Express News:
2025-06-28@00:21:37 GMT

جنگ کے بعد کے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

امریکا کی مداخلت کے سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے جو یقیناً ان دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ خطے سمیت عالمی سیاست کے لیے اچھی خبر ہے۔ اگر کچھ اور دن جنگ جاری رہتی تو اس کے خطرناک رجحانات سامنے آتے جو دونوں ملکوں سمیت عالمی دنیا اور خطے کے لیے نئی مشکلات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتے تھے۔

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ بندی کی کوشش نے پاکستان و بھارت یعنی ایٹمی ممالک کو ایک بڑے جنگی بحران سے نکلنے میں مدد دی ہے۔ویسے بھی جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اور یہ عمل حالات کو نہ صرف بگاڑنے کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں ریاستیں تباہی کا منظر پیش کرتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر پاکستان پر جنگ کو مسلط کرنے سے بھارت کو کیا کچھ حاصل ہوا۔

اس حالیہ تنازعہ اور جنگی ماحول نے بھارت کو سیاسی، معاشی، انتظامی، سفارتی اور دفاعی محاذ میں پسپائی پر لا کھڑا کر دیا ہے۔بھارت کے بارے میں یہ جو ایک عمومی تصور تھا کہ وہ ایک بڑی طاقت ہے اور اس سے مقابلہ کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہوگا، غلط ثابت ہوا۔خود امریکا سمیت جو عالمی طاقتیں بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی خواہش مند تھیں ان کو بھی بھارت کی پسپائی پر کافی شرمندہ ہونا پڑا۔ ان عالمی سطح کی قوتوں کو اندازہ ہوا کہ بھارت کی جنگی صلاحیتیں وہ نہیں جو وہ ہمیں دکھاتا رہا ہے۔

بھارت کے مقابلے میں پاکستان نے ان حالات میں نہ صرف زیادہ صبر و تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے عمل سے ہر شعبے میں بھارت کے مقابلے میں اپنی برتری بھی ثابت کی۔اسی طرح بھارت جو اس خطے میں ایک بڑے ملک کے طور پر اپنی سیاسی برتری قائم کرنا چاہتا تھا اس کو بھی شدید دھچکا لگا ہے۔بھارت کی پاکستان کے خلاف اس کی مہم جوئی نے اس کا داخلی مقدمہ اور سفارت کاری کے محاذ کو کمزور کردیا ہے اور بھارت آسانی سے اس پسپائی سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ بھارت کے اس ایڈونچر نے عالمی دنیا میں پاکستانی ساکھ کو بہت بہتر بنایا ہے اور بھارت سمیت عالمی دنیا نے پاکستانی صلاحیتوں پر جو غلط اندازے لگائے ہوئے تھے، ان کی شکست پاکستان کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نے پاکستان اور بھارت کی جنگ بندی میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کیا مشروط تھا یا غیر مشروط یا کن شرائط پر امریکا نے دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس جنگ بندی کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی با مقصد مذاکرات ممکن ہو سکیں گے ۔ کیا یہ مذاکرات پاکستان اور بھارت مل کر ہی کریں گے یا اس میں امریکا سمیت کسی اور ملک کا ثالثی کا کردار ہوگا۔

یہ طے ہونا بھی باقی ہے کہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے اور اس کا ایجنڈا کیا ہوگا اور یہ ایجنڈا کون طے کرے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کے حل میں بھی ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود اگر دونوں ملکوں کے درمیان بامعنی مذاکرات نہیں ہوتے تو پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔

نریندر مودی کو حالیہ مہم جوئی میں جس سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے وہ آسانی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔اگر وہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اس سے بھارت میں موجود آر ایس ایس اور انتہا پسند ہندو مودی کی مخالفت میں سامنے آجائیں گے اور اس کا فائدہ کانگریس کو ہوگا۔

اس لیے نریندر مودی کے پاس پاکستان مخالف کارڈ ہی ایسا کارڈ ہے جس سے ان کی سیاست آگے بڑھ سکتی ہے۔مودی کی مقبولیت کا اس حالیہ مہم جوئی کے نتیجے میں درست اندازہ آنے والے چند ماہ میں بہار سمیت دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات ہیں اور اس انتخابی مہم میں وہ پاکستان کی ہر صورت مخالفت کاکارڈ ضرور کھیلیں گے ۔اگر وہ یہ انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے تو مودی کی سیاسی بحالی ممکن ہوگی۔

نریندر مودی کی حکومت کیونکہ اتحادی جماعتوں کی مرہون منت ہے اور فوری طور پر اتحادی بھی انھیں چھوڑنے سے گریز کریں گے اور دیکھیں گے کہ آنے والے ریاستی انتخابات میں مودی کہاں کھڑے ہوں گے اور ان نتائج کی بنیاد پر ان کے اتحادی اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا راستہ کھلتا ہے تو پاکستان اور بھارت اپنے اپنے ایجنڈے پر زور دیں گے اور دیکھنا ہو گا کہ اس پر عالمی برادری کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔

اس بات کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ نریندر مودی کی حکومت اس سیاسی سبکی کے بعد پاکستان میں پہلے سے جاری اپنی پراکسی وار بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں جاری رکھے گی تاکہ پاکستان کے داخلی حالات میں عدم استحکام یا دہشت گردی کو برقرار رکھے۔بھارت کوشش کرے گا افغانستان کے معاملے میں بھی وہ افغان طالبان کے ساتھ کھڑا ہو اور ان کو اور ٹی ٹی پی کو پاکستان کی مخالفت میں بطور ہتھیار استعمال کرے۔

اس حالیہ مہم جوئی میں بھارت کو ایک نقصان یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے اور کئی عالمی اداروں سمیت اہم ملکوں نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ مسئلہ کشمیر کا پرامن اور دو طرفہ حل سامنے نہیں آجاتا۔بھارت کے لیے یہ بھی بڑا سیاسی دھچکا ہے کہ اس حالیہ مہم جوئی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر اس کے حل پر زور دیا اور اپنی ثالثی کی پیشکش کی ہے۔

بھارت کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کا ایجنڈا بنائے اور اس پر وہ عالمی قوتوں کا دباؤ بھی آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔اس لیے پاکستان کو اب بھی بھارت کے ایجنڈا سے خبردار رہنا ہوگا کیونکہ مودی حکومت پاکستان کو مشکلات میں رکھنے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مہم جوئی دونوں ملکوں کے پاکستان کے بھارت کی بھارت کو اس حالیہ مودی کی کے لیے گے اور اور اس ہے اور

پڑھیں:

بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔

اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔

اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔

اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا،  اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔

بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔

امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔

پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔

ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔

بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سفارتی محاذ پر سرخرو، بھارت کو ہزیمت
  • جنیوا میں کشمیریوں کا مودی حکومت کے خلاف احتجاج
  • پہلگام فالس فلیگ، مودی سرکار کی پاکستان دشمن مہم بے نقاب
  • مودی سرکار کی پاکستان دشمن مہم بے نقاب، پہلگام فالس فلیگ اور بے بنیاد گرفتاریاں جاری
  • بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
  • آج بھارت غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے گزر رہا ہے، کانگریس
  • بھارت کیخلاف ایک اور تاریخی فتح، مودی سرکار پہلگام واقعے کو پاکستان سے جوڑنے میں ناکام
  • مودی حکومت نے بھارت کو خواتین کیلیے دنیا کا غیر محفوظ ترین ملک بنا دیا
  • پہلگام حملہ تحقیقات؛ ہندوتوا پالیسی پر گامزن مودی سرکار ثبوت پیش کرنے میں ناکام
  • دُنیا نے مودی سرکار کا جھوٹا بیانیہ  مسترد کردیا؛ بھارتی جریدے نے پول کھول دیے