علی رضا سید کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی صدر ٹرمپ کی پیشکش کا خیرمقدم
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
چیئرمین کشمیر کونسل ای یو کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ بھارت ہٹ دھرمی کے بجائے امریکی ثالثی کو قبول کرے کیونکہ یہی اس کے مفاد میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کشمیر کونسل ای یو کے چیئرمین علی رضا سید نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق علی رضا سید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی صدر کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنی پیشکش پر عمل درآمد شروع کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور مستقل حل تک جنوبی ایشیا میں امن و خوشحالی قائم نہیں ہو سکتی۔ کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ہٹ دھرمی کے بجائے امریکی ثالثی کو قبول کرے کیونکہ یہی اس کے مفاد میں ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کرے، قیدیوں کو رہا کرے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں بھارت نے پہلگام واقعے کی آڑ میں کشمیریوں کے بہت سے رہائشی مکانات کو تباہ کیا، خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا اور 2800 سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام کشمیریوں کو رہا کیا جائے اور کشمیریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی شہری آزادیوں کو بحال کیا جائے۔ علی رضا سید نے کہا کہ بھارت مستقبل قریب میں بہار کے ریاستی انتخابات کو جیتنے کے لیے اور دیگر سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایسے حربے استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے خود ہی پہلگام حملہ کروایا اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کے بغیر ہی اس کا الزام پاکستان پر لگا کر آزاد کشمیر اور پاکستان پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا۔ بھارت نے حالیہ برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ہے اور مقبوضہ علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے غیر کشمیری ہندوئوں کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفیکیٹس جاری کئے۔
انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین مستقل جنگ بندی اور امن خطے کے لیے بہت ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل سب سے اہم ہے۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کے بارے میں کہا کہ پانی کا مسئلہ بھی مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے تاکہ بھارت آئندہ کبھی اس معاہدے کو معطل نہ کر سکے۔ انہوں نے عالمی برادری خاص طور پر اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ حقائق کو تلاش کرنے والے اپنے مشن مقبوضہ کشمیر بھییجے تاکہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر علی رضا سید کہ بھارت کے لیے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر کے لداخ میں شدید جھڑپوں کے بعد کرفیو نافذ، 50 افراد گرفتار
حالات خراب ہوتے ہی ضلعی انتظامیہ نے انڈین سول سکیورٹی کوڈ کی دفعہ 144 اور دفعہ 163 نافذ کردی۔ کارگل، زنسکار، نوبرا، دراس، چانگتھانگ اور لامایورو میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع لیہہ میں بدھ کو ریاستی درجے (اسٹیٹ ہُڈ) اور چھٹے شیڈول کے مطالبے پر شٹر ڈاؤن (ہڑتال) کے دوران احتجاج کے دوران پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی خبر ہے، جب کہ مظاہروں کے دوران پچاس سے زائد گرفتار اور درجنوں شہریوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ وہیں اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے لیہہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کو آگ لگا دی اور سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی بھی نذرِ آتش کر دی۔ اب تازہ خبر کے مطابق بدھ کو بھڑک اٹھنے والے تشدد کے بعد صورتحال پر قابو پانے کے لئے لداخ کے لیہہ میں غیر معینہ مدت کے لئے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ جھڑپوں میں پانچ افراد ہلاک اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔ پولیس اب تک 50 افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ بدامنی اس وقت بڑھ گئی جب لیہہ اپیکس باڈی (LAB) کو ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول کے نفاذ کے مطالبے کے لئے بند کے دوران احتجاج پُرتشدد ہوگیا۔ مظاہرین نے بی جے پی کے دفتر اور کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی اور ہل کونسل ہیڈکوارٹر میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ کارگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی حمایت میں بند کا اعلان کیا تھا۔ حالات خراب ہوتے ہی ضلعی انتظامیہ نے انڈین سول سکیورٹی کوڈ کی دفعہ 144 اور دفعہ 163 نافذ کر دی۔ کارگل، زنسکار، نوبرا، دراس، چانگتھانگ اور لامایورو میں سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے۔
ہنگامہ آرائی کے درمیان سونم وانگچک نے اپنا 15 روزہ روزہ توڑ دیا اور نوجوانوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عدم تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے لیکن بدھ کو پیش آنے والے واقعات نے امن کے پیغام کو کمزور کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت نے تشدد کے لئے سیاسی طور پر محرک بیانات کو ذمہ دار ٹھہرایا، جب کہ لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے اسے ایک سازش قرار دیا۔ لداخ کے مستقبل پر مودی حکومت اور مقامی تنظیموں کے درمیان اگلی بات چیت 6 اکتوبر کو ہونے والی ہے۔