مودی کو 15 اگست کو دہلی میں ترنگا لہرانے نہیں دیں گے،31 اگست خالصتان تحریک کا اہم دن ہے،گرپتونت سنگھ
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
سکھ فار جسٹس کے سربراہ اور خالصتان تحریک کے سرگرم رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ سکھ عوام کو آزادی کی جدوجہد میں متحد ہونا ہوگا اور ہم پاکستان کے ساتھ مل کر بھارت کے مظالم کا مقابلہ کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے بذریعہ ویڈیو لنک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ گرپتونت سنگھ پنوں نے اعلان کیا کہ 17 اگست کو امریکا میں "دلی بنے گا خالصتان" کے عنوان سے ریفرنڈم منعقد ہوگا، جس کا مقصد دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ دلی سمیت ہماچل پردیش، ہریانہ، راجستھان اور اتر پردیش کے بعض علاقے خالصتان کا حصہ ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکومت سکھوں پر مسلسل پابندیاں لگا رہی ہے، جبکہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کا وائٹ ہاؤس میں استقبال پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارت نے پاکستان پر حملے کر کے خواتین اور بچوں کو شہید کیا، اور اس جارحیت کا جواب مشترکہ مزاحمت سے دیا جانا چاہیے۔ گرپتونت سنگھ نے یہ بھی کہا کہ کینیڈا کے وزیرِاعظم نے بھارت کو متعدد ناخوشگوار واقعات کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خط خالصتان تحریک کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے کا ثبوت ہے۔
ان کے بقول، اگرچہ خط میں ان کا نام درج ہے، لیکن یہ خالصتان کی پوری تحریک کے لیے ہے۔
گرپتونت سنگھ پنوں نے دعویٰ کیا کہ 15 اگست کو بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کو دہلی میں ترنگا لہرانے نہیں دیا جائے گا، جبکہ 31 اگست کو خالصتان تحریک کے لیے انتہائی اہم قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ خالصتان کا تفصیلی نقشہ جاری کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ اس نقشے میں پاکستان کے پنجاب کے کسی علاقے یا شہر کو شامل کیا گیا ہے، اور کہا کہ یہ بھارتی حکومت اور اس کے حمایتی سکھوں کا پروپیگنڈا ہے۔
گرپتونت سنگھ پنوں کینیڈا میں مقیم ایک سکھ وکیل اور علیحدگی پسند رہنما ہیں، جو "سکھ فار جسٹس" نامی تنظیم کے بانی اور قانونی مشیر ہیں۔ یہ تنظیم 2007 میں قائم ہوئی اور خالصتان کے قیام کے لیے عالمی سطح پر ریفرنڈم مہم چلا رہی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گرپتونت سنگھ پنوں خالصتان تحریک انہوں نے اگست کو کے لیے
پڑھیں:
یہ شرمناک اور اخلاقی بزدلی ہے ، بھارت کی فلسطین پالیسی پر کانگریس کی شدید تنقید
بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بھارت کی موجودہ فلسطین پالیسی کو “شرمناک” اور “اخلاقی بزدلی” قرار دیا ہے۔
پریانکا گاندھی کی شدید برہمی
کانگریس کی سینئر رہنما پریانکا گاندھی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے 1988 میں فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا، لیکن گزشتہ 20 ماہ کے دوران ہماری حکومت اس بہادرانہ اور اصولی مؤقف سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔
انہوں نے بھارت کی حالیہ پالیسی کو “افسوسناک انحطاط” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی نہ صرف تاریخی مؤقف کی توہین ہے بلکہ انسانی حقوق سے انحراف بھی ہے۔
جے رام رمیش کی یاددہانی
کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے بھی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک اب فلسطین کو تسلیم کر رہے ہیں، جب کہ بھارت، جو 1988 میں یہ قدم اٹھا چکا تھا، آج خاموشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے موجودہ حکومت کے مؤقف کو غیر اخلاقی اور بزدلانہ رویہ قرار دیا، اور کہا کہ مودی حکومت نے بھارت کی خارجہ پالیسی کو عالمی سطح پر کمزور کر دیا ہے۔
مودی حکومت کی خاموشی پر سوالات
یاد رہے کہ کانگریس نے گزشتہ ماہ بھی مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جب وہ غزہ پر اسرائیل کے حملوں اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پر خاموش رہی۔
پریانکا گاندھی نے اُس وقت بھی اسرائیل پر نسل کشی کا الزام عائد کیا تھا اور بھارتی حکومت کی خاموشی کو مجرمانہ غفلت قرار دیا تھا۔
فلمی حلقے بھی بول پڑے
سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ فنکار برادری بھی اس موضوع پر آواز بلند کر رہی ہے۔ معروف بھارتی اداکار پراکاش راج نے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکا اور بھارتی وزیراعظم مودی کو بھی فلسطین میں جاری انسانی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
پس منظر میں تاریخی مؤقف
بھارت نے 18 نومبر 1988 کو سرکاری طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ یہ قدم اس وقت دنیا بھر میں نظریاتی ہم آہنگی اور اصولی مؤقف کے طور پر سراہا گیا تھا۔
لیکن آج، بھارت کی خاموشی اور دوغلی پالیسی پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک شدید تنقید کی جا رہی ہے۔