مصباح کی ایک مرتبہ پھر کوچنگ رول میں واپسی کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
قومی ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کو ایک مرتبہ پھر پاکستانی ٹیم میں اہم عہدہ ملنے کا امکان ہے۔
گزشتہ روز پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے پاکستانی وائٹ بال ٹیم کیلئے مائیک ہیسن کو ہیڈکوچ بنانے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں خبریں سامنے آئیں تھی کہ 50، 50 لاکھ تنخواہ وصول کرنیوالے مینٹورز کو عہدے سے فارغ کردیا گیا ہے۔
اِن مینٹورز میں مصباح الحق کے علاوہ سابق کپتان سرفراز احمد سمیت شعیب ملک، وقار یونس اور ثقلین مشتاق شامل تھے۔
مزید پڑھیں: قومی ٹیم کے نئے ہیڈکوچ کا اعلان ہوگیا
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مصباح الحق اور سابق کپتان سرفراز احمد کو پی سی بی میں اہم عہدے سے نوازا جائے گا۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سابق کپتان مصباح الحق کو قومی ٹیسٹ ٹیم کاہیڈکوچ بنایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: 50، 50 لاکھ تنخواہ وصول کرنیوالے مینٹورز فارغ
سابق کرکٹر باسط علی نے پاکستان ٹیسٹ ٹیم کیلئے مصباح الحق کے ہیڈکوچ ہونے سے متعلق ٹوئٹ بھی کی اور انہیں مبارکباد پیش کی۔
اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے باضابطہ طور پر مصباح الحق کو ہیڈکوچ بنانے سے متعلق کوئی تصدیق نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: ناقص پرفارمنس کے باوجود عاقب جاوید کو "نیا عہدہ" مل گیا
واضح رہے کہ مصباح الحق کا شمار پاکستان کے کامیاب ترین ٹیسٹ کپتانوں میں ہوتا ہے، وہ 2019 سے 2021 قومی ٹیم کے بطور ہیڈکوچ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سابق کپتان مصباح الحق
پڑھیں:
دیر سے سکول آنے پر 100 مرتبہ اٹھک بیٹھک کی سزا اور 13 سالہ بچی کی موت: آخر معاملہ کیا ہے؟
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک)میں ایک 13 سالہ لڑکی کی موت نے تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ لڑکی کے اہلخانہ نے الزام لگایا ہے کہ سکول میں 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا کے بعد اس کی صحت بگڑ گئی۔
ٹیچر نے سکول دیر سے آنے والے طلبا کو مبینہ طور پر 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا دی تھی اور یہ سزا پانے والے طالب علموں میں سے ایک 13 سالہ لڑکی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔
لڑکی کی موت سنیچر کی رات (15 نومبر) کو ممبئی کے جے جے ہسپتال میں دورانِ علاج ہوئی۔
ہلاک ہونے والی طالبہ کی شناخت کاجل (انشیکا) گاؤڈ کے نام سے ہوئی جو وسائی کے ایک سکول میں چھٹی کلاس میں پڑھتی تھیں۔ 8 نومبر کی صبح کچھ طالب علم دیر سے سکول آئے تو ان میں مبینہ طور پر کاجل نامی طالبہ بھی شامل تھیں۔
ٹیچر نے دیر سے آنے والوں طلبا کو 100 مرتبہ اٹھنے بیٹھنے کی سزا دی اور کچھ طلبا نے اپنے بیگ کندھوں پر اٹھاتے ہوئے ایسا کیا۔
سکول سے گھر واپس آنے کے بعد کاجل کی طبیعت بگڑ گئی۔ کاجل کو پہلے علاج کے لیے فوری طور پر وسائی کے آستھا ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ اس کے بعد انھیں ایک دوسرے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تاہم حالت مزید بگڑنے پر انھیں ممبئی کے جے جے ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کی موت ہو گئی۔
وسائی پولیس کے سینیئر انسپیکٹر دلیپ گھُگے نےبرطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’8 نومبر کو اس سکول کے کچھ طالبعلم تاخیر سے سکول پہنچے۔ کل 50 کے قریب طالبات تھیں۔ کاجل کے والدین نے شکایت کی ہے کہ اساتذہ نے تاخیر سے آنے والی طالبات کو 100 بار اٹھنے بیٹھنے پر مجبور کیا۔‘
’جب یہ بچی گھر گئی تو اس کی ٹانگوں میں درد ہو رہا تھا۔ اسے وہاں کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس کے بعد اسے 10 تاریخ کو جے جے ہسپتال میں داخل کرایا گیا اور دوران علاج اس کی موت ہو گئی۔‘
پولیس کے مطابق ’والدین نے شکایت کی ہے کہ ان کی بیٹی کی موت اس وجہ سے ہوئی۔ ہم اس سلسلے میں سکول سے تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
فی الحال پولیس نے اس معاملے میں اے ڈی آر (حادثاتی موت کی رپورٹ) درج کی ہے تاہم یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔
پولیس نے یہ بھی بتایا کہ میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ بچی کا ہیموگلوبین چار تھا جو انتہائی کم ہے۔
پالگھر کے ایجوکیشن آفیسر (پرائمری) سونالی ماٹیکر نےبرطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’طلبہ کو اس طرح سزا دینا غلط ہے۔ یہ حق تعلیم کے قانون کی خلاف ورزی ہے۔ بچوں کو اس طرح کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ میں موت کی وجہ تو نہیں بتا سکتا لیکن ہم نے سکول کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔‘
محکمہ تعلیم کے حکام نے کہا ہے کہ حق تعلیم ایکٹ کی خلاف ورزی پر سکول کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور سزا دینے والے استاد کے خلاف بھی فوری کارروائی کی جائے گی۔
محکمہ تعلیم کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 8 نومبر کو اس سکول کے ایک ٹیچر نے کچھ طلبہ کو تاخیر سے آنے پر سزا دی تھی۔
ان میں سے ایک لڑکی کو اس کے والدین نے ہسپتال میں داخل کرایا تھا اور بعد میں 15 نومبر کو اس کی موت ہو گئی تاہم محکمہ تعلیم کا کہنا ہے کہ موت کی وجہ تاحال واضح نہیں۔
برطانوی خبررساں ادارے نے سکول سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا