Express News:
2025-05-13@06:34:08 GMT

جنگ کے بعد کے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

امریکا کی مداخلت کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے جو یقیناً ان دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے سمیت عالمی سیاست کے لیے اچھی خبر ہے۔ اگر کچھ اور دن جنگ جاری رہتی تو اس کے خطرناک رجحانات سامنے آتے جو دونوں ملکوں سمیت عالمی دنیا اور خطے کے لیے نئی مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتے تھے۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی کوشش نے پاکستان و بھارت یعنی ایٹمی ممالک کو ایک بڑے جنگی بحران سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ویسے بھی جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور یہ عمل حالات کو نہ صرف بگاڑنے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ریاستیں تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر جنگ کو مسلط کرنے سے بھارت کو کیا کچھ حاصل ہوا۔

اس حالیہ تنازعہ اور جنگی ماحول نے بھارت کو سیاسی، معاشی، انتظامی، سفارتی اور دفاعی محاذ میں پسپائی پر لا کھڑا کر دیا ہے۔بھارت کے بارے میں یہ جو ایک عمومی تصور تھا کہ وہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس سے مقابلہ کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہوگا، غلط ثابت ہوا۔خود امریکا سمیت جو عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی خواہش مند تھیں ان کو بھی بھارت کی پسپائی پر کافی شرمندہ ہونا پڑا۔ ان عالمی سطح کی قوتوں کو اندازہ ہوا کہ بھارت کی جنگی صلاحیتیں وہ نہیں جو وہ ہمیں دکھاتا رہا ہے۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے ان حالات میں نہ صرف زیادہ صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے عمل سے ہر شعبے میں بھارت کے مقابلے میں اپنی برتری بھی ثابت کی۔اسی طرح بھارت جو اس خطے میں ایک بڑے ملک کے طور پر اپنی سیاسی برتری قائم کرنا چاہتا تھا اس کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔بھارت کی پاکستان کے خلاف اس کی مہم جوئی نے اس کا داخلی مقدمہ اور سفارت کاری کے محاذ کو کمزور کردیا ہے اور بھارت آسانی سے اس پسپائی سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ بھارت کے اس ایڈونچر نے عالمی دنیا میں پاکستانی ساکھ کو بہت بہتر بنایا ہے اور بھارت سمیت عالمی دنیا نے پاکستانی صلاحیتوں پر جو غلط اندازے لگائے ہوئے تھے، ان کی شکست پاکستان کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نے پاکستان اور بھارت کی جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کیا مشروط تھا یا غیر مشروط یا کن شرائط پر امریکا نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس جنگ بندی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی با مقصد مذاکرات ممکن ہو سکیں گے ۔ کیا یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت مل کر ہی کریں گے یا اس میں امریکا سمیت کسی اور ملک کا ثالثی کا کردار ہوگا۔

یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے اور اس کا ایجنڈا کیا ہوگا اور یہ ایجنڈا کون طے کرے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل میں بھی ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اگر دونوں ملکوں کے درمیان بامعنی مذاکرات نہیں ہوتے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

نریندر مودی کو حالیہ مہم جوئی میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے وہ آسانی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔اگر وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اس سے بھارت میں موجود آر ایس ایس اور انتہا پسند ہندو مودی کی مخالفت میں سامنے آجائیں گے اور اس کا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔

اس لیے نریندر مودی کے پاس پاکستان مخالف کارڈ ہی ایسا کارڈ ہے جس سے ان کی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے۔مودی کی مقبولیت کا اس حالیہ مہم جوئی کے نتیجے میں درست اندازہ آنے والے چند ماہ میں بہار سمیت دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات ہیں اور اس انتخابی مہم میں وہ پاکستان کی ہر صورت مخالفت کاکارڈ ضرور کھیلیں گے ۔اگر وہ یہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے تو مودی کی سیاسی بحالی ممکن ہوگی۔

نریندر مودی کی حکومت کیونکہ اتحادی جماعتوں کی مرہون منت ہے اور فوری طور پر اتحادی بھی انھیں چھوڑنے سے گریز کریں گے اور دیکھیں گے کہ آنے والے ریاستی انتخابات میں مودی کہاں کھڑے ہوں گے اور ان نتائج کی بنیاد پر ان کے اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلتا ہے تو پاکستان اور بھارت اپنے اپنے ایجنڈے پر زور دیں گے اور دیکھنا ہو گا کہ اس پر عالمی برادری کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔

اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ نریندر مودی کی حکومت اس سیاسی سبکی کے بعد پاکستان میں پہلے سے جاری اپنی پراکسی وار بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں جاری رکھے گی تاکہ پاکستان کے داخلی حالات میں عدم استحکام یا دہشت گردی کو برقرار رکھے۔بھارت کوشش کرے گا افغانستان کے معاملے میں بھی وہ افغان طالبان کے ساتھ کھڑا ہو اور ان کو اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرے۔

اس حالیہ مہم جوئی میں بھارت کو ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے اور کئی عالمی اداروں سمیت اہم ملکوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور دو طرفہ حل سامنے نہیں آجاتا۔بھارت کے لیے یہ بھی بڑا سیاسی دھچکا ہے کہ اس حالیہ مہم جوئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر اس کے حل پر زور دیا اور اپنی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

بھارت کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کا ایجنڈا بنائے اور اس پر وہ عالمی قوتوں کا دباؤ بھی آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔اس لیے پاکستان کو اب بھی بھارت کے ایجنڈا سے خبردار رہنا ہوگا کیونکہ مودی حکومت پاکستان کو مشکلات میں رکھنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مہم جوئی دونوں ملکوں کے پاکستان کے بھارت کی بھارت کو اس حالیہ مودی کی کے لیے گے اور اور اس ہے اور

پڑھیں:

ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل میں تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر دیکھیں گے کہ کیا کشمیر کے تنازع کا کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کی قیادت، عالمی امن کے لیے وابستگی اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ان کی انتہائی قیمتی پیشکش پر اظہار تشکر کیا ہے۔

 بلاشبہ امریکی صدر کا حالیہ بیان پاکستان کی سفارتی سطح پر بڑی کامیابی ہے۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد کشمیر کا معاملہ پھر سے عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور اس کو اجاگر کرنا پاکستان کے لیے اہم پیشرفت ہے۔ ٹرمپ نے یقیناً سوچ سمجھ کر یہ پیشکش کی ہے اور اس بیان کے بھارتی رد عمل کا بھی انھیں خوب اندازہ ہوگا کہ مودی کشمیر کا ذکر کرنے پر جلنے لگتے ہیں، کشمیر مودی کے لیے نو گو ایریا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا میں موجود تنازعات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ معاملات حل کرنے کی غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں، اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے کوئی دیو مالائی گفتگو نہیں کی، وہ سیاست کے امکانات کے وسیع تر تناظر میں بات کررہے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں امن و استحکام مسئلہ کشمیر کے حل سے جڑا ہوا ہے، خطے کو جس مسئلے نے فلیش پوائنٹ بنایا ہے وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی اندوہناک صورتحال ہے، علاقائی سیاست، عسکری حرکیات اور ایٹمی صلاحیت کے حامل پڑوسیوں کے مابین امن، معمول کے تعلقات کی بحالی، سفارت گری اور تجارت ممکن ہی نہیں جب تک عالمی قوتیں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر راضی نہیں ہو جاتیں۔ خطے کے اس درد کی دوا ان ہی بالا دست طاقتوں کے پاس ہے جنھوں نے اپنے مفادات کی جنگ میں کشمیر کو فراموش کیا ہے مگر اس بار معاملہ کچھ اور ہے۔

 بھارتی وزیر اعظم مودی کے تمام بیانات جو انڈس واٹر ٹریٹی کے بارے میں ہیں یہ بات بالکل واضح کرتے ہیں کہ ہندوستان اس معاہدے کو ہر صورت ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ سیز فائر جس کے لیے ہندوستان کے محکمہ خارجہ نے ’’ سیز فائر یا جنگ بندی‘‘ کا لفظ ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ سیز فائر کسی بڑے طوفان کے آنے سے پہلے چھا جانیوالی خاموشی کی سی صورتحال کا غماز ہے۔ پاکستان کسی بھی صورت یہ نہیں چاہے گا کہ انڈس واٹر ٹریٹی کو ہندوستان یکطرفہ طور پہ توڑ دے یا اس کے تحت پاکستان کے خلاف دریائی پانی کی دہشت گردی کرتا رہے۔

ہندوستان اس تمام 22 اپریل و ما بعد کی صورتحال کو سیاسی طور پر انڈس واٹر ٹریٹی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر نا چاہتا ہے، وہ سندھ طاس معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کے نام پر سیاسی طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے۔ 1949 پاکستان انڈیا جنگ بندی معاہدہ اقوام متحدہ، تاشقند معاہدہ 1966 روس، رن آف کچھ بین الاقوامی ثالثی 1968، 2002میں محاذ آرائی کو کنٹرول کرنے میں امریکی کردار، شملہ معاہدے 1972کے دستخط کرانے میں روس اور امریکا کی جانب سے دباؤ۔

یہ تمام چند مثالیں ہیں کہ انڈیا اور پاکستان اپنے معاملات کو کسی بھی صورت نہیں سنبھال سکتے۔ آج اس انڈیا پاکستان محاذ آرائی کو ختم کرانے میں امریکا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، ایران، آذربائیجان، برطانیہ و چائنہ اور دیگر دوست ملکوں کی کوششیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انڈس واٹر ٹریٹی پر 10 مئی کا یہ سیز فائر ختم ہو جاتا ہے تو ان قوتوں کو ایک بار پھر آگے آنا پڑے گا اور پاکستان اور انڈیا کو مذاکرات کی ٹیبل پر آمنے سامنے بٹھانا ہوگا۔

ہندوستان کے مسلسل پاکستان کے اندر ڈرون اور میزائل حملوں نے پاکستان کو مجبور کر دیا کہ وہ ہندوستان کے آپریشن سیندور کے جواب میں اپنا آپریشن بنیان مرصوص شروع کرے۔ یہ آپریشن علی الصبح 10 مئی کو شروع ہوا اور دوپہر ہونے تک ہندوستان کی فوجی و ٹیکنالوجی برتری کے سارے بتوں کو زمین بوس کر چکا تھا۔ پاکستان کی شدید فوجی کارروائی نے بھارتی قیادت کو مجبور کر دیا کہ وہ امریکی قیادت سے رابطہ کر کے جنگی صورتحال کو روکنے کے لیے بات کرے۔

اگرچہ سعودی، ایرانی، اماراتی اور قطری سفارت کار اور کچھ مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ چین و برطانیہ کے سفارت کار بھی پاکستان انڈیا کے درمیان اس فوجی کشیدگی کو کم کرانے کی کوششوں میں یکم مئی کے بعد سے مصروف تھے، لیکن انڈیا کے میڈیا کے قائم کردہ طاقت کے گھمنڈ اور مودی حکومت کی سیاسی سوچ نے اس بات چیت کو اور ثالثی کی کوششوں کو ہندوستان کے فیصلہ سازوں کی سوچ سے کافی دور رکھا ہوا تھا۔ آپریشن بنیان مرصوص شروع ہونے کے چند گھنٹوں میں بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکی صدر ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکریٹری خارجہ امور مارکو روبیو نے درمیان میں کود کر دونوں ملکوں کو فائر بندی پر رضامند کیا۔

اس پس منظر میں پاکستان کی فوجی اور سفارتی برتری اور پاکستان کے سرکاری وغیرہ سرکاری میڈیا اور پاکستانی قوم کے پرامن زمانے سے زیادہ جنگ کے دوران پرامن و متحد رہنا واضح کرتا ہے کہ پاکستان کی صرف ایک دن میں چند گھنٹوں کی مربوط اور مضبوط فوجی کارروائی نے پاکستان کو بین الاقوامی طور پر مضبوط اقوام میں دوبارہ لا کھڑا کیا ہے۔

اگرچہ ابھی اس کے معاشی اثرات کا پاکستان کی معیشت پر سامنے آنا باقی ہے لیکن اصل بات جو حکومت پاکستان کو بہت ہی زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے وہ اس تمام کشیدگی کا سیاسی پہلو ہے۔ آج اس قومی ایمرجنسی کے وقت میں فوری طور پر طے ہو گیا ہے کہ چینی اسلحہ اور فوجی ساز و سامان مغرب اور امریکا سے کہیں اعلیٰ درجے کا ہے، پاکستان کی فضائیہ دنیا کی سب سے اعلیٰ تربیت یافتہ فورس ہے۔

 پاکستان کا سفارت کاری کا شعبہ برد بار، سمجھدار اور کسی بھی صورت ہندوستان سے کمزور نہیں ہے۔ پاکستان کا میڈیا کچھ کمزوریوں کے باوجود سنجیدہ اور حقیقت پر مبنی رپورٹنگ ایسے مشکل حالات میں بھی کر سکتا ہے۔ معاشی مشکلات کے باوجود قوم ایک ہے۔ لیکن اگر کچھ طے نہیں ہوتا نظر آرہا ہے تو وہ اس کشیدگی کے سیاسی مضمرات اور اثرات ہیں۔ ابھی تک اس بات کا تعین نہیں ہو سکا کہ سیز فائر کو کہاں تک لے جایا جا سکتا ہے۔

بین الاقوامی برادری کا نقطہ نظر تنازعہ کی رفتار اور ممکنہ حل کے لیے اہم مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اب فیصلہ عالمی قوتیں کریں گی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا ہے یا سب اصول بالائے طاق رکھنا ہے اگر اقوام عالم نے انصاف کا دامن نہ تھاما تو پھر مشکلات میں اضافہ ہوگا۔جوہری ہتھیاروں کی موجودگی اور ان کے استعمال کی صلاحیت عالمی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ ہے۔

دہشت گرد تنظیمیں عالمی استحکام اور سلامتی کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور عدم مساوات سماجی بدامنی اور تنازعات میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ عالمی ادارے اور بین الاقوامی تعاون تنازعات کو کم کرنے اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ سفارتی کوششیں تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرسکتی ہیں اور تناؤ کو کم کرسکتی ہیں۔ اقوام کے درمیان اقتصادی باہمی انحصار تعاون کو فروغ دے سکتا ہے اور تصادم کے امکانات کو کم کر سکتا ہے۔ تکنیکی ترقی مواصلات، تعاون، اور تنازعات کے حل کو بہتر بنا سکتی ہے۔

جنگ کا پھیلنا اکثر غیر متوقع ہوتا ہے، اور غیر متوقع واقعات کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ بظاہر معمولی واقعات بھی بڑے تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں۔ اقوام کے درمیان موجودہ تناؤ، خاص طور پر جوہری صلاحیتوں کے حامل، تنازعات کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ دنیا چیلنجوں سے نمٹنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔

جنگ کا امکان موجود ہے، لیکن یقین کے ساتھ اس کی پیش گوئی کرنا ناممکن ہے۔ جاری سفارتی کوششیں، بین الاقوامی تعاون، اور امن کے عزم سے تنازعات کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ امریکا کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کی گیند تاریخ اور لمحہ موجود کی عالمی سیاست کے کورٹ میں ہے۔ مسئلہ کشمیر کے ممکنہ حل کو ٹرمپ کی کوششوں سے نتھی کر کے بڑی پیش رفت کی ہے ان کی معروضات میں غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے، تاہم نئی امریکی انتظامیہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سنجیدہ ہے، خطے میں استحکام کے لیے جوہری ممالک کے درمیان معاملات حل ہونے چاہئیں۔ کشمیر شعلہ جوالہ بن چکا ہے، مودی حکومت کی سیکولر ازم برہنہ ہے، کشمیر امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ٹیسٹ کیس ہے، ثالثی ناگزیر ہے۔ا1ھ

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی
  • بھارت نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور مودی اپنی عوام اور عالمی سطح پر منہ چھپاتا پھر رہا ہے، شازیہ مری
  • عالمی میڈیا کی نظر میں پاک-بھارت سیزفائر، امن یا خاموش طوفان؟
  • عالمی طاقتوں کا کھیل، شاہینوں نے بساط پلٹ دی
  • مودی کا وقت ختم ہو چکا، ہم بھارتی آبی جارحیت کا بھی جواب دیں گے، فضل الرحمان
  • عالمی شہرت یافتہ پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کی قیادت میں پاکستان زندہ باد ریلی
  • فوجی کارروائیوں کو روکنے سے عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے، سنجے راؤت
  • آہنی دیوار
  • مودی کا جنگی جنون اور پاکستان میں بزدلانہ دراندازی