City 42:
2025-09-21@07:22:06 GMT

21ستمبر عالمی یوم امن، پاک فوج کا قابل تحسین کردار

اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT

ویب ڈیسک:عالمی امن کا دن، پاک فوج کا قابل تحسین کردار، اقوام متحدہ کی جانب سے 21 ستمبر کو امن کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

عالمی سطح پر قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں سے دنیا واقف ہے، پاکستانی امن دستے اقوام متحدہ کے مشن کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ایسے علاقوں میں جہاں امن کی ضرورت تھی وہاں پر پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دی، گزشتہ کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے امن دستوں نے عالمی امن اور سلامتی کے لیے ان گنت قیمتی جانیں بچائیں۔

جلد کے ٹیٹوز سے اکتا کر چینی نوجوان دانتوں پر ٹیٹوز بنوانے لگے

یہ دن انسانی مصائب کے خاتمے، جنگوں اور اندرونی تنازعات سے مسلح ممالک میں دیرپا قیام امن کے عالمی عزم کی عکاسی کرتا ہے، پاکستانی امن دستے اقوام متحدہ کی امن فوج کے مشن کو انتہائی مہارت اور لگن سے پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ 

اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق’’ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہونے کے ناطہ امن کے مبصرین کو اپنے مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے مکمل مدد اور رسائی فراہم کرتا ہے‘‘

بنگلادیش کرکٹ بورڈ میں پہلی مرتبہ خاتون سلیکٹر کا تقرر

235,000 سے زائد پاکستانی فوجیوں نے دنیا کے 29 ممالک میں اقوام متحدہ کے 48 مشنز میں خدمات انجام دی ہیں۔

پاکستانی امن دستوں نے اعلیٰ سطح پر امن کی بحالی کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جو مستقبل میں بھی جاری رہے گا، پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے قیام امن کے لیے اپنی دیرینہ وابستگی پر فخر ہے۔ 

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کے امن کے

پڑھیں:

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • بھارت متنازعہ جموں و کشمیر میں عالمی قوانین، اصول و ضوابط کی دھجیاں اڑا رہا ہے، مقررین
  • دنیا بھر کی رائے: یو این جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے بارے میں جانیے
  • اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی شمولیت:تاریخی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
  • پاک سعودیہ معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کردار قابل ستائش ہے
  • اب آخری سہارا اقوام متحدہ ہی ہے، نائب صدر متحدہ عرب امارات
  • اسرائیلی جارحیت؛ پاکستان کا اقوام متحدہ میں فوری غزہ جنگ بندی کا مطالبہ
  • باد مخالف کے باجود اقوام متحدہ بہتر دنیا کے قیام میں کوشاں
  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • پاکستان میں بارشوں اور سیلاب کے باعث 60 لاکھ افراد متاثر ،25لاکھ بے گھر ہوگئے، عالمی برادری امداد فراہم کرے.اقوام متحدہ کی اپیل