ماجرا / محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی شاندار فتح اور بھارت کی شرمناک شکست کے بنیادی دھاگے تاریخ کے گچھوں میں لپٹے ہوئے ہیں، تاریخ کا بنیادی فہم درحقیقت وہ اداراک فراہم کرے گا، جس کے ذریعے ہم بھارت کی” دشمنی” کی گہرائی کو ہی نہیں سمجھ سکیں گے بلکہ اس امر کو بھی جان سکیں گے کہ بھارت کے سامنے کسی لڑائی کو جیت لینے سے وہ ہمارے خلاف برپا بڑی جنگ سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ ذرا ٹہر جائیے!حضرت عیسیٰ سے سات سو سال قبل پیدا ہونے والے چینی ملٹری جنرل سُن تزو کی پچاس صفحات پر مشتمل کتاب ”ڈی آرٹ آف وار” کے ابتدائی اوراق الٹتے ہیں۔ سُن تزو کی پہلی تاکید یہ ہے کہ ہزار جنگوں اور ہزار فتوحات میںاہم بات خود کو اور حریف کو پہچاننا ہے۔ سُن تزو کے اپنے الفاظ ہیں کہ
”Know thy self, know thy enemy.
پاکستان میں حالیہ دنوں کا سب سے بڑا خطرہ ”خود کو پہچاننا ” ہی ہے، مگر اپنے حریف ِ ازلی بھارت کو پہچانے بغیر اصل لڑائی تو کیا وہ حالیہ لڑائی بھی سمجھ میں نہ آئے گی جس میں ہم ایک سرشار کر دینے والی فتح سے ہمکنار ہوئے۔ جذباتی جتھوں اور سیاسی تعصبات میں بٹے کج فہم ٹولوں کو نظرانداز کیجیے! مودی کا خطاب اُتنا ہی خطرناک تھا جتنے پہلگام واقعے کے بعد رونما ہونے والے بالترتیب واقعات۔مودی کے یہ الفاظ سادہ تشریح میں قوم کو تسلی دینے والے نہیں تھے۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی قوم کے سامنے شکست تو تسلیم کرنے سے رہا۔ یہ دشمن کو نہ سمجھنا ہے جو دنیا کے تسلیم شدہ ملٹری جنرل سُن تزو کی تاکید کے برخلاف ہے۔ پاکستان نے جب آپریشن بنیان مرصوص کے مکمل ہونے کا اعلان کیا تو اگلے چند ثانیوں کے بعد مودی اپنی قوم کے سامنے بیٹھا آپریشن سندور کے جاری رہنے کی جُگالی کر رہا تھا۔ دیکھیے مرحوم اقبال عظیم کب یاد آئے:
دشمن بڑھائے ہاتھ تو تم بھی بڑھاؤ ہاتھ
ہاں!یہ نہ ہو کہ ہاتھ سے تلوار گر پڑے
مودی کا خطاب پاکستان کے لیے ایک ”نیو نارمل” کے خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔ اُس نے کہا کہ نیو نارمل وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے اُس نے معاملہ ختم کیا۔ مودی نے براہ راست پاکستانی فوج کو دہشت گردی کے لیے کھاد پانی دینے کی ذمہ دار قرار دیا۔ مودی کی تقریر میں نیو نارمل کے تین نکات یہ ہیں کہ
1۔ دہشت گردی ہو گی تو کارروائی کریں گے۔
2۔ نیوکلیئر بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔
3۔ آتنک کی سرپرست سرکار اور آتنک کے واقعات الگ الگ نہیں دیکھیں جائیں گے۔
ان نکات پر غور کرلیں، اس کا مطلب کیا ہے، کوئی پہلگام واقعہ ہوا تو کارروائی کریں گے۔ پاکستان کی طرف سے توازن قوت کے غیر رسمی اظہاریے یعنی ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے اشارے درخور اعتناء نہیں ہونگے۔ بھارت میں ہونے والے واقعات کا مقامی تناظر نہیں بنائیں گے اس کی ذمہ داری پاکستان پر لادیں گے اور کارروائی کریں گے۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب میں اپنا من پسند پُرانا حربہ اور من پسند پرانا فقرہ دونوں ظاہر کیے۔ مودی نے ایک حکمت عملی کے تحت تجارت اور دہشت گردی کو ایک دوسرے سے منسلک کرکے یہ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تجارت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چلے گی۔ یوں پاکستان کی طرف سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی پرانی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں ۔ اب بھی وہ وہیں کھڑا ہے۔ مودی نے ماضی میںیہ فقرہ کہا تھا کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نے قوم سے اپنے خطاب میںدوبارہ یہی فقرہ دُہرایا۔ یہاں یہ دُہرانے کی ضرورت نہیںکہ پاکستان نے جنگ بندی کے بعد تاحال بھارت سے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ ڈی جی ایم او کی سطح پر ایک رابطے کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت کچھ بھی نہیں۔ جبکہ بھارت کو پاکستان کے غیر متوقع جواب کے باعث فوری جنگ بندی چاہئے تھی، یہ وہ حاصل کر چکا۔ جنگ بندی سے پہلے ہماری بند مٹھی اور کامیابی دونوں ہی بہت سی پیشگی ضمانتوں کو یقینی بنا سکتی تھیں، ہم یہ موقع ضائع کر چکے ہیں۔ پاکستان کے پاس اس وقت مواقع کی ایک ہموار زمین موجود ہے ، جس کا ادراک نہیں کیا جا رہا ، مودی کے لیے اب مسائل کی ایک دُنیا ہے، مگر مودی کے مسائل ہمیں بھارت کے مستقل مسئلے سے نجات نہیں دلا سکیں گے۔ یہاں تک کہ مودی حکومت بھی کھودے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آرایس ایس پھر بھی موجود رہے گی۔ اور آر ایس ایس کیسے بروئے کار آتی ہے اس کے لیے مودی کی ہی مثال لے لیجیے۔
نریندری مودی کا سیاسی سفر چونتیس سال کی عمر میں 1984ء کو شروع ہوا تھا جب آر ایس ایس نے اپنے چند اہم ارکان کو بی جے پی میں شامل کرایا، اُن میں مودی بھی شامل تھا۔ مودی نے اُن چند ارکان کے ساتھ بی جے پی کے اندر اہم ترین عہدے حاصل کیے۔ اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس کے سیاسی بازو جن سنگھ کی ہی موجودہ شکل ہے ۔اور 1980ء میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی اور بھیرون سنگھ شیخاوت نے اس جماعت کوتشکیل دیا تھا۔ جس کے پہلے صدراٹل بہاری واجپائی رہے ۔ مگر اس کے باوجود اس جماعت میں ابتدائی لوگوں کو جو آر ایس ایس کے اندر متحرک نہ رہے تھے، یا خود بی جے پی کے علاوہ کوئی واضح شناخت نہ رکھتے تھے، اُنہیںنریندر مودی نے آر ایس ایس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ مل کر بتدریج غیر متعلق بنا کر اکھاڑ پھینکا۔ خود نریندر مودی ایل کے ایڈوانی کو پھلانگ کر آگے بڑھے۔ جبکہ نریندر مودی کے اُبھرنے سے پہلے ایل کے ایڈوانی کا چہرہ بھی مودی سے مختلف نہ تھا۔ یہ ایل کے ایڈوانی ہی تھا جس نے بابری مسجد کو نشانے پر لیااور سومناتھ ،ایودھیا یاترا کا ڈول ڈالا۔ مودی نے اس میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ مرلی منوہر جوشی کی کنیا کماری ، کشمیر یاترا میں بھی حصہ لیا۔نفرت کا یہ سارا کاروبار بی جے پی، آرایس ایس اور خود نریندر مودی کے لیے بہت منافع بخش ثابت ہوا۔
نریندر مودی کو بتدریج بھارت کے اندر قوت کے مرکزی دھاروں میں شرکت کا موقع تب مل جب وہ گجرات کی سیاست کا اہم حصہ بن گئے۔ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کا حصہ تھا۔ مودی نے1995ء میں گجرات کے انتخابات کی مہم سنبھالی۔2001ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کے استعفیٰ کے بعد مودی خود وزیر اعلیٰ بنادیے گئے۔ نریندر مودی یہ سارے مرحلے درپردہ آر ایس ایس کی حمایت سے عبور کرتے رہے۔ یہاں تک کہ گجرات فسادات میں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے وہ 26 مئی 2014ء کو بھارت کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ اس دوران بھارت کے اندر اقلیتوں کے خلاف ہر قسم کے مظالم ہوتے رہے۔ آر ایس ایس مختلف تحریکوں سے مختلف اہداف حاصل کر تی رہی۔ مرکزی حکومت کی کھلی حمایت سے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے۔ یہاں تک مسلم مزاروں ، جائیدادوں اور پوری کی پوری آبادیوں پر قبضے کرنے کی مہمات تیز ہوئیں۔ یہ سارا کھیل نریندر مودی اور آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی ملی بھگت کا نتیجہ رہا۔ مودی کے آر ایس ایس نظریات اس قدر مستحکم ہیںکہ اُس نے 2008ء میں اپنی واحد
کتاب گجراتی زبان میں لکھی ۔ ‘جیوتی پونج ‘ نامی اس کتاب میںمودی نے ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے گمنام رہنے والے کے کارکنان کی زندگیوں کو موضوع بنایا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجیے کہ مودی کے نظریات کتنے مستحکم اور خوف ناک اہداف رکھتے ہیں۔ مودی کی راہ میں حالیہ کچھ برسوں میں رکاوٹیں بھی پیدا ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود وہ ایک دفعہ بھی اپنی راہ سے نہیں ہٹا۔ اس حوالے سے مودی کی حالیہ سیاست کا ایک جائزہ مفید رہے گا۔ جس سے اندازہ ہو سکے گا کہ پاکستان سے شرمناک شکست کے بعد مودی کے خطاب کے الفاظ صرف اپنی شکستہ قوم کی دلجوئی کے لیے نہیں ہیں۔ یہ جائزہ آئندہ پر اُٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: آر ایس ایس کے پاکستان کے بھارت کے بی جے پی مودی کے مودی کی کے اندر کے لیے کے بعد
پڑھیں:
’مودی ایک شکست خوردہ انسان نظر آئے‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے عوامی نشریاتی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'مودی ایک ہارے ہوئے انسان نظر آئے‘۔
مقامی نیوز چینل جیو سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے پیر کے دن مودی کا عوامی خطاب 'انتہائی غور‘ سے دیکھا اور ان کا خیال ہے کہ نہ صرف الفاظ بلکہ باڈی لینگوئج میں بھی وہ 'شکست خوردہ‘ دکھائی دیے۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارتی وزیر اعظم مودی پہلی مرتبہ عوامی منظر نامے پر آئے اور انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں مودی نے کہا کہ انہیں جوہری ہتھیاروں سے بلیک میل نہیں کیا جا سکتا اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مبینہ انفراسٹرکچرز ختم ہو جانا چاہییں۔
(جاری ہے)
امریکہ کی مداخلت پر بھارت میں غصہ کیوں؟وزیر اعظم مودی کے اس خطاب سے قبل ملکی اپوزیشن پارٹیاں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔
مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سربراہ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پر کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واضح ہو کہ امریکہ نے جنگ بندی کیسے کروا دی؟ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے متنازعہ خطے پر کسی غیرجانبدار مقام پر مذاکرات کیونکر ہو سکتے ہیں؟واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر انہوں نے کروایا۔
ٹرمپ کے بقول انہوں نے دونوں ممالک سے کہا تھا کہ اگر فوری جنگ بندی نہیں کی جائے گی تو واشنگٹن پاکستان اور بھارت سے تجارت ترک کر دیں گے۔بھارت کشمیر کو ایک داخلی معاملہ قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر عالمی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتی ہیں۔ اس لیے بھارت میں امریکی صدر کے بیان پر بالخصوص اپوزیشن جماعتیں کافی برہم نظر آ رہی ہیں۔
پاکستانی معیشت پر اثر نہیں پڑا، وزیر خزانہپاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی کا پاکستان کی معیشت پر بڑا اثر نہیں پڑے گا اور اسے موجودہ مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے سنبھالا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی نئی اقتصادی جائزہ رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات پر جلد پیش رفت متوقع ہے، جس کے تحت پاکستان اعلیٰ معیار کی کپاس اور سویا بین کے علاوہ دیگر مصنوعات امریکہ درآمد کر سکے گا، جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی گی۔
پاکستانی وزیر خزانہ کے بقول اسلام آباد حکومت امریکہ کے ساتھ ممکنہ تجارتی ڈیل کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول وہ پاکستان کے ساتھ کسی تجارتی ڈیل کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد ہی ایک پراسس شروع کریں گے۔
ادارت: افسر اعوان