سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اسپیکر کے ریفرنس کے بغیر کسی ممبر کو نااہل نہیں کیا جاسکتا، پشاور ہائی کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, August 2025 GMT
پشاور:
ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت الیکشن کمیشن کو اسپیکر ریفرنس کے بغیر کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی۔
پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر الیکشن کمیشن کو طلب کرتے ہوئے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈرز کی تقرری سے روکنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ قومی اسمبلی میں نئے اپوزیشن لیڈر کی تقرری آئندہ سماعت تک نہ کی جائے، وکیل کے مطابق درخواست گزار اے ٹی سی نے 31 جولائی کو سزا سنائی، الیکشن کمیشن نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے 5 اگست کو درخواست گزار کو نااہل قرار دیا، 7 اگست کو درخواست گزار کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن کیا گیا، درخواست گزار نے سپریم کورٹ ( محمد اظہر صدیقی بنام فیڈریشن) کیس کا حوالہ دیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کو اسپیکر ریفرنس کے بغیر کسی ممبر کو نااہل کرنے کا اختیار نہیں۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح کی، درخواست گزار کے مطابق 5 اگست فیصلے کے بعد 7 اگست کو اسپیکر قومی اسمبلی نے درخواست گزار کو ڈی نوٹیفائی کیا اور اپوزیشن کی سیٹ کو خالی قرار دے دیا، درخواست گزار کے مطابق اپوزیشن میں سب سے بڑی تعداد میں ممبران ان کی ہے، درخواست گزار کو اعتراض ہے کہ فریقین کسی دوسری پارٹی کو سہولت فراہم کرکے اپوزیشن لیڈر کی تقرری کریں گے، ضروری سوال یہ ہے کہ درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کی جانب سے بغیر اسپیکر کے ریفرنس کے نااہل کیا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ فریقین کو 20 اگست کو پیشی کے لیے نوٹس جاری کیا جاتا ہے، فریقین 7 اگست تک نوٹی فکیشن پر مزید کارروائی نہ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: درخواست گزار کو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ ریفرنس کے کو نااہل کے مطابق فیصلے کے اگست کو
پڑھیں:
اعلیٰ عدلیہ کا جج اپنے ہی جج کے خلاف رٹ یا توہینِ عدالت کارروائی نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کے خلاف نہ تو رٹ جاری کر سکتا ہے اور نہ ہی توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتا ہے۔ یہ اصول آئین اور عدالتی نظائر کے مطابق طے شدہ ہے۔
نذر عباس توہین عدالت کیس میں سابق ڈپٹی رجسٹرار کی انٹراکورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے جو 11 صفحات پر مشتمل ہے اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحریر کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کے خلاف توہینِ عدالت کارروائی ممکن ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے وفاقی کابینہ کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس کردیا
عدالت نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججز کو انتظامی امور میں استثنیٰ حاصل ہے اور انہیں اندرونی و بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق ’یہ بات طے ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے دوسرے جج کے سامنے جوابدہ نہیں۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ محمد اکرام چوہدری کیس کے نظیر فیصلے کے مطابق ججز کے خلاف کارروائی ممکن نہیں، اور آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کی کارروائی ہوئی تو بابر اعوان، فیصل چوہدری کیخلاف ہو گی: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے، اس لیے ججز کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں آزاد اور غیر جانبدار رہنے کے لیے مکمل تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر اور آئینی بنچ کمیٹی کے ارکان کو توہینِ عدالت کا نوٹس برقرار نہیں رہ سکتا۔
یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بینچ نے عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کارروائی شروع کی تھی، جس کے خلاف سابق ڈپٹی رجسٹرار نے انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی۔ اس اپیل پر 6 رکنی بینچ نے توہینِ عدالت کارروائی ختم کر دی تھی، اور اب تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
توہین عدالت جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ محمد اکرام چوہدری کیس نذر عباس توہین عدالت کیس