اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 13 مئی ۔2025 )معدنیات کے اخراج کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال میں تربیت یافتہ ایک ہوشیار افرادی قوت اس شعبے میں انقلاب برپا کر سکتی ہے کوہ دلیل مائننگ کمپنی لمیٹڈ کے پرنسپل جیولوجسٹ عبدالبشیر نے ویلتھ پاک کو بتایاکہ کان کنی کی فرسودہ تکنیک اور آلات، حفاظت کے ناقص معیارات اور جدید ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غیر تربیت یافتہ افرادی قوت کان کنی کے شعبے میں پاکستان کی حقیقی ترقی میں رکاوٹ ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹلائزڈ مائننگ سیکٹر ریاست کے بٹوے کے لیے خوش قسمتی کا باعث بن سکتا ہے.

(جاری ہے)

ماہر ارضیات نے کہا کہ مصنوعی ذہانت آٹومیشن اور ڈیٹا اینالیٹکس کے انضمام سے کان کنی کے شعبے کی پیداواری صلاحیت میں بہتری آئے گی مصنوعی ذہانت پر مبنی کان کنی کے حل کام کی جگہ کے خطرات اور ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے میں بھی مدد کریں گے اگرچہ پر مبنی کان کنی کی وسیع صلاحیت موجود ہے لیکن پاکستان میں، اس شعبے میں مہارت کا ایک بڑا فرق ہے بہت کم کان کنی کے پیشہ ور افراد کو مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی کے استعمال میں تربیت دی جاتی ہے، جب کہ اس کے استعمال سے آگاہ افرادی قوت کی تعداد میں کوئی کمی نہیں.

انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت پر مبنی سمارٹ کان کنی صرف سینسر یا خودکار مشینوں کی تنصیب نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق انسانی سرمائے سے ہے جو مذکورہ نظام کی تشریح اور چلانے کے قابل ہے لہذا کان کنی کے شعبے کو واقعی موثر بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگراموں کو بڑھانا بہت ضروری ہے . انہوں نے کہاکہ اے آئی پر مبنی سمارٹ سلوشنز میں ریئل ٹائم ڈیٹا کی نگرانی اور تجزیہ، مشین لرننگ کے ذریعے جیولوجیکل ماڈلنگ، آلات کی تشخیص، پیشن گوئی کی دیکھ بھال، سمارٹ ہولیج، خود مختار ڈرلنگ، اور سینسرز یا ڈرونز کے ذریعے ماحولیاتی نگرانی شامل ہیں ورک فورس ان تمام چیزوں کو استعمال کرنے کی کلید ہے، لہذا صنعتی تربیت میں جدید مداخلت کی ضرورت ہے پاکستان میں جوجھتے ہوئے معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے، معدنی دولت کا استحصال ضروری ہے مصنوعی ذہانت پر مبنی سمارٹ میکانائزڈ کان کنی ملک میں بے پناہ دولت کے بہا کی صلاحیت کو کھول سکتی ہے موجودہ کان کنی اور ارضیات کی تربیت اور ڈگری پروگراموں میں، مصنوعی ذہانت ماڈیولز کا انضمام بہت اہم ہے.

انہوں نے کہا کہ تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو مصنوعی ذہانت پر مبنی کان کنی، معدنیات نکالنے اور قیمت میں اضافے پر غور کرنا چاہیے حکومت کو مصنوعی ذہانت پر مبنی کان کنی میں دوست ممالک کے ماہر بالخصوص چین سے بھی تعاون حاصل کرنا چاہیے ویلتھ پاک کے ساتھ سمارٹ کان کنی کے نظام کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی تربیت کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کان کن کے ماہر عمران بابر نے کہاکہ مصنوعی ذہانت پر مبنی جدید ٹیکنالوجی کان کنی کے شعبے کو زیادہ پیداواری بنانے کے لیے بہت اہم ہے.

انہوں نے کہاکہ کان کنی کے آلات کی ناکامی کے امکانات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت پیشن گوئی کے ساتھ سازوسامان کی خرابی کو کم کرنے، مینینگ کو ختم کرنے میں بھی مددگار ہے انہوں نے کہا کہ کان کنی کی افرادی قوت کو مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات کے استعمال میں تربیت دینا اور اس شعبے میں تکنیکی خصوصیات کو پورا کرنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ اس سے نہ صرف کان کنی کی مصنوعات کی پیداواری صلاحیت اور معیار میں بہتری آئے گی بلکہ آپریشن کا وقت بھی کم ہو جائے گا.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کو مصنوعی ذہانت پر مبنی پر مبنی کان کنی کان کنی کے شعبے انہوں نے کہا کہ افرادی قوت کے استعمال کان کنی کی کے لیے

پڑھیں:

مصنوعی ذہانت کے نئے قلعے: ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تیار، لاگت کتنی؟

دنیا بھر میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر اور توسیع کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: مصنوعی ذہانت میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر کیسے اثرانداز ہوگی؟ بین رپورٹ کا تجزیہ

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری بینک مورگن اسٹینلے کا کہنا ہے کہ اب سے لے کر سنہ 2029 تک دنیا بھر میں اے آئی ڈیٹا سینٹرز پر تقریباً 3 ٹریلین ڈالر (3 ہزار ارب ڈالر) خرچ کیے جائیں گے۔

اس میں سے آدھی رقم تعمیراتی اخراجات پر خرچ ہوگی جبکہ باقی آدھی رقم مہنگے ہارڈویئر پر لگے گی جواے آئی کی طاقت کو ممکن بناتے ہیں۔

صرف برطانیہ میں اگلے چند سالوں کے دوران 100 نئے ڈیٹا سینٹرز تعمیر کیے جانے کی توقع ہے جن میں سے کئی مائیکروسافٹ کے لیے ہوں گے جس نے حال ہی میں برطانیہ میں اے آئی سیکٹر میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔

اے آئی ڈیٹا سینٹرز عام ڈیٹا سینٹرز سے کیسے مختلف ہیں؟

روایتی ڈیٹا سینٹرز وہ جگہیں ہوتی ہیں جہاں ہماری تصاویر، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور کاروباری ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے۔ مگر اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا سینٹرز کی بات کچھ اور ہے۔

مزید پڑھیے: ریستورانوں میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے آرڈرز لینا اکثر مضحکہ خیز بن جاتا ہے، جانیے کیسے؟

اے آئی کے بڑے ماڈلز، خاص طور پر لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایم)، کو چلانے کے لیے انتہائی تیز رفتار، قریبی اور طاقتور کمپیوٹرز درکار ہوتے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی نیویڈیا کی چپس کئی ملین ڈالرز مالیت کی ہوتی ہیں جنہیں انتہائی قریب ایک ساتھ نصب کیا جاتا ہے تاکہ پیرالل پروسیسنگ ممکن ہو سکے۔

یہ اے آئی کثافت ڈیٹا سینٹرز کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے اور سب سے بڑا چیلنج بھی کیونکہ ہر چِپ کے درمیان صرف ایک میٹر کا فاصلہ بھی نینو سیکنڈ کی تاخیر پیدا کر دیتا ہے جو مجموعی کارکردگی پر اثر ڈالتی ہے۔

بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ

ایسے ڈیٹا سینٹرز میں طاقتور چِپس کی بڑی تعداد نصب ہوتی ہے جس سے گیگا واٹس کے حساب سے بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اے آئی ماڈلز کی ٹریننگ کے دوران اچانک پیدا ہونے والی بجلی کی مانگ کو سینکڑوں گھروں کے بیک وقت کیٹل آن اور آف کرنے جیسا قرار دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مضامین لکھوانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار دماغ کو کمزور کرتا ہے، تحقیق میں انکشاف

ڈیٹا سینٹر انجینئرنگ کنسلٹنسی  دی اپ ٹائم انسٹیٹیوٹ کے ڈینیئل بیزو کہتے ہیں کہ عام ڈیٹا سینٹرز کے مقابلے میں اے آئی کا لوڈ، پاور گرڈ پر ایک الگ ہی قسم کا دباؤ ڈالتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی تکنیکی چیلنج ہے بالکل ایسے جیسے اپولو پروگرام تھا۔

توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش

اس شدید توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے مختلف کمپنیز نے متبادل راستے تلاش کیے ہیں۔

نیویڈیا کے  سی ای او جینسن ہوانگ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں وہ گرِڈ سے ہٹ کر گیس ٹربائنز کے استعمال کے حق میں ہیں تاکہ عام صارفین متاثر نہ ہوں۔

مائیکروسوفٹ نے توانائی کے منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جن میں  تھری مائیلز آئی لینڈ پر نیوکلیئر پاور کی بحالی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لیبارٹریوں میں تیار کردہ ‘مصنوعی دماغ’ کا حیران کن استعمال کیا ہے؟

گوگل کا ہدف ہے کہ وہ سنہ 2030 تک مکمل طور پر کاربن فری توانائی پر منتقل ہو جائے۔

امیزون ویب سروسز پہلے ہی دنیا میں تجدید پذیر توانائی کی سب سے بڑی خریدار ہے۔

ماحولیاتی اثرات اور تنقید

اے آئی ڈیٹا سینٹرز پر بڑھتی توانائی کی مانگ کے ساتھ ساتھ ان کے ماحولیاتی اثرات پر بھی قانون ساز اداروں کی نظر ہے۔ خاص طور پر چِپس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: مزاح نگاری مصنوعی ذہانت کے بس کی بات نہیں، مصنفین

امریکی ریاست ورجینیا میں ایسے ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کو پانی کے استعمال سے مشروط کرنے کا بل زیر غور ہے۔

برطانیہ کے لنکن شائر میں ایک اے آئی فیکٹری پر اینگلین واٹر نے اعتراض کیا ہے کیونکہ وہ گھریلو مقاصد کے علاوہ پانی فراہم کرنے کے پابند نہیں۔

کیا یہ سب باتیں ہیں۔

بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ موجودہ سرمایہ کاری کی رفتار ناقابل یقین ہے۔ ایک ڈیٹا سینٹر کانفرنس میں ایک ماہر نے تو اے آئی انڈسٹری کے دعووں کوایک نئی اصطلاح دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’Bragawatts’ (شیخی خور واٹس) ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ناسا نے سورج کی سرگرمیوں کی پیشگوئی کے لیے مصنوعی ذہانت کا سہارا لے لیا

ڈی ٹی سی پی میں ڈیٹا سینٹر کے ماہر زحل لمبوالا جو ہیں کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری کو آخرکار منافع دینا ہوتا ہے ورنہ مارکیٹ کو خود اپنی اصلاح کرنی پڑتی ہے۔

تاہم وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اے آئی کی اہمیت واقعی غیر معمولی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اے آئی کی اثر پذیری انٹرنیٹ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور اس لیے ان ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت بھی حقیقی ہے۔

اے آئی ڈیٹا سینٹرز ٹیکنالوجی کی دنیا کی نئی ’ریئل اسٹیٹ‘ بن چکے ہیں۔ اگرچہ ان پر آنے والی لاگت، توانائی کے مسائل اور ماحولیاتی خدشات اپنی جگہ موجود ہیں لیکن ان کا وجود اور افادیت حقیقی ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔

تاہم ماہرین متفق ہیں کہ اخراجات کا یہ طوفان ہمیشہ نہیں چلے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ مارکیٹ خود کو متوازن کر لے گی۔

دنیا بھر میں اے اائی  ڈیٹا سینٹرز کی موجودہ صورتحال

دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 11،800 فعال ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں جو مختلف اقسام کی ڈیجیٹل سروسز فراہم کرتے ہیں جیسے کلاؤڈ اسٹوریج، ویب ہوسٹنگ، اور دیگر آئی ٹی خدمات۔ ان میں سے تقریباً 4،000 ڈیٹا سینٹرز ایسے ہیں جو خاص طور پر اے آئی ورک لوڈز کے لیے موزوں یا اے آئی آپٹیمائزڈ ہیں یعنی وہ جدید چِپس، ہارڈویئر اور نیٹ ورکنگ انفراسٹرکچر سے لیس ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت کے بڑے ماڈلز کو تربیت دی جا سکے یا چلایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: بالغ شہریوں کی اکثریت مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ کیوں؟

علاوہ ازیں دنیا بھر میں 1،100 سے زائد ہائپر اسکیل ڈیٹا سینٹرز موجود ہیں۔ یہ وہ بڑی سطح کی سہولیات ہیں جو کئی میگا واٹ سے لے کر گیگا واٹ تک توانائی استعمال کرتی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد اے آئی کے لیے وقف یا مخصوص کی جا رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگلے چند سالوں میں اے آئی کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر مزید ہزاروں ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر متوقع ہے۔ اس پر خاص طور پر امریکا، چین، یورپ، اور برطانیہ جیسے خطوں میں ٹیکنالوجی کمپنیاں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی ڈیٹا سینٹرز اے آئی ڈیٹا سینٹرز کی لاگت مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹرز

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کا مصنوعی ذہانت کو اقوام متحدہ کے ضابطے میں لانے کا مطالبہ،
  • پاکستان کا اقوام متحدہ سے مصنوعی ذہانت کو ضابطہ اخلاق میں لانے کا مطالبہ، فوجی استعمال پر سخت انتباہ
  • مصنوعی ذہانت ترقی پذیر ممالک کے لیے کامیابی کی ضمانت ہے،وزیر مملکت بلال بن ثاقب
  • مصنوعی ذہانت ترقی پذیر ممالک کے لیے کامیابی کی ضمانت بن چکی، بلال بن ثاقب
  • پاکستان کی معاشی ترقی میں بھی کرپٹو کرنسی انقلابی کردار ادا کر رہی ہے، بلال بن ثاقب
  • ’آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی وجہ سے آئندہ جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں: خواجہ آصف 
  • مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، خواجہ آصف
  • پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
  • چین میں انجینئرنگ کا شاہکار‘ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیم تیار
  • مصنوعی ذہانت کے نئے قلعے: ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تیار، لاگت کتنی؟