چیف جسٹس سے ترک سفیر کی ملاقات، عدلیہ کے درمیان تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
چیف جسٹس سے ترک سفیر کی ملاقات، عدلیہ کے درمیان تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق WhatsAppFacebookTwitter 0 13 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے ترکیہ کے سفیر عرفان نِذیر اوغلو نے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کی عدلیہ کے درمیان تعلق کو مزید مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق منگل کے روز ترکیے کے سفیر عرفان نذیر اوغلو نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی۔چیف جسٹس نے ترک سفیر کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنے دورہ ترکیہ کے دوران ترک عدلیہ کی جانب سے بے مثال مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا۔
ملاقات کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے درمیان عدالتی تعاون پر گفتگو کی گئی اور عدالتی تعلیم اور استعداد کاری کے شعبوں میں تعاون کی تعریف کی گئی۔چیف جسٹس یحیی آفریدی نے ضلعی عدلیہ کو تعاون میں شامل کرنے پر زور دیا جبکہ دونوں ممالک کی عدلیہ کے درمیان تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمہلک مرض سے نبردآزما ننھے عثمان کی پاک فوج میں ایک دن کا کیپٹن بننے کی خواہش پوری مہلک مرض سے نبردآزما ننھے عثمان کی پاک فوج میں ایک دن کا کیپٹن بننے کی خواہش پوری غیر رجسٹرڈ اور کلون موبائل فونز کے سائبر کرائمز اور مالیاتی فراڈ کے لیے استعمال میں اضافہ نئے مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف کی تیاریاں عمران خان کی پیرول پر رہائی کیلئے درخواست اعتراضات کے ساتھ سماعت کیلئے مقرر لاہور ایئرپورٹ کے قریب سے اڑنے والے سرویلنس ڈرون کو سیکیورٹی اداروں نے تحویل میں لے لیا جنگ کوئی بالی ووڈ کی فلم یا رومانوی تصور نہیں، سابق بھارتی آرمی چیف ملکی میڈیا پر برہمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: عدلیہ کے درمیان چیف جسٹس
پڑھیں:
فیملی ڈائنامکس: جنریشن کے مابین مضبوط پل یا گہری کھائی؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جون 2025ء) جنریشن گیپ ایک عالمی رجحان ہے، جو نوجوان نسل اور قدامت پسند سوچ رکھنے والوں کے درمیان نظریاتی اختلافات سے جنم لیتا ہے۔ مشہور شاعر اور فلسفی خلیل جبران کا یہ قول کہ ’’ہم اپنی اولاد کو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں، لیکن اپنے خیالات نہیں‘‘، پاکستانی معاشرے میں جنریشن گیپ کے مسائل کی گہری سچائی کو اجاگر کرتا ہے۔
پاکستان میں یہ فرق والدین اور بچوں کے درمیان ترجیحات اور طرز زندگی کے تضاد کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو اکثر غلط فہمیوں اور خاندانی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ بعض والدین اپنی اولاد پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں روبوٹ کی طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
مثال کے طور پر نوجوانوں کو جدید رجحانات اپنانے یا سوشل میڈیا استعمال کرنے پر سرزنش کرنا غیر ضروری بحث کو ہوا دیتا ہے، جو رشتوں میں فاصلے بڑھاتا ہے۔
یہ نظریاتی خلیج نہ صرف والدین اور بچوں کے درمیان ہوتی ہے بلکہ جب بات دادا دادی یا نانا نانی تک جاتی ہے، تو یہ فرق اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔ یہ تفاوت سوء تفہیمات کو جنم دیتا ہے، جو خاندانی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے اور بعض اوقات خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہے۔ یہ معاشرتی مسائل کو بھی ہوا دیتا ہے، جن کا اثر پورے سماج پر پڑتا ہے۔
رویوں میں بدلاؤ کی ضرورت، بچوں کو یا والدین کو؟
ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے جنریشن گیپ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ پاکستان میں والدین اور اولاد کے درمیان سب سے نمایاں تنازع سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ہے۔ والدین کو خدشہ ہے کہ نوجوان اپنا قیمتی وقت سوشل میڈیا پر ریلز دیکھنے یا چیٹنگ میں ضائع کر رہے ہیں اور یہ کہ یہ پلیٹ فارمز گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
دوسری جانب نوجوان نسل کے لیے سوشل میڈیا سیکھنے کا ذریعہ، سماجی روابط کا پلیٹ فارم اور ان کی دلچسپیوں کا اہم حصہ بن چکا ہے۔ یہ فکری تفاوت دونوں فریقین کے درمیان غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔
جنریشن گیپ کا عملی مظاہرہ اکثر شادی جیسے اہم فیصلوں کے موقع پربھی ہوتا ہے۔ نوجوان اپنے شریک حیات کے انتخاب میں مکمل خودمختاری کے خواہشمند ہوتے ہیں، جبکہ والدین برسوں سے اپنے ذہن میں بہو یا داماد کے لیے مخصوص معیارات طے کر چکے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر اکثر والدین ایک ایسی بہو کی خواہش رکھتے ہیں، جو گھریلو ذمہ داریاں سنبھالے اور ان کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے، جبکہ بعض اوقات ان کا بیٹا ایسی شریک حیات چاہتا ہے، جو آزاد خیال اور خودمختار ہو۔ یہ متضاد توقعات اکثر رشتوں میں تناؤ اور فاصلے پیدا کرتی ہیں۔
پاک و ہند معاشرے میں ساس اور بہو کے درمیان تنازعات جنریشن گیپ کا ایک اور مظہر ہیں۔
ساس کی جانب سے پابندیاں، جیسے کہ "مناسب لباس پہنو"، "تم اکیلی باہر کیوں گئیں؟" یا "کھانا باہر سے کیوں منگوایا؟" اور بہو کا یہ خیال کہ "میری ساس قدامت پسند اور پرانے خیالات کی ہے"، دونوں کے درمیان فاصلے بڑھاتے ہیں۔ یہ تنازعات اکثر چھوٹی باتوں سے شروع ہو کر بڑے خاندانی جھگڑوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ہر دور کے رواج، ثقافت اور طرز زندگی مختلف ہوتے ہیں، لیکن خاندانی اقدار اور فیملی ڈائنامکس ہر دور میں مستقل رہتے ہیں۔
ان اقدار کو نظر انداز کر کے معاشرتی ترقی ممکن نہیں۔ والدین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دور بدل چکا ہے اور نوجوانوں کو سختی یا زبردستی کے بجائے محبت اور دوستی کے رویے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ اگر والدین اپنی اولاد پر اپنے فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کریں گے، تو اس کے منفی نتائج خاندانی ہم آہنگی پر پڑ سکتے ہیں۔دوسری جانب نوجوانوں کو بھی اپنے بڑوں کی اقدار اور تجربات کا احترام کرنا چاہیے۔
جنریشن گیپ کو پُل بنانے کے لیے باہمی افہام و تفہیم، کھلا مکالمہ اور ایک دوسرے کی حدود کا احترام ضروری ہے۔ والدین اور بچوں دونوں کو ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ خاندانی رشتوں کو مضبوط کیا جا سکے اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جا سکے۔ادارت: امتیاز احمد
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔