City 42:
2025-08-14@03:56:41 GMT

قومی اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

سٹی42: اسلام آباد میں قومی  اسمبلی نے انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل کثرت  رائے سے منظور کرلیا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادقنے موڈریٹ کیا۔اجلاس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، بل کی حمایت میں 125ووٹ آئے جب کہ اس کی مخالفت میں 45 ووٹ آئے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو جے یو آئی رکن عالیہ کامران نے سوال اٹھایا کہ کیا جلدی ہے کہ اس بل کو اچانک منظور کیا جارہا ہے۔

جشن آزادی کی خوشیاں، برائلر گوسشت کی نئی قیمت کیا؟

 وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نےکہا کہ 2012 والے حالات دوبارہ اس ملک میں ہیں، ایک ماہ میں 4 میجر شہید ہوئے ہیں، یہ قانون بنانا ضروری ہے، ہمیں فورسز کی مدد کرنی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے  کہا کہ یہ تو ماہرقانون جانتے ہیں کہ آج جو قانون لایا جا رہا ہے اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان میں نہیں عالمی سطح پر شروع ہوئی تھی۔  مجھے  تعجب ہے کہ کبھی کسی رکن پارلیمنٹ نے یہ نکتہ کبھی نہیں اٹھایا۔ مولانا فضل الرحمان نے الزام لگایا،  ہم نے چند قوانین کے تحت پاکستان کے ہر شخص کو پیدائشی مجرم قرار دے دیا ہے ، پاکستان کے ادارے کسی بھی فرد کو چاہیں اٹھا لیں اور بعد میں آپ نے خود ثابت کرنا ہےکہ میں بے گناہ ہوں، یہ شریعت اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔

پنجاب پولیس میں بھرتیاں, ویٹنگ لسٹ کے امیدواروں کیلئے بڑی خوشخبری

اپوزیشن نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2024 کی مخالفت  میں گنتی کو چیلنج کردیا، اس پر سپیکر ایاز صادق نے گنتی شروع کرائی جس میں حکومتی ارکان کی تعداد بل کی حمایت میں زیادہ نکلی۔

جے یو آئی نے یہ ترمیمی بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوانےکی ترمیم پیش کی۔ ترمیم عالیہ کامران نے پیش کی۔  حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ سپیکر نے ترمیم پر  ووٹنگ کروائی جس میں صرف 41 ارکان نے اس حمایت کی، عالیہ کامران کی ترمیم کثرت  رائے  سے مسترد کردی گئی جس کے بعد جے یو آئی کے ارکان اجلاس سے ہی چلے گئے۔

ٹیکساس : ٹرین حادثہ، 35 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی

 معقول شکایت، معتبر اطلاع  اور معقول شبہ کی بجائےٹھوس شواہد 

انسداد دہشت گردی ایکٹ میں پیپلزپارٹی کے نوید قمر کی ترامیم منظور کرلی گئیں۔ نوید قمر نے شق 11 فور ای کی ذیلی شق 2 میں ترمیم پیش کی، ترمیم کے تحت بل میں سے معقول شکایت، معتبر اطلاع  اور معقول شبہ جیسے الفاظ کو نکال کر ٹھوس شواہد سے بدل دیا گیا۔

پاک بھارت تنازع خوفناک صورتحال میں بدل سکتا تھا: ٹیمی بروس

 انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل
بل کے تحت سیکشن 11 فور ای کی ذیلی شق ایک میں ترمیم کر دی گئی۔ ترمیمی بل کے مطابق مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کسی بھی شخص کو 3 ماہ تک حفاظتی حراست میں رکھنےکی مجاز ہوں گی۔

بل کے متن کے مطابق ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص کو  حراست میں نہیں لیا جا سکےگا،  اس میں زیر حراست شخص کی 3 ماہ سے زائد مدت کی حراست کے لیے معقول جواز لازمی قرار دیا گیا ہے۔

محکمہ زکوٰۃ و عشر نے مستحقین کیلئے گزارا الاؤنس اور زکوٰۃ جاری کر دی

 ملکی سلامتی، دفاع، امن و امان کے لیےکسی بھی شخص کو حراست میں رکھا جاسکےگا۔

 اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث کسی بھی شخص کو حراست میں رکھا جاسکےگا۔

ترمیمی بل کے مطابق ان جرائم میں ملوث شخص کی حراست کی مدت آرٹیکل 10 کے تحت 3 ماہ سے بڑھائی جا سکے گی۔

 زیر حراست شخص کے خلاف تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کرے گی، انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل 3سال کےلیے نافذ العمل ہوگا۔

وفاقی وزیر قانون نے اعظم نذیر تارڑ  نےکہا کہ حکومت کو اختیار ہےکہ امن وامان کے لیے قانون سازی کرے۔  قانون کہتا ہے جس شخص کو گرفتار کرنا ہے اسے 24 گھنٹے میں پیش کرنا ہے، آئین میں ہےکہ 90 روز کے لیےکسی کو  نظر بندکرسکتے ہیں۔

Waseem Azmet.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: انسداد دہشت گردی ایکٹ ترمیمی بل کسی بھی شخص کو قومی اسمبلی کے تحت

پڑھیں:

تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ

پاکستان اور امریکا نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس پیش رفت کو پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جب بھارت بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بی ایل اے سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے۔

امریکا اور پاکستان کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا حالیہ فیصلہ ایک انتہائی موافق سفارتی سنگِ میل ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے ذمے دارانہ کردار ادا کیا ہے۔

چاہے یہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں، سرحدی تحفظ ہوں یا عالمی سطح پر تعاون، پاکستان نے وقتاً فوقتاً اپنی سنجیدگی اور مؤثر اقدامات سے دنیا کو یہ باورکروایا ہے کہ وہ عالمی امن کی مطلوبہ ضمانت ہے، اگرچہ اس راہ میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستان نے ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔

بھارت کے ان کھلم کھلا حمایتی بیانات اورکردار کے باوجود، پاکستان نے بی ایل اے جیسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اور مستقل کارروائیوں سے یہ واضح کیا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ملک میں انتشار پھیلانے کی ہرکوشش ناکام بنانے کے عزم پر قائم ہے۔

دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کی نوعیت تبدیلی پذیر ہے، عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس اور ان کے علاقائی شاخیں مسلسل اپنے حربے بدلتی رہتی ہیں۔

ایسے میں اگر پاکستان کو تازہ ترین انٹیلی جنس، جدید تربیت اور وسائل تک رسائی ملے تو وہ نہ صرف مؤثر ردِ عمل دے سکتا ہے بلکہ دہشت گردی کے نئے رجحانات کا بروقت ازالہ بھی کرسکتا ہے۔ امریکا کے ساتھ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان کی انٹیلی جنس شیئرنگ، ڈیٹا اینالیسس اور ملٹری پراکٹیکل آپریشنز مزید مضبوط ہوں گے، جس سے پاکستان خود نہ صرف اپنی سرحدوں، بلکہ بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات کے پیش نظر بہتر مزاحمتی صلاحیت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگا۔

عالمی سطح پر پاکستان کی اس کامیابی کا مفہوم بھی بڑا ہے۔ ایک طرف بھارت عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ باتیں کرتا رہا ہے، بھارت کے بلوچستان سے متعلق بیانات، پروپیگنڈا اور حمایتیں صرف مقامی امن کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش نہیں بلکہ ایک منظم سفارتی محاذ ہیں۔

بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جو عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایسے حالات میں اگر پاکستان نے مؤثر کارروائی کی ہیں اور امریکا جیسے شریکِ کار نے اسے تسلیم کیا، تو یہ نہ صرف پاکستان کی ساکھ کے لیے مثبت ہے بلکہ خطے میں توازن کی بحالی میں بھی ایک مضبوط پیغام ہے۔

 اس دوطرفہ تعاون کا اثر معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بھی قابلِ غور ہے۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے آثار ہوتے ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کاری، سیاحت اور ترقیاتی منصوبے تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بالخصوص بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں دیرینہ محرومیوں اور اجتماعی نظریاتی بحرانوں کا شکار عوام آباد ہیں، وہاں اگر امن کی فضا برقرار رہے اور تحفظ کا احساس مضبوط ہو، تو لوگ اپنے گھروں اورکاروباروں میں سرمایہ لگانے میں حائل خطرات سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔

اس سے مقامی سطح پر خوشحالی کی روایت پروان چڑھے گی، خالی رہ جانے والی زمینیں آباد ہوں گی، نوجوانوں کو روزگارکے نئے مواقع ملیں گے اور دہشت گردی کے خول خود بہ خود تحلیل ہونے لگیں گے، یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا اگر انسدادِ دہشت گردی میں ایک حقیقی، مضبوط اور متوازن اقدامات کا تسلسل ہو۔

ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس طرح کا تعاون پاکستان کو خود کفیل بنا سکتا ہے۔ امریکا کے تعاون سے نہ صرف فوری حل ملے گا بلکہ پاکستان کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا کہ مستقبل میں وہ خود اپنی زمین، ہواؤں اور سمندروں پر جاری خطرات کا مؤثر مقابلہ کر سکے، اگرچہ بیرونی تعاون اہم ہے، لیکن اس تعاون کا صحیح ڈھانچہ، مشترکہ اہداف اور واضح افقی منصوبہ بندی ہی اس تعاون کو پائیداری عطا کرے گی۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تعاون کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے شفاف انداز سے اپنی ضروریات، ترجیحات اور اہداف امریکی شراکت داروں کے سامنے رکھے، تاکہ طویل المدتی تعاون کا توازن اور استحکام برقرار رہ سکے۔ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اقتصادی محاذ پر جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات میں امریکا کا اثر و رسوخ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کے حصے کا پانی نہیں روک سکتا۔ پڑوسی ملک نے ہمارا پانی بند کرنے کی دھمکی دی ہے لیکن وہ پاکستان سے ایک بوند پانی بھی نہیں چھین سکتا، اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کی تو وہ حشر کریں گے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ بیان نے قومی وقار، سلامتی اور پانی جیسے بنیادی حق سے جڑی حساسیت کو بھی ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اس کا ایسا انجام ہوگا کہ دشمن کو خود اپنی حرکت پر شرمندگی ہوگی۔ یہ الفاظ محض ایک سیاسی رد عمل نہیں بلکہ ایک قوم کی طرف سے اپنے قدرتی وسائل اور قومی مفادات کے دفاع کا اعلان ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس پر عالمی بینک کی گواہی بھی موجود ہے۔ اس کے تحت تین مشرقی دریا بھارت کے سپرد کیے گئے اور تین مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔

برسوں سے یہ معاہدہ خطے میں پانی کی تقسیم کے سلسلے میں ایک مستند حوالہ رہا ہے، مگر وقتاً فوقتاً بھارت کی طرف سے ایسے اقدامات سامنے آتے رہے ہیں جنھیں پاکستان نے معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا۔ حالیہ بھارتی رویہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں دشمن ملک کی طرف سے مبینہ طور پر پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں، یہ ہماری زراعت، صنعت، معیشت اور روزمرہ زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر انحصار ان ہی مغربی دریاؤں پر ہے جن کا بہاؤ معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، اگر دشمن ملک ان دریاؤں پر بند باندھنے یا ان کا رخ موڑنے کی کوشش کرے تو یہ نہ صرف ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

یہ معاملہ صرف سفارتی یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ انسانی حقوق، ماحولیاتی توازن اور علاقائی سلامتی کا بھی ہے۔ پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اٹھانا چاہیے بلکہ اندرونی طور پر بھی آبی وسائل کے تحفظ اور منصفانہ تقسیم کے لیے فوری اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنا نہیں، بلکہ اپنے نظام کو اس قابل بھی بنانا ہوگا کہ وہ کسی ممکنہ خطرے کا بروقت اور مؤثر انداز میں جواب دے سکے۔یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کے ذریعے اپنے مؤقف کو اجاگرکرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور عالمی آبی اداروں کو متحرک کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ باورکرانا ہوگا کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے خود اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان، ایک ذمے دار ریاست ہونے کے ناتے، ہمیشہ سے پرامن مذاکرات اور قانونی چارہ جوئی پر یقین رکھتا ہے، اگر اس کے بنیادی حقوق پر حملہ کیا جائے گا تو وہ اپنے دفاع میں کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم محض ردعمل دینے کے بجائے ایک طویل المدت آبی پالیسی مرتب کریں، جس میں پانی کی ذخیرہ اندوزی، منصفانہ تقسیم، بارش کے پانی کا استعمال اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے اقدامات شامل ہوں۔ ہمیں اپنے دریاؤں کی حفاظت کے لیے صرف سیاسی بیانات پر نہیں، عملی اقدامات پر انحصارکرنا ہوگا۔

ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ پانی کا مسئلہ آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیارکرے گا۔ اقوام عالم اس وقت ایک ماحولیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ بحران دوگنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم اب بھی اگر بیدار نہ ہوئے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔

وزیراعظم نے ایک قومی مؤقف پیش کیا ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس مؤقف کو مضبوطی، حکمت اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھائیں، اگر ہم نے متحد ہو کر، درست سمت میں اقدامات کیے، تو کوئی طاقت ہمارے دریاؤں کا رخ موڑ نہیں سکتی اور اگر ہم نے غفلت کی، تو شاید ہمارا کل، آج سے بھی زیادہ پیاسا ہو۔

قوم کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر اپنے اداروں پر بھروسا رکھے اور حکومت کو اس نازک مسئلے پر بھرپور حمایت فراہم کرے۔ یہ وقت قومی یکجہتی، بصیرت اور عمل کا ہے۔ پانی ہماری زندگی ہے، اور زندگی پر سودے بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قومی اسمبلی میں انسداد دہشتگردی بل منظور، فورسز کو 3 ماہ کیلئے مشکوک شخص کی گرفتاری کا اختیار
  • انسداد دہشت گردی ترمیمی بل منظور؛ فورسز کو کسی بھی شہری کو 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل
  • تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ
  • قومی اسمبلی: انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2024ء کثرت رائے سے منظور
  • مشکوک شخص کو 3 ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا، قومی اسمبلی میں ترمیمی بل منظور
  • قومی اسمبلی:انسداد دہشتگری ترمیمی بل منظور ، اپوزیشن کی مخالفت
  • انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ہنگامی بنیادوں پر ترامیم کا فیصلہ، بل کی منظوری ایجنڈے میں شامل 
  • خواتین کے تحفظ کیلئے فوجداری قوا نین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں آگیا
  • خیبر پختونخوا ٹورازم پولیس 3 ماہ سے تنخواہوں سے محروم