سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس ترمیمی ایکٹ بحال
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ٹیکس ترمیمی ایکٹ بحال کر دیا۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے گھی اور اسٹیل ملز ایسوسی ایشن کی اپیلوں پر حکم امتناع جاری کر دیا۔
دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے گھی اور اسٹیل ملز ایسوسی ایشن کے وکیل حافظ احسان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ پارلیمان کے متبادل قانون سازی نہیں کر سکتی، ہائی کورٹ درخواست میں کی گئی استدعا سے بڑھ کر ریلیف نہیں دے سکتی۔
یہ بھی پڑھیے ’فاٹا پاٹا کو ٹیکس رعایت کا غلط استعمال ہو رہا ہے‘ وزیرِ اعظم کو خط سابق فاٹا اور پاٹا سے ٹیکس استثنا کی حامل مصنوعات پر پاکستان میں 16 فیصد سیلز ٹیکس لگے گا فاٹا اور پاٹا کا سیلز اور انکم ٹیکس استثنیٰ بحالوکیل حافظ احسان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، اربوں روپے ٹیکس کا معاملہ ہے، فاٹا اور پاٹا کےلیے کسٹم کلیئرنس کرواتے وقت آرڈر دینا ہوتا تھا، عدالت نے قانون سے ہٹ کر چیک دینے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔
سپریم کورٹ نے اپیلوں پر مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے سابقہ فاٹا اور پاٹا میں سیلز ترمیمی ایکٹ کالعدم قرار دیا تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پشاور ہائی کورٹ
پڑھیں:
قومی اسمبلی فنانس بل منظوری: سیلز ٹیکس فراڈ، کاربن لیوی، ارکان کی تنخواہیں اور بجٹ کے بڑے فیصلے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:قومی اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے دوران وفاقی حکومت نے مالی سال 2025-26 کے فنانس بل کی شق وار منظوری کروائی، جس میں متعدد اہم ترامیم اور اقدامات کی توثیق کی گئی، جب کہ اپوزیشن کی جانب سے دی جانے والی بیشتر تجاویز کو واضح اکثریت سے مسترد کر دیا گیا۔
اسمبلی اجلاس کی صدارت اسپیکر سردار ایاز صادق نے کی، جس میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل کی منظوری کے لیے تحاریک پیش کیں۔ اسمبلی نے حکومتی تحاریک کو بھاری اکثریت سے منظور کرتے ہوئے قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اپوزیشن کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ بل پر عوامی مشاورت ہونی چاہیے اور اسے مؤخر کیا جائے، تاہم ان تجاویز کو بھی مسترد کر دیا گیا۔
اراکین اسمبلی عالیہ کامران اور مبین عارف نے مؤقف اختیار کیا کہ بجٹ براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے اس کی تشکیل میں عوامی رائے شامل کی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اصل اسٹیک ہولڈر عوام ہیں اور ان کے بغیر کوئی مالی قانون موزوں نہیں ہو سکتا۔ مگر ایوان نے ان کی ترامیم کو رد کر دیا، جس کے بعد بل کی شق وار منظوری کا عمل جاری رہا۔
فنانس بل 2025-26 میں سب سے نمایاں ترمیم پیٹرولیم مصنوعات پر 2 روپے 50 پیسے فی لیٹر کے حساب سے کاربن لیوی کا نفاذ ہے۔ اس اقدام کا مقصد ماحولیات کی بہتری کے لیے فنڈ جمع کرنا بتایا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین اسے مہنگائی میں اضافے کا ایک اور ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔
دوسری اہم شق سیلز ٹیکس فراڈ سے متعلق ہے، جس میں فراڈ کی مختلف اقسام کی وضاحت کرتے ہوئے سخت قانونی اقدامات شامل کیے گئے ہیں۔
بل کے مطابق کسی بھی ایسی کمپنی یا فرد کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی جو ٹیکس انوائس کے بغیر مال کی ترسیل کرے، یا فرضی معلومات کی بنیاد پر ریفنڈ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اس طرح کی خلاف ورزیوں پر نہ صرف گرفتاری بلکہ 24 گھنٹے میں مجسٹریٹ کے سامنے پیشی لازم قرار دی گئی ہے۔
اگر فراڈ کی رقم 5 کروڑ روپے سے زائد ہو تو گرفتاری کے لیے ایف بی آر کے ممبر آپریشنز اور ممبر لیگل پر مشتمل کمیٹی کی اجازت درکار ہوگی۔
فنانس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ملزم انکوائری میں تعاون کرے تو اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا، مگر اگر وہ شواہد ضائع کرنے یا فرار ہونے کی کوشش کرے تو فوری گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ ان ترامیم کا مقصد ٹیکس چوری کو روکنا اور مالیاتی شفافیت کو فروغ دینا بتایا گیا ہے۔
ایوان میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بھی ایک ترمیمی تجویز پیش کی گئی، جس کے تحت اب ان کی مالی مراعات کا تعین قومی اسمبلی کی ہاؤس کمیٹی کرے گی، نہ کہ سیکرٹریٹ۔ اس کے علاوہ وزرا اور وزرائے مملکت کی تنخواہیں اراکین پارلیمنٹ کے برابر کرنے کی منظوری بھی دی گئی۔
مزید برآں، کسٹمز ایکٹ 1969 میں ترمیم کے ذریعے پاکستان کے اندر اور بیرون ملک اسمگلنگ پر قابو پانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس مقصد کے لیے کارگو ٹریکنگ سسٹم اور ای-بلٹی سسٹم متعارف کرانے کی منظوری دی گئی، جو مال بردار گاڑیوں کی نقل و حرکت اور تجارتی دستاویزات کی الیکٹرانک نگرانی یقینی بنائے گا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل وفاقی کابینہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں فنانس بل 2025-26 کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اسے قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا۔ حکومتی دعوے کے مطابق یہ بجٹ معاشی استحکام اور ریونیو میں اضافے کے لیے ناگزیر ہے، مگر اپوزیشن اور تجزیہ کاروں کی جانب سے اسے عوامی مشکلات میں اضافے کا باعث قرار دیا جا رہا ہے۔