’انکل سرگم‘ پُتلا نہیں ضمیر کی آواز تھا
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
وہ صرف پُتلا نہیں تھا، ضمیر کی آواز تھا۔ وہ صرف بچوں کا ساتھی نہیں تھا، بڑوں کا آئینہ بھی تھا۔ وہ انکل سرگم تھا ۔ ۔ ۔ اور اس کے پیچھے کھڑا تھا ایک فنکار، ایک معلم، ایک باشعور مزاح نگار فاروق قیصر۔
فاروق قیصر کو ہم صرف انکل سرگم کے خالق کے طور پر یاد نہیں کرتے، بلکہ ایسے فنکار کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں جس نے سچ کو خندہ پیشانی سے بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کی تخلیق، ان کا قلم، ان کی آواز، سب نے مل کر ایک ایسی شخصیت تراشی جو آج بھی ہمارے معاشرتی شعور میں زندہ ہے۔
انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی، پھر رومانیہ میں پتلی تماشے کی تربیت لی اور امریکا سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا یہ سفر ہی دراصل ’انکل سرگم‘ کے فکری قد کا مظہر ہے، ایک ایسا کردار جو صرف ہنساتا نہیں بلکہ آئینہ بھی دکھاتا ہے۔
1976 کا وہ دور جب ’کلیاں‘ پروگرام نے پاکستان ٹیلی وژن پر آنکھ کھولی، ٹی وی اسکرین پر نیا اندازِ فکر متعارف ہوا۔ انکل سرگم، مہمان چاچا، شفیق، اور بے بے شکرپیں جیسے کردار صرف بچوں کے ساتھی نہ تھے بلکہ سماج کی ترجمانی کرنے والے کردار تھے۔
شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ پُتلا ’انکل سرگم‘ سماجی ناانصافی، کرپشن، جھوٹ، منافقت اور اقتدار کی بے حسی کے خلاف مضبوط علامتی کردار بن جائے گا۔ وہ سب کردار گویا ہمارے اردگرد کے معاشرتی کرداروں کی پُتلی نما شکلیں تھیں۔ انکل سرگم کا یہ جملہ ’اوئے شفیق! تُو نے وہی حرکت کی جو حکمران ہر بار کرتے ہیں، منہ سے کچھ، دل میں کچھ‘۔
مزید پڑھیں: ایک تھا جلیانوالہ باغ
انکل سرگم کی زبان پنجابی مٹھاس لیے ہوتی، مگر اس میں طنز کی تلخی بھی شامل تھی۔ وہ عوام کی محرومیوں پر مسکراتے ہوئے سوال اٹھاتے، اور بچے جو اکثر عامیانہ لطائف کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے وہ تہذیب اور تفکر کا ذریعہ بن جاتے تھے۔ ان کی تخلیق کردہ دنیا ایک مثال ہے کہ کیسے مزاح اور تہذیب کو اکٹھا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا فن سستا نہیں تھا، سچا تھا۔ ان کا انداز بلند آہنگ نہیں، بامعنی تھا۔
آج کی دنیا میں طنز اکثر بدتہذیبی سے جاملتا ہے، لیکن فاروق قیصر نے مزاح کو شائستگی کا لباس پہنایا۔ ان کے مکالمے دل کو چھوتے تھے، مگر کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ ان کا مخصوص لہجہ، معصوم شوخی، اور سب سے بڑھ کر طنز میں لپٹی سچائی، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن صرف دل بہلانے کا نام نہیں، دل جگانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ’جب بھی حکومت بدلتی ہے، صرف تصویر بدلتی ہے، فریم وہی رہتا ہے۔‘
فاروق قیصر صرف پُتلی ساز نہیں تھے، وہ ایک استاد بھی تھے، ایک کارٹونسٹ، ایک کالم نگار، اور سب سے بڑھ کر معاشرتی نبض شناس۔ ان کے تخلیق کردہ کارٹون اخبار کی سب سے مختصر، مگر سب سے زیادہ جامع خبر ہوتے تھے۔
مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک
پی ٹی وی کے 2010 کے ایک یادگار انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے بچوں کو کتابوں سے دور اور اسکرین کے قریب کردیا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اسکرین پر وہ دکھائیں جو کتاب سکھاتی ہے۔‘
14 مئی 2021 وہ دن تھا جب یہ آواز خاموش ہوگئی۔ مگر وہ پُتلا، وہ الفاظ، وہ انداز آج بھی ہر اس انسان کو یاد ہے جو کبھی ’کلیاں‘ کے سائے میں ہنسا تھا، یا کسی کارٹون میں اپنا حال دیکھ کر چونکا تھا۔
آج جب ان کی چوتھی برسی ہے، سوچتا ہوں کہ انکل سرگم ہمارے درمیان ہوتے تو ٹی وی پر یہ کہتے ’اوئے شفیق! انکوائری کمیٹی بن گئی ہے، اب حقیقت مرنے سے پہلے دو دفعہ اور مرے گی۔‘ فاروق قیصر نے انکل سرگم کی زبان میں وہ سب کہہ دیا جو ایک عام پاکستانی صرف سوچ سکتا تھا۔
انکل سرگم چلے گئے، مگر جب بھی کوئی ہنسی کے پردے میں سچ کہتا ہے، وہیں کہیں پسِ منظر میں انکل سرگم مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کوئی بچہ ٹی وی پر چیختے چلاتے کرداروں سے الجھتا ہے، تو ہم فاروق قیصر کو یاد کرتے ہیں، کہ ایک زمانہ تھا جب اسکرین تہذیب سکھاتی تھی۔ فاروق قیصر کو سلام، جو اپنے فن سے جیتے رہے، اور اپنے کردار سے آج بھی زندہ ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انکل سرگم رولا فاروق قیصر کلیاں ماسی مصیبتے مشکورعلی ہیگا وی نیوز فاروق قیصر کو انکل سرگم
پڑھیں:
کیا ہم نے تاریخ سے کچھ سیکھا؟
جب توپیں بولتی ہیں تو صرف بارود نہیں گرتا انسانیت کی امیدیں بھی ریزہ ریزہ ہوتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جھڑپ جسے اب تین دن کی جنگ کہا جا رہا ہے، ایک لمحہ تھا جب دنیا ایک بار پھر ایٹمی تباہی کے دہانے پرکھڑی ہوگئی تھی۔ جو خاموشی اب قائم ہوئی ہے وہ صرف ایک عسکری توقف نہیں، وہ انسانیت کی آخری پکار ہے۔ اگر یہ سیز فائر نہ ہوتا، اگر جنگ کی آگ کو وقت پر بجھایا نہ جاتا تو اس کا شعلہ نہ صرف لاہور، دہلی، سری نگر اور بمبئی کو جھلساتا بلکہ پورے خطے اور شاید پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتا۔
ہم جو برصغیر کے باسی ہیں، جانتے ہیں کہ ہمارے آنگن میں جنگ کبھی دور نہیں رہی۔ 1947 سے اب تک کتنی جنگیں ہوچکی ہیں؟ کتنے بچے یتیم، کتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں، ماؤں سے ان کے بیٹے چھن گئے اور ان دونوں ممالک کی عوام غربت کی چکی میں پس رہی ہے؟ کیا ہم نے اب تک کچھ نہیں سیکھا؟جنگ جب لڑی جاتی ہے تو نقصان تو عام آدمی کا ہوتا ہے، مگر اس بار دنیا نے جس شدت سے اس کشیدگی کو محسوس کیا وہ اس لیے کہ دونوں ملک ایٹمی طاقتیں ہیں اور آج کی دنیا میں اگرکوئی ایک ایٹمی میزائل حرکت میں آتا ہے تو اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی۔چین ترکی یہاں تک کہ امریکا بھی ایک دم متحرک ہو گیا۔ یورپی دارالحکومتوں میں خفیہ اجلاس روس کے میڈیا میں فکرمندی اور جاپان سے لے کر آسٹریلیا تک نیوز رومز میں اضطراب، یہ سب اس لیے کہ دنیا جانتی ہے پاکستان اور بھارت اگر جنگ میں الجھ گئے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی پہلی چنگاری ہو سکتی ہے۔
پاکستان نے جواب دیا،بھارت نے الزام لگایا لیکن اصل بات جو وقت نے ثابت کی وہ یہ ہے کہ دونوں قوموں کو اب سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یہ صرف ایک سیزفائر نہیں، یہ وقت کی طرف سے ایک آخری مہلت ہے اور اگر ہم نے اب بھی نفرت اور جنگی جنون کو لگام نہ دی تو اگلی بار یہ مہلت شاید نہ ملے۔امن کی راہ کمزوروں کا انتخاب نہیں شعور والوں کا فیصلہ ہوتا ہے، جو قومیں تاریخ سے سبق لیتی ہیں وہ بندوق کو نیام میں رکھ کر قلم اٹھاتی ہیں۔ ہمیں وہی راستہ اپنانا ہوگا۔سیز فائر کے بعد ہمیں جنگ کی نفسیات کو جڑ سے پکڑنا ہے۔ ہمیں اپنی کتابوں اپنے اسکولوں اپنے میڈیا اور اپنے سیاست دانوں سے یہ پوچھنا ہے کہ کیوں ہم بار بار نفرت کے بیج بوتے ہیں؟ کیوں ہم اپنی نسلوں کو دوسرے کی تباہی میں خوشی تلاش کرنے کی تربیت دیتے ہیں؟ کیوں ہماری سرحدیں صرف فوجی نقطہ نظر سے دیکھی جاتی ہیں انسانی نقطہ نظر سے نہیں؟
برصغیر کے پاس دنیا کو دینے کے لیے تہذیب علم و ادب اور فن کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے، مگر ہم نے اسے جنگی سیاست کی گرد میں چھپا دیا ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی اصل پہچان اپنے انسان ہونے کی پہچان کو زندہ کریں۔ہمیں امن کی بات کرنی ہے مگر ایک نئی زبان میں ایسی زبان جو خوف سے نہیں حوصلے سے بولی جائے۔ ایسی بات جو کمزوری سے نہیں شعور اور دوراندیشی سے کی جائے۔
آج جب میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں تو مجھے پاپ فرانسس کی ایک بات یاد آئی’’ جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی یہ صرف نئے مسائل پیدا کرتی ہے‘‘ اور جب میں غزہ کے بچوں یوکرین کے پناہ گزینوں اور روہنگیا کے کیمپوں کو دیکھتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اگر نہ سنبھلے تو یہ خطہ بھی ایسی ہی بربادی کا استعارہ بن جائے گا۔ یہ سیز فائر ایک آخری موقع ہے، ہمیں مکالمے، معاہدے، عوامی رابطوں ثقافتی تبادلوں اور تعلیمی تعاون کی نئی بنیاد رکھنی ہوگی۔ ہماری دشمنی کی زمین پر اب نئی فصل کاشت ہونی چاہیے امن کی فصل۔ ورنہ توپوں کے شور میں صرف دشمن کی نہیں ہماری اپنی نسلوں کی آوازیں بھی دب جائیں گی۔
جنگیں صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتیں وہ لفظوں، نظریوں اور پراپیگنڈے سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ ہمارے میڈیا نے ہمارے رہنماؤں نے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تعلیمی نظام نے بھی نفرت کے ایسے بیج بو دیے ہیں جن کی فصل ہمیں ہر چند سال بعد جنگ کی صورت کاٹنی پڑتی ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو سکھایا کہ دشمن کی تباہی ہماری فتح ہے، ہم نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ انسانیت کی بقا ہی اصل کامیابی ہے۔ یہ خاموشی جو آج قائم ہے یہ کوئی فتح کی گواہی نہیں، یہ ایک ہار ہے ہماری عقل کی ہار ہماری دانش کی ہار ہمارے ضمیرکی ہارکیونکہ اگر ہم واقعی جیت گئے ہوتے تو ہمیں ہر بار سیز فائرکی بھیک نہ مانگنی پڑتی۔ ہمیں دنیا میں ثالثی کے لیے دروازے نہ کھٹکھٹانے پڑتے۔
جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا طبل بجتا ہے، اس کی گونج صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ہرگلی، ہر محلے، ہرگھر میں سنائی دیتی ہے۔ یہ جنگیں چاہے چند دن کی ہوں یا مہینوں پر محیط ان کا سب سے بڑا بوجھ عام آدمی اٹھاتا ہے، وہ کسان جو کھیتوں میں ہل چلاتا ہے وہ مزدور جو فیکٹری میں کام کرتا ہے وہ ماں جو اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعا کرتی ہے وہ بچہ جو خوفزدہ ہوکر سوال کرتا ہے کہ جنگ کیوں ہوتی ہے یہ سب اس المیے کا حصہ ہوتے ہیں جسے ہم جنگ کہتے ہیں۔جب جنگ ہوتی ہے تو صرف فوجی محاذ پر لوگ نہیں مرتے، زندگی کے ہر شعبے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ معیشت کمزور ہو جاتی ہے تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں مہنگائی بڑھتی ہے اور بے یقینی کا عالم چھا جاتا ہے۔ جو سرحد کے قریب بستے ہیں ان کے لیے ہر دن زندگی اور موت کے بیچ کا ایک پل ہوتا ہے۔
بھارت میں بھی حالات مختلف نہیں ہوتے۔ وہاں کے لوگ بھی اسی طرح خوف غم اور غیر یقینی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جب بمبئی یا دہلی میں حملے ہوتے ہیں یا سرحد پر بھارتی فوجی مارے جاتے ہیں تو وہاں بھی والدین تڑپتے ہیں اور بچے یتیم ہوتے ہیں۔ جنگ کی آگ دونوں طرف کے میڈیا میں جوش و خروش لاتی ہے لیکن اس شور میں انسانی المیہ دب جاتا ہے۔ جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ نسلوں کے درمیان نفرت کا بیج بو دیتی ہے۔
اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب ٹی وی پر چلنے والے تبصرے اور سیاست دانوں کی تقریریں ایسی فضا بناتی ہیں جس میں دشمن صرف سرحد کے اس پار کا نہیں ہوتا بلکہ ہر اس شخص کو دشمن سمجھا جانے لگتا ہے جو امن کی بات کرے۔ یوں انسان، انسان سے کٹ جاتا ہے، رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں اور انسانیت پسِ پشت چلی جاتی ہے۔جب کبھی دونوں ملکوں کے درمیان کچھ بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے ،کوئی امن معاہدہ، کوئی کرکٹ سیریز یا کوئی ثقافتی تبادلہ تو عوام میں بھی ایک تازگی،ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ عام زندگی گزاریں، اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دیں اور نفرت کی دیواروں کو توڑ کر ایک دوسرے کو انسان کی حیثیت سے دیکھیں۔ مگر افسوس کہ یہ امیدیں بار بار ٹوٹ جاتی ہیں کیونکہ جنگ کا کاروبارکرنے والے طاقتور اور منظم ہیں اور ان کا فائدہ نفرت میں ہوتا ہے۔
جنگوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ نئے مسائل جنم لیتے ہیں، اگر دونوں ملک اپنی توانائی، تعلیم، صحت، تجارت اور انسانی ترقی پر لگائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، مگر جب تک جنگ کو بہادری اور امن کوکمزوری سمجھا جاتا رہے گا، تب تک عام لوگ اسی طرح اذیت سہتے رہیں گے اور غربت اور جہالت کے اندھیروں سے کبھی باہر نہیں آ پائیں گے۔