی ہوتے ہیں۔ شانِ خداوندی دیکھیے۔ 1902ء میں ریڈیو پہ اعلان ہواکہ مولانا عبدالحی کا انتقال ہوگیا ہے۔ ان کے جنازے پر ہزاروں کا مجمع تھا۔ جنازہ ہو چکا تو ایک اور جنازہ داخل ہوا۔ اعلان ہوا سب لوگ اس بھائی کا جنازہ پڑھ کے جائیں۔ یہ اسی درزی کا جنازہ تھا۔ جو لوگ پچھلا جنازہ نہیں پڑھ سکے تھے وہ بھی اور جو دوسرے جنازے کے ساتھ آئے تھے دونوں اس جنازے میں شریک ہو گئے۔ اللہ نے اپنے مخلص بندے کے قول کی لاج رکھ لی۔ اخلاص کے بغیر عمل بے کار ہو کے رہ جائے۔ دور آیا ہے کہ میک اپ بہت جلدی پہچان لیا جاتا ہے اور اخلاص دل فتح کرلیتا ہے۔

یقین

اشفاق احمد کہتے ہیںمیر ے پاس ایک بلی تھی۔ جب اسے بھوک لگتی میرے پاؤں چاٹنے لگتی۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلی مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ اسے پکا یقین ہے کہ مالک کے پاس سے اس کی طلب پوری ہوگی۔ لیکن انسان کو یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمہ لے لیتا ہے۔ ان کاموں کی بھی جو اس کے اختیار میں نہیں۔ اپنی ہر طلب اپنے رب سے مانگو اور قبولیت کا مکمل یقین رکھو۔

بڑا پن

شفیق بلخی اور عبداللہ بن مبارک ہماری تاریخ کے دو بڑے نام ہیں۔ شفیق، ابن مبارک سے ملنے بلخ سے چلے۔ بغداد پہنچے تو پتہ چلا کو وہ مدینے میں ہیں۔ سوچا اتنی دور آیا ہوں وہاں بھی چلتے ہیں۔ دونوں بزرگ چہرے سے ایک دوسرے کے شناسا نہیں تھے۔ ملے تو عبداللہ نے پوچھا، بلخ میں ہمارے ایک دوست رہتے ہیں شفیق۔ جانتے ہو؟ بولے جی ہاں۔ اچھا یہ بتاؤ کہ دن رات کیسے گزارتاہے؟ کہا، خود نیک بننے اور دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

یہ مطلب نہیں تھا، عبداللہ کہنے لگے۔ پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ شب و روز گزارہ کیسے کرتا ہے۔ جواب دیا، مل جائے تو شکر کرتا ہے۔ نہ ملے تو صبر کرتا ہے۔ فرمایا، یہ تو مدینے کی گلی کا کتا بھی کرتا ہے۔ شفیق سٹپٹائے، پوچھا: حضرت آپ کیسے گزارہ کرتے ہیں۔ جواب وہاں سے شروع ہوا جہاں انہوں نے ختم کیا تھا، نہ ملے تو شکر کرتے ہیں۔ اور مل جائے تو بانٹ دیتے ہیں۔

 یہ وہ ہیں جن کے در پہ بادشاہ حاضری دیتے ہیں۔ دنیا جن کی دہلیز پہ ناک رگڑتی ہے۔ ان کے ہاتھ کبھی نہیں رکتے اور خالی بھی نہیں ہوتے۔ یہ وہ ہیں جن کے باعث چکی کے دو پاٹ زمین آسمان آپس میں ملنے سے رکے ہوئے ہیں۔ان کے رستے چلنا ترقی اور فلاح کا باعث ہے۔ محض نام جپنے کا دھوکا کہاں تک چلے گا۔

اپنا رنگ

میرے عزیز دوست طاہر اعوان فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں دبئی پہنچے۔ جس عربی کے محل میں شوٹنگ چل رہی تھی ، اس کے وسطِ ہال میں ایک نہایت قیمتی اور بہت بڑا قرآن حکیم رکھا تھا۔ایک دن یہ وقت سے پہلے وہاں پہنچے ۔ سورہ ئِ یوسف کی تلاوت شروع کی۔ دلیر سنگھ مہدی کی بیٹی بھی اتفاق سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئی۔ آواز سنی تو قریب آئی ۔ کچھ دیر بعد پوچھا، آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ ’یہ ہماری ہدایت کی کتاب ہے‘۔ آپ اس کا مطلب جانتے ہیں؟ ’میں جھینپ گیا، اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے کہا کہ کچھ مفہوم مجھے آتا ہے، ترجمہ نہیں۔‘ وہ مسکرائی اور بولی۔ میرے پاس بھی یہ کتاب موجود ہے اور اس کا انگلش ترجمہ میں پڑھتی ہوں۔ طاہر حسرت سے یہ واقعہ دہراتے ہیں کہ کاش میں نے زندگی میں وہ ترجمہ ئِ قرآن کورس کیا ہوتا جسے لاعلمی میں گزاردیا۔ یہ واقعہ ہر فیلڈ کے لیے اہم ہے۔ آنکھیں بند کرکے دوسروں کے رنگ میں رنگ جانے والے بھلا کیا متاثر کریں گے۔ جو تمہاری قدرت اور کردار ہے اسے ظاہر کرو۔عجیب ہے جس کے پاس نسخہئِ شفا ہو وہ نیم حکیموں کے پاس بھاگے۔ عجب ہے جس کے پاس عصائے موسی ہو وہ رسیوں کو دیکھ کے کانپے۔

یہ واقعات محض پڑھ کے گزر جانے کے لیے کب ہیں۔ یہ وقت ِ فرصت کی ذہنی عیاشی نہیں ۔یہ کامیاب لوگوں کی مثالیں ہیں۔ ان کو زندگی میں جگہ دینے والا ان کا اثر محسوس کرے گا۔ پکی پکائی کھیر ملنے کے خواہش مند تو ’ہم کمزور ہیں‘ کِہہ کر گزر جاتے ہیں۔حوصلہ مند وننگ لائن پار کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زندگی میں ہوتے ہیں کرتے ہیں کرتا ہے جاتا ہے میں ایک ہے اور کے پاس کے لیے

پڑھیں:

جہاں کچھ بھی محفوظ نہ ہو

روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔

امریکا، کینیڈا، یورپ اور عرب ملک جانے والے ان افراد میں بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں اور اپنا ملک چھوڑ کر بیرون ملک جانے والے یہ پاکستانی قانونی طور پر گئے ہیں اور جاتے جاتے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں حکومت کو 26 ارب 62 کروڑ اور 48 لاکھ روپے کی بھاری رقم ادا کرکے گئے ہیں جب کہ غیر قانونی طور پر ملک چھوڑ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر پاکستانیوں کا تو پتا ہی نہیں کہ ان میں کتنے اپنی منزلوں پر پہنچ سکے، کتنے سمندروں کی نذر ہوئے اور کتنے بیرون ممالک اپنی غیر قانونی نقل مکانی پر وہاں کی جیلوں میں قید ہیں اور کتنے لاپتا ہیں جن کی کوئی اطلاع ان کے عزیزوں کو بھی نہیں ہے۔

حال ہی میں ایک سینئر صحافی بھی 18 سال کی کوشش کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر امریکا چلے گئے ہیں اور پاکستان میں موجود اپنی ساری جائیداد اونے پونے فروخت کر کے ہمیشہ کے لیے واپس نہ آنے کے لیے اپنا ملک ایک نہیں کئی مجبوریوں کے باعث گئے، جنھیں امریکا بلانے کے لیے ان کے ایک عزیز نے 18 سال سے یہ کوشش جاری رکھی ہوئی تھی جو اب کامیاب ہوئی اور ملک چھوڑ کر جانے والے خاندان کے سربراہ صحافی کا کہنا تھا کہ جہاں کچھ بھی محفوظ نہ ہو، وہاں اب کیا رہنا۔انسانی اسمگلروں کو اپنی زندگی کی ساری پونجی اپنی زندگی داؤ پر لگا کر اپنا ملک چھوڑ کر جانے والے بھی باز نہیں آ رہے اور غیر قانونی طور باہر جانے والوں کو پتا ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے میں ان پر کیا گزرے گی، وہ باہر جانے میں کامیاب ہوں گے یا راستے میں مارے جائیں گے۔

پھر بھی باہر جانے کے جنون میں مبتلا ہیں۔ انھیں ملک چھوڑنے کا دکھ ہے نہ اپنوں سے بچھڑنے کا خیال ان کے ذہن میں صرف یہ بات سما گئی ہے کہ اب اپنے ملک میں نہیں رہنا۔ انھوں نے ہر قیمت پر اپنا وطن اور اپنے چھوڑنے ہیں اس کی وہ جو بھی قیمت ادا کریں گے وہ ادا کر رہے ہیں مگر اپنا ملک چھوڑنا ان کی ضد بن چکا اور وہ کسی بھی حالت میں اپنی مالی تباہی برداشت کرکے یہ رسک لے رہے ہیں۔ جنھیں اس غیر قانونی نقل مکانی میں اپنی جان کی بھی فکر نہ ہو انھیں کون سمجھا سکتا ہے نہ کوئی روک سکتا ہے۔

غیر قانونی طور باہر جانے والے 22 افراد نے تو نیا طریقہ اختیار کیا اور وہ جعلی فٹبال ٹیم کے نام پر غیر قانونی طور جاپان پہنچ گئے اور پکڑے گئے اور سب کو ڈی پورٹ بھی ہونا پڑا جو انسانی اسمگلرز نے نئے چنگل میں پھنس کر جعلی دستاویزات کے ذریعے جاپان پہنچ بھی گئے تھے جن سے اسمگلرز نے چالیس لاکھ روپے فی کس وصول کیے تھے جن میں صرف ایک انسانی اسمگلر ہی گرفتار ہوا ہے۔

چالیس لاکھ روپے ادا کرکے ملک چھوڑنے کے خواہش مند یہ افراد غریب نہیں ہوں گے وہ اتنی بڑی رقم سے اپنے ملک میں رہ کر کوئی کاروبار بھی کر سکتے تھے مگر انھوں نے ملک سے جانے کو ترجیح دی اور رقم بھی گنوائی اور اپنی اس غیر قانونی حرکت کی سزا بھی بھگتنی ہے۔ 40 لاکھ فی کس دے کر باہر جانے کے خواہش مندوں کو شاید پتا تھا کہ اپنے ملک میں بڑا کاروبار کرنا بھی آسان نہیں ان کے پیچھے پڑ جانے والے سرکاری اداروں نے ان کا جینا حرام کر دینا تھا کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی۔حکومت اپنے ملک کے نوجوانوں کا سوچے، انھیں اپنے ملک میں کچھ کرنے کی ترغیب دے اور رہنمائی کرے تو کوئی کیوں اپنا ملک چھوڑنے کا سوچے گا؟

 پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیر اعظم نے باہر جانے والوں کے لیے کہا تھا کہ وہ جائیں انھیں روکا کس نے ہے؟ ملک میں روزگار فراہم کرنا کیا حکومت کی ذمے داری نہیں۔ حکومت کو صرف یہ فکر ہے کہ ایک عام آدمی ٹیکس کیوں نہیں دے رہا۔ چھوٹے دکاندار کیا کوئی بھی کام سرانجام دینے والوں سے ٹیکس لو۔ کوئی ٹیکس سے محفوظ نہ رہے تاکہ حکمرانوں کے دن پھرتے اور وہ نئے سوٹوں میں خود دنیا گھومتے رہیں۔

اپنا علاج بھی باہر کرائیں، بیرون ملک کاروبار کریں اور اپنے ملک میں خود ٹیکس نہ دیں مگر اپنے ملک کے قلمی مزدور کو بھی نہ چھوڑیں اور اسے بھی فائلر بنا کر ہی رہیں۔ جس ملک میں حکومت کو بے روزگاروں کو روزگار دینے کی فکر ہو نہ عوام کو صحت و تعلیم دینے کا خیال اور صرف ٹیکس بڑھانا اس کا مشن ہو تو لوگ اپنے ملک کو چھوڑنے کا کیوں نہیں سوچیں گے۔

جہاں جان و مال باہر تو کیا گھروں میں بھی محفوظ نہ ہو۔ لاقانونیت عام ہو جائے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہے۔ لوگوں کے ساتھ کھلے عام فراڈ ہوں اور ایف آئی اے مکمل ناکام ہو۔ پولیس عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے خود اغوا برائے تاوان میں ملوث ہو۔ سرکاری ادارے سرعام لوگوں کی تذلیل کریں، غیر قانونی گرفتاریوں پر کوئی پرسان حال نہ ہو تو اپنے مستقبل سے مایوس لوگوں کے لیے راستہ کیا رہ جاتا ہے کہ وہ کسی بھی طرح باہر جانے کا کیوں نہ سوچیں؟

متعلقہ مضامین

  • ماہرنگ بلوچ کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی ناقابل قبول کیوں؟
  • تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار
  • جہاں کچھ بھی محفوظ نہ ہو
  • 117 سالہ خاتون کی طویل زندگی کا راز عام غذا نکلا
  • آئین سے ماورا مطالبات ناقابل قبول، وفاقی وزرا کی مظفرآباد میں پریس کانفرنس
  • غزہ میں ناقابل برداشت انسانی المیہ عالمی نظام کی ناکامی ہے؛ فن لینڈ
  • اقوام متحدہ کو مؤثر بنانا ہوگا، غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ قبول ہے، جاپان
  • یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضہ ناقابلِ برداشت، کیس کا فیصلہ 90 روز میں ہوگا، وزیراعلیٰ پنجاب
  • پہلگام حملےکے بعد کے واقعات سے واضح ہےکہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں: او آئی سی رابطہ گروپ
  • جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!