Jasarat News:
2025-11-10@12:30:33 GMT

117 سالہ خاتون کی طویل زندگی کا راز عام غذا نکلا

اشاعت کی تاریخ: 25th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی نژاد ہسپانوی خاتون ماریا برینیاس موریرا کی زندگی پر کی جانے والی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ دہی کھانے کی عادت طویل اور صحت مند زندگی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

ماریا برینیاس اگست 2024 میں 117 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئیں اور اس وقت وہ دنیا کی معمر ترین شخصیت تھیں۔ ماہرین نے ان کی 116 سال کی عمر میں خون، پیشاب اور لعاب دہن کے نمونے لے کر تحقیق کی، جس میں یہ سامنے آیا کہ ان کی حیاتیاتی عمر (Biological Age) جسمانی عمر سے تقریباً 23 سال کم تھی۔

تحقیق میں ان کی طویل العمری کے کئی راز سامنے آئے۔ سب سے نمایاں عادت دہی کا استعمال تھی، جسے وہ دن میں تین بار کھاتی تھیں۔ دہی میں موجود پروبائیوٹکس اور پری بائیوٹکس معدے کے لیے مفید بیکٹیریا کی نشوونما کرتے ہیں اور جسمانی مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ماریا کی غذا میں فائبر کی بھی بڑی مقدار شامل تھی، جس نے معدے کی صحت اور جسمانی توازن کو بہتر بنایا۔

ان کی طرز زندگی بھی صحت مند تھی۔ وہ الکحل اور تمباکو نوشی سے دور رہتی تھیں، باقاعدگی سے چہل قدمی کرتی تھیں اور ہمیشہ اپنے خاندان اور پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی تھیں۔ مثبت سوچ، ذہنی سکون، فکر اور پچھتاوے سے پرہیز، اور دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات نے ان کی ذہنی صحت کو بھی مستحکم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھاپے کے باوجود وہ صرف جوڑوں کی تکلیف اور سماعت کے مسائل کا شکار ہوئیں، مگر دل کی بیماری جیسی پیچیدگیاں کبھی نہیں ہوئیں۔

ماریا برینیاس اپنی لمبی عمر کا راز “خوش قسمتی، جینز، دہی کھانے کی عادت، مثبت سوچ، ورزش اور منفی ماحول سے دوری” کو قرار دیتی تھیں۔ ان کی زندگی اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ عام سی غذائیں اور صحت مند عادات انسان کو نہ صرف طویل بلکہ بھرپور اور صحت مند زندگی عطا کر سکتی ہیں۔ یہ تحقیق دنیا بھر کے ماہرین کے لیے اس بات کا ثبوت ہے کہ صحت مند خوراک اور مثبت رویہ بڑھاپے میں بھی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔

ویب ڈیسک شیخ یاسین.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!

واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد  تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔

شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟

یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔

شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔

کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔

شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز

شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔ 

شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔

فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔

کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ 

امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔

امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان

امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔

شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟

ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔

حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟

ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔

تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔

متعلقہ مضامین

  • ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں ملوث دوسرا ملزم افغان دہشت گرد نکلا
  • کوئٹہ ایف سی حملہ، خودکش بمبار افغان دہشت گرد نکلا
  • امریکا میں تاریخ کے طویل شٹ ڈاؤن کے باعث ہزاروں پروازیں منسوخ
  • امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
  • ’بھیا مت کرو‘، بھارت میں موٹرسائیکل رائیڈر جنسی بھیڑیے بن گئے
  • امریکا میں اسکول ٹیچر بچے کی فائرنگ سے زخمی، عدالت کا 1 کروڑ ہرجانے کا حکم
  • ’میں ہوں نا‘ کیلئے پہلی چوائس امریتا راؤ نہیں تھیں، فرح خان نے بتادیا
  • لندن، ایمرجنسی نمبر پر صرف 15 فیصد کالز ہنگامی صورت حال سے متعلق تھیں، پولیس
  • ہردیپ سنگھ نجر کا قتل: کینیڈ ا کو برطانیہ نے خفیہ معلومات فراہم کی تھیں، بلومبرگ
  • ٹرمپ اپنے مبالغہ آمیز دعووں کی فہرست طویل کرتے جا رہے ہیں، جے رام رمیش