Jasarat News:
2025-11-12@00:40:46 GMT

توہین مذہب کے ملزم کا15روز میں ٹرائل مکمل کرنے کاحکم

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-08-17
اسلام آباد(صباح نیوز)عدالت عظمیٰ نے توہین مذہب کے گرفتارملزم کا15روز میں ٹرائل مکمل کرنے کاحکم دے دیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم ٹرائل کورٹ کوآخری موقع دے دیتے ہیں 15روز میں ٹرائل مکمل کرے۔ٹرائل کورٹ ٹرائل جاری رکھے اور 15روز میں کیس کافیصلہ کرے جبکہ شاہد وحیدنے ریمارکس دیئے ہیں کہ آخری مرتبہ ہم نے ہدایت دی تھی کہ ٹرائل ختم کریں، کیوں ٹرائل ختم نہیں کررہے، کیا ہمارا حکم ٹرائل کورٹ کوملاہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں جسٹس شاہد وحید اور جسٹس صلاح الدین پہنور پر مشتمل 3رکنی بینچ نے توہین مذہب اورپیکا کے تحت درج کیس میں گرفتارملزم شیراز احمد کی جانب سے بریت کیلیے دائر درخواست پرسماعت کی۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ  کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) ستائیسویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ دیا ہے جس میں فوری اقدام کا مطالبہ کیا گیا کہ جب تک چھبیسویں آئینی ترمیم پر سوالات ہیں نئی آئینی ترمیم مناسب نہیں۔ بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی۔ آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو لکھا کہ آپ اس ادارے کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ گارڈین بھی ہیں، اور یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل کے طور پر زیر التوا مقدمات کا جواز دیا جا رہا ہے، حالانکہ اسی فیصد زیر التوا مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ کی سطح پر نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں بھی ایک ہی سپریم کورٹ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا ذکر محدود مدت، صرف چھ سال کے لیے کیا گیا تھا اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر کے تحت ذکر تھا۔ اس وقت پرویز مشرف کا آمرانہ دور ختم ہوا تھا۔ اس وقت ملک میں کون سا آئینی خلا ہے، اس وقت آئینی عدالت کے قیام کی کیا ضرورت ہے۔ سینئر وکلا اور ریٹائرڈ ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر ستائیسویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ متن میں کہا گیا ہے کہ  ہم غیر معمولی حالات میں یہ خط لکھ رہے ہیں، کیونکہ سپریم کورٹ اپنے قیام کے بعد آج سب سے بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ ماضی میں کوئی سول یا فوجی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا ماتحت ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی، اور اگر چیف جسٹس متفق ہیں تو ردعمل دینا سپریم کورٹ کا حق ہے۔ یہ خط سینئر وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے تحریر کیا گیا، جس پر جسٹس (ر) مشیر عالم،  مخدوم علی خان، منیر اے ملک، عابد زبیری، جسٹس (ر) ندیم اختر، اکرم شیخ، انور منصور، علی احمد کرد، خواجہ احمد حسین اور صلاح الدین احمد کے بھی دستخط ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سی ڈی اے کو تحلیل کرنے کا سنگل بینچ کا فیصلہ معطل
  • ستائیسویں ترمیم: ’’سچ صرف چائے خانوں میں سرگوشیوں تک محدود ہے‘‘، جسٹس اطہر
  • 27ویں ترمیم سے سپریم کورٹ  کو شید ید خطرہ ، کنو نشن بلایا جائے 
  • ملزم ضمانت کاغلط استعمال کررہا ہے تو قانون اپنا راستہ بنائے، چیف جسٹس
  • سوسائٹی کی زمین پرقبضہ‘پولیس افسر کوملزمان کیخلاف انکوائری کاحکم
  • عدالتی حکم کے باوجود وزیراعلیٰ کے پی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہ کرانے پرتوہین عدالت کی درخواست دائر
  • 27 ویں ترمیم: ججز کے تبادلے کی ترمیم میں تبدیلی پر غور، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر معاملات طے نہ پاسکے
  • راولپنڈی؛ خاتون کو ہراساں کرنے کی وائرل ویڈیو، ملزم گرفتار
  • خاتون جسٹس کیخلاف توہین عدالت کی درخواست خارج، درست فورم جوڈیشل کونسل: اسلام آباد ہائیکورٹ