دنیا کے غریب ترین صدر خوسے موہیکا کی جدوجہد بھری زندگی کا اختتام
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
مونٹی ویڈیو:
یوروگوئے کے سابق صدر اور عالمی سطح پر دنیا کے غریب ترین صدر کے طور پر معروف خوسے پے پے موہیکا 89 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔
ان کے انتقال کی اطلاع موجودہ صدر یاماندو اورسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر دی، جہاں انہوں نے لکھا کہ آپ نے جو کچھ ہمیں دیا، اور اپنے عوام سے جو گہری محبت کی، اس کے لیے شکر گزار ہیں۔
خوسے موہیکا گزشتہ کچھ عرصے سے غذائی نالی (oesophagus) کے کینسر میں مبتلا تھے، تاہم ان کی موت کی فوری وجہ ظاہر نہیں کی گئی۔
موہیکا 2010 سے 2015 تک اوروگوئے کے صدر رہے اور اپنی سادہ زندگی، صارفیت (consumerism) پر تنقید اور سماجی اصلاحات کی بنا پر عالمی سطح پر شہرت حاصل کی۔
وہ تنخواہ کا بیشتر حصہ خیرات کر دیتے اور ایک معمولی فارم ہاؤس میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں ہوروگوئے دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے تفریحی مقاصد کے لیے بھنگ (marijuana) کے استعمال کو قانونی حیثیت دی۔
اگرچہ یوروگوئے ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی محض 34 لاکھ ہے، موہیکا کی عالمی شہرت غیرمعمولی تھی۔ ان کی شخصیت اور طرزِ سیاست نے جہاں بے شمار لوگوں کو متاثر کیا، وہیں ان کے بعض اقدامات پر مقامی سطح پر تنقید بھی کی گئی۔
خوسے موہیکا کا تعلق مونٹی ویڈیو کے ایک متوسط طبقے کے گھرانے سے تھا اور ان کا کہنا تھا کہ سیاست، کتابوں سے محبت اور زمین سے جڑے رہنے کا جذبہ انہیں اپنی والدہ سے ورثے میں ملا۔
انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز روایتی نیشنل پارٹی سے کیا، جو بعد ازاں ان کی حکومت کی مرکزِ راست (centre-right) اپوزیشن بنی۔
1960 کی دہائی میں انہوں نے تُوپاماروس نیشنل لبریشن موومنٹ (MLN-T) کی بنیاد رکھی، جو ایک بائیں بازو کی شہری گوریلا تنظیم تھی، اس گروپ نے حکومت کے خلاف اغواء، حملے اور دیگر مسلح کارروائیاں کیں۔
اپنی جدوجہد کے دوران موہیکا چار مرتبہ گرفتار ہوئے۔ ایک موقع پر، 1970 میں، انہیں چھ گولیاں لگیں اور وہ موت کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
گولڈ بلین کیا ہے اور اسکی حکمرانی کو کیا خطرہ درپیش ہے؟
دنیا میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ کبھی جسے ’گولڈ بلین‘(Golden Billion) کہا جاتا تھا، وہ اپنا تاج کھو رہا ہے، جبکہ ’عالمی اکثریت‘(Global Majority) نئے اصولوں کے ساتھ سفارت کاری کی بازی پلٹ رہی ہے۔
پیریٹو اصول سے عالمی سیاست تکمعاشیات اور سماجیات میں پیریٹو اصول (Pareto Principle) مشہور ہے جسے عام طور پر 80/20 اصول کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق 20 فیصد کوششیں 80 فیصد نتائج دیتی ہیں، جبکہ باقی 80 فیصد کوششیں صرف 20 فیصد نتیجہ دیتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:روس-چین قربتیں، کیا دنیا، مغرب کے بغیر آگے بڑھنے کو تیار ہے؟
وقت کے ساتھ یہ اصول مغرب کی اشرافیہ تھیوری’ (Elite Theory)کے جواز کے طور پر استعمال ہوا – یعنی 20 فیصد لوگ 80 فیصد وسائل پر قابض ہیں۔
لیکن اب یہ اصول قومی سطح سے نکل کر عالمی سیاست میں داخل ہو چکا ہے، جہاں ’عالمی اقلیت‘ اور ’عالمی اکثریت‘ آمنے سامنے ہیں۔
گولڈ بلین: اجارہ داری کا دور’گولڈ بلین‘ کی اصطلاح اس گروہ کے لیے استعمال ہوئی جو سرد جنگ کے بعد امریکا، جی-7 اور نیٹو کے ذریعے عالمی سیاست میں حاوی ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:بیجنگ میں نیا عالمی نظام؟ پیوٹن اور شی کا مشترکہ وژن
انہوں نے گلوبلائزیشن کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور دنیا پر ایک قطبی نظام (Unipolar World) مسلط کرنے کی کوشش کی۔
عالمی اکثریت کا عروجاس کے برعکس ’عالمی اکثریت‘ نے مساوی اور کثیر قطبی نظام کا مطالبہ کیا۔
روس، چین اور بھارت جیسے ممالک نے اپنی مزاحمتی قوت کے ساتھ نئی تنظیمیں قائم کیں، جیسے BRICS اور SCO جنہوں نے طاقت کے توازن کو بدلنا شروع کیا۔
تیانجن میں SCO پلس کا حالیہ اجلاس (اگست 2025) تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
اسی طرح برازیل کی صدارت میں BRICS کی دوسری سمٹ نے واضح کر دیا کہ دنیا کی زیادہ تر زمین، آبادی اور اب عالمی معیشت کا بڑا حصہ ’عالمی اکثریت‘ کے پاس ہے۔
مغرب کی گرتی ساکھاس کے برعکس ’عالمی اقلیت‘ یعنی مغربی ممالک معاشی زوال، وسائل کی کمی اور سیاسی انتشار کا شکار ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور اسرائیل جیسے ممالک اندرونی خلفشار اور قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اور ایک ری پبلکن رہنما کا قتل سیاسی تقسیم کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔
برطانیہ میں مظاہرے، لیبر پارٹی اور کنزرویٹو دونوں پر عوامی عدم اعتماد اور فرانس میں وزیرِ اعظم کے بار بار استعفے مغرب کی کمزور حکمرانی کو بے نقاب کرتے ہیں۔
عسکریت اور خارجہ پالیسی پر انحصارمغربی رہنماؤں کے پاس داخلی بحران دبانے کے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے: عسکریت پسندی اور جارحانہ خارجہ پالیسی۔ فرانس یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹیوں میں سرگرم ہے۔ برطانیہ نے یوکرین کے لیے ’خصوصی مشن‘ بھیجا۔
قطر کو مذاکراتی مرکز بنانے کی امریکی کوششیں جاری ہیں، لیکن نیپال میں کٹھمنڈو کے سنگھا دربار کی تباہی اس بات کی علامت ہے کہ ’اقلیت‘ اور ’اکثریت‘ کی کشمکش دور رس نتائج دے رہی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ یہ بحران چین اور بھارت کے بیچ پیدا ہوا۔
ایشیائی قیادت کا کردارچین کے صدر شی جن پنگ نے دکھایا ہے کہ اختلافات کا حل عسکری ٹکراؤ نہیں بلکہ سفارت کاری ہے۔ یہی وہ امید ہے جو اس سخت اور غیر متوازن دنیا میں امن قائم رکھنے کا آخری سہارا ہے۔
بشکریہ: رشیا ٹو ڈےآپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایشیا برکس بھارت چین روس گولڈن بلین مغرب نیپال یوکرین