نوے فیصد سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین کی امریکی غندہ گردی پر تنقید، سی جی ٹی این سروے
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
بیجنگ : چائنا میڈیا گروپ کے تحت سی جی ٹی این کی جانب سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین پر مشتمل ایک تازہ سروے کے مطابق 91.8فیصد افراد نے امریکہ کے ‘فینٹی نیل ٹیکس کو محصولاتی غنڈہ گردی کی ایک قسم قرار دیا ہے، جس کا مقصد انسداد منشیات کے شعبے میں امریکا کی اپنی ناکامی کو چھپانا ہے۔سروے کے مطابق 94.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: منشیات کے
پڑھیں:
ڈیری مصنوعات سے متعلق 5 عام افواہیں اور ماہرین کی حقیقت پسندانہ رائے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں ڈیری مصنوعات کو صدیوں سے غذائی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ دودھ اور اس سے بنی اشیاء کو ہمیشہ صحت بخش سمجھا گیا ہے، تاہم آج بھی ان کے بارے میں کئی افواہیں اور غلط فہمیاں گردش کرتی ہیں، جن کی بنیاد پر لوگ کبھی ضرورت سے زیادہ ان کا استعمال کرتے ہیں تو کبھی بلاوجہ ان سے پرہیز۔ غذائیت کے ماہرین کے مطابق ان میں سے کئی تصورات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
سب سے عام غلط فہمی یہ ہے کہ دودھ ایک لازمی غذا ہے اور مضبوط ہڈیوں کے لیے ناگزیر ہے۔ بلاشبہ ایک کپ کم چکنائی والا دودھ تقریباً 300 ملی گرام کیلشیم فراہم کرتا ہے، جو بالغ افراد کی روزانہ ضرورت کا ایک تہائی ہے، مگر حالیہ تحقیق کچھ اور کہتی ہے۔ 2022 میں 20 مختلف مطالعات کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ زیادہ دودھ پینے اور کم دودھ پینے والوں میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کے امکانات میں کوئی نمایاں فرق نہیں پایا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیلشیم اور پروٹین کی ضرورت صرف دودھ سے پوری نہیں ہوتی، یہ غذائی اجزاء ہڈیوں والی مچھلی، سبز پتوں والی سبزیوں، گوشت اور فورٹیفائیڈ غذاؤں سے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ایک اور بحث دودھ کی چکنائی کے حوالے سے ہے۔ کئی دہائیوں سے ماہرین کم چکنائی والا دودھ تجویز کرتے رہے ہیں تاکہ دل کے امراض اور فالج کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔ لیکن شواہد متضاد ہیں۔ بعض تحقیقات نے کم چکنائی والے دودھ کے فوائد ظاہر کیے جبکہ کچھ مطالعوں میں عام دودھ کو بھی ذیابیطس اور دیگر بیماریوں کے خطرات کم کرنے میں مددگار پایا گیا۔ 2018 کی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ سامنے آیا کہ جن افراد کے خون میں دودھ کی چکنائی زیادہ تھی، ان میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ کم دیکھا گیا۔
ماہرین کے مطابق دودھ کے انتخاب کا انحصار ذاتی صحت اور ذائقے کی ترجیحات پر ہونا چاہیے، کیونکہ پروٹین اور کیلشیم دونوں اقسام میں تقریباً یکساں مقدار میں موجود ہیں، فرق صرف کیلوریز کا ہے۔
اسی طرح یہ تاثر بھی عام ہے کہ پودوں پر مبنی دودھ—جیسے سویا، بادام یا جو کا دودھ—ہمیشہ گائے کے دودھ سے زیادہ غذائیت رکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں بعض اوقات ضروری وٹامنز اور معدنیات شامل نہیں ہوتے، بالخصوص پروٹین، کیلشیم اور وٹامن B12۔ مزید یہ کہ بعض برانڈز میں اضافی شکر اور نمک ملایا جاتا ہے جو زیادہ مقدار میں صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ پروٹین کے معیار کے اعتبار سے بھی گائے کا دودھ اور سویا دودھ مکمل ہیں، جبکہ دیگر پودوں کے دودھ میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔
لیکٹوز انٹولرنس کے بارے میں بھی غلط فہمیاں ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ اس مسئلے میں مبتلا افراد دودھ اور ڈیری مصنوعات بالکل نہیں کھا سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افراد کے جسم میں لیکٹیز انزائم کی کمی ہوتی ہے، جس کے باعث پیٹ میں گیس یا بدہضمی ہو سکتی ہے، لیکن کئی ڈیری مصنوعات مثلاً سخت پنیر، دہی اور مکھن میں لیکٹوز بہت کم ہوتا ہے اور یہ عموماً ہلکی مقدار میں برداشت کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں مارکیٹ میں لیکٹوز فری دودھ اور دیگر مصنوعات بھی دستیاب ہیں جو صحت کے لیے محفوظ متبادل ہیں۔
اسی طرح ایک عام خیال یہ ہے کہ کچا دودھ زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق پیسچورائزیشن سے غذائی اجزاء پر معمولی اثر ضرور پڑتا ہے، تاہم یہ عمل دودھ کو خطرناک بیکٹیریا سے پاک کر دیتا ہے، جو کبھی کبھار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے کچا دودھ پینا کسی طور محفوظ نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دودھ اور ڈیری مصنوعات غذائیت سے بھرپور ہیں لیکن یہ لازمی غذا نہیں۔ صحت مند زندگی کے لیے متوازن غذا اور اعتدال ضروری ہے۔ اگر ڈیری مصنوعات استعمال کرنا ہوں تو پیسچورائزڈ دودھ اور اس کے محفوظ متبادلات بہترین انتخاب ہیں۔