WE News:
2025-08-15@02:40:24 GMT

’انکل سرگم‘ پُتلا نہیں ضمیر کی آواز تھا

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

وہ صرف پُتلا نہیں تھا، ضمیر کی آواز تھا۔ وہ صرف بچوں کا ساتھی نہیں تھا، بڑوں کا آئینہ بھی تھا۔ وہ انکل سرگم تھا ۔ ۔ ۔ اور اس کے پیچھے کھڑا تھا ایک فنکار، ایک معلم، ایک باشعور مزاح نگار فاروق قیصر۔

فاروق قیصر کو ہم صرف انکل سرگم کے خالق کے طور پر یاد نہیں کرتے، بلکہ ایسے فنکار کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں جس نے سچ کو خندہ پیشانی سے بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کی تخلیق، ان کا قلم، ان کی آواز، سب نے مل کر ایک ایسی شخصیت تراشی جو آج بھی ہمارے معاشرتی شعور میں زندہ ہے۔

انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی، پھر رومانیہ میں پتلی تماشے کی تربیت لی اور امریکا سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا یہ سفر ہی دراصل ’انکل سرگم‘ کے فکری قد کا مظہر ہے، ایک ایسا کردار جو صرف ہنساتا نہیں بلکہ آئینہ بھی دکھاتا ہے۔

1976 کا وہ دور جب ’کلیاں‘ پروگرام نے پاکستان ٹیلی وژن پر آنکھ کھولی، ٹی وی اسکرین پر نیا اندازِ فکر متعارف ہوا۔ انکل سرگم، مہمان چاچا، شفیق، اور بے بے شکرپیں جیسے کردار صرف بچوں کے ساتھی نہ تھے بلکہ سماج کی ترجمانی کرنے والے کردار تھے۔

شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ پُتلا ’انکل سرگم‘ سماجی ناانصافی، کرپشن، جھوٹ، منافقت اور اقتدار کی بے حسی کے خلاف مضبوط علامتی کردار بن جائے گا۔ وہ سب کردار گویا ہمارے اردگرد کے معاشرتی کرداروں کی پُتلی نما شکلیں تھیں۔ انکل سرگم کا یہ جملہ ’اوئے شفیق! تُو نے وہی حرکت کی جو حکمران ہر بار کرتے ہیں، منہ سے کچھ، دل میں کچھ‘۔

مزید پڑھیں: ایک تھا جلیانوالہ باغ

انکل سرگم کی زبان پنجابی مٹھاس لیے ہوتی، مگر اس میں طنز کی تلخی بھی شامل تھی۔ وہ عوام کی محرومیوں پر مسکراتے ہوئے سوال اٹھاتے، اور بچے جو اکثر عامیانہ لطائف کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے وہ تہذیب اور تفکر کا ذریعہ بن جاتے تھے۔ ان کی تخلیق کردہ دنیا ایک مثال ہے کہ کیسے مزاح اور تہذیب کو اکٹھا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا فن سستا نہیں تھا، سچا تھا۔ ان کا انداز بلند آہنگ نہیں، بامعنی تھا۔

آج کی دنیا میں طنز اکثر بدتہذیبی سے جاملتا ہے، لیکن فاروق قیصر نے مزاح کو شائستگی کا لباس پہنایا۔ ان کے مکالمے دل کو چھوتے تھے، مگر کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ ان کا مخصوص لہجہ، معصوم شوخی، اور سب سے بڑھ کر طنز میں لپٹی سچائی، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن صرف دل بہلانے کا نام نہیں، دل جگانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ’جب بھی حکومت بدلتی ہے، صرف تصویر بدلتی ہے، فریم وہی رہتا ہے۔‘

فاروق قیصر صرف پُتلی ساز نہیں تھے، وہ ایک استاد بھی تھے، ایک کارٹونسٹ، ایک کالم نگار، اور سب سے بڑھ کر معاشرتی نبض شناس۔ ان کے تخلیق کردہ کارٹون اخبار کی سب سے مختصر، مگر سب سے زیادہ جامع خبر ہوتے تھے۔

مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

پی ٹی وی کے 2010 کے ایک یادگار انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے بچوں کو کتابوں سے دور اور اسکرین کے قریب کردیا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اسکرین پر وہ دکھائیں جو کتاب سکھاتی ہے۔‘

گوگل نے یکم نومبر 2023 کو فاروق قیصر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنے ہوم پیج پر خصوصی ڈوڈل (Doodle) جاری کیا۔

14 مئی 2021 وہ دن تھا جب یہ آواز خاموش ہوگئی۔ مگر وہ پُتلا، وہ الفاظ، وہ انداز آج بھی ہر اس انسان کو یاد ہے جو کبھی ’کلیاں‘ کے سائے میں ہنسا تھا، یا کسی کارٹون میں اپنا حال دیکھ کر چونکا تھا۔

آج جب ان کی چوتھی برسی ہے، سوچتا ہوں کہ انکل سرگم ہمارے درمیان ہوتے تو ٹی وی پر یہ کہتے ’اوئے شفیق! انکوائری کمیٹی بن گئی ہے، اب حقیقت مرنے سے پہلے دو دفعہ اور مرے گی۔‘ فاروق قیصر نے انکل سرگم کی زبان میں وہ سب کہہ دیا جو ایک عام پاکستانی صرف سوچ سکتا تھا۔

انکل سرگم چلے گئے، مگر جب بھی کوئی ہنسی کے پردے میں سچ کہتا ہے، وہیں کہیں پسِ منظر میں انکل سرگم مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کوئی بچہ ٹی وی پر چیختے چلاتے کرداروں سے الجھتا ہے، تو ہم فاروق قیصر کو یاد کرتے ہیں، کہ ایک زمانہ تھا جب اسکرین تہذیب سکھاتی تھی۔ فاروق قیصر کو سلام، جو اپنے فن سے جیتے رہے، اور اپنے کردار سے آج بھی زندہ ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

انکل سرگم رولا فاروق قیصر کلیاں ماسی مصیبتے مشکورعلی ہیگا وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انکل سرگم رولا فاروق قیصر کلیاں ماسی مصیبتے مشکورعلی ہیگا وی نیوز فاروق قیصر کو انکل سرگم

پڑھیں:

گہری خاموشی کا شور

دنیا کی زمین پرکچھ نقشے ایسے ہیں جو خون سے بنے ہیں۔ جن پرکھینچی لکیروں کو مٹانے کے لیے تاریخ نے بارہا کوشش کی، مگر یہ لکیریں ہر بار اور گہری ہوگئیں۔ آج ان میں سے ایک لکیر فلسطین کے نقشے پرکھینچی ہے خاص طور پر غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پر جہاں دس مہینوں سے آگ اور بارود کا طوفان ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے ہمیں روز اعداد وشمار دیتے ہیں، فلاں دن اتنے بچے مر گئے، فلاں دن اتنے مکانات ملبے میں بدل گئے مگر یہ اعداد و شمار وہ آنسو نہیں دکھاتے، جو ایک ماں کے چہرے سے بہہ کر اس کے بے جان بچے کے گال کو تر کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو لحد میں اتارنے کے بعد کس طرح زمین پر بیٹھ کر خاموشی سے آسمان کو دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔

 تو جب میں کہتی ہوں کہ دنیا خاموش ہے تو لوگ چونک کر پوچھتے ہیں

’’کیسی خاموشی؟ سڑکوں پر تو لوگ نکلے ہیں لندن سے نیو یارک تک، برلن سے جکارتہ تک‘‘ ہاں سڑکوں پر شور ہے مگر خاموشی وہاں ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ جہاں طاقتور ریاستوں کے ایوان ہیں جہاں بند کمروں میں مستقبل کے سودے طے پاتے ہیں، وہاں یہ شور ایک مدھم سرگوشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

یہ خاموشی نئی نہیں بوسنیا جل رہا تھا، تو دنیا تشویش میں تھی۔ روانڈا میں نسل کشی ہوئی تو مزید معلومات جمع کرنے کا وقت درکار تھا۔ ویت نام پر نپام برس رہا تھا تو کچھ حکومتیں خاموش اور کچھ غور و فکر میں تھیں۔ اسپین کی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف لڑنے رضاکار تو پہنچے مگر عالمی طاقتیں غیر جانبداری کا جھنڈا لہرائے بیٹھیں رہیں۔ ہر بار مظلوم کے لیے وقت کم اور ظالم کے لیے مہلت زیادہ نکلی۔

آج آسٹریلیا نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔ ایک خوش آیند قدم مگر یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ہزاروں زندگیاں ختم ہو چکی ہیں۔ دس مہینوں میں کتنے بچوں کے جنازے اٹھے کتنی مائیں قبرستانوں میں بیٹھیں، اپنے بچوں کا ماتم کر رہی ہیں اور کتنی بستیاں نقشے سے مٹ گئیں۔ یہ اعلان ان سب کو واپس نہیں لا سکتا یہ ایک علامت ضرور ہے، مگر ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ علامت پہلے کیوں نہ دی گئی؟

بائیں بازو کے لیے یہ سوال بنیادی ہے کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ اگر انسانی جان سے زیادہ قیمتی سرمایہ، اسلحہ یا طاقت ہے، تو یہ دنیا دراصل ایک بڑی منڈی ہے جہاں انسان محض سامانِ فروخت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی سیاست دونوں کو جنگ میں فائدہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسٹاک بڑھتے ہیں، تعمیراتی کمپنیاں جنگ زدہ علاقوں کی بحالی کے نام پر معاہدے جیتتی ہیں اور وسائل سے بھرے علاقے معاشی اصلاحات کے بہانے نو آبادیاتی کنٹرول میں لے لیے جاتے ہیں۔

خاموشی محض الفاظ نہ بولنے کا نام نہیں، یہ ایک سیاسی ہتھیار ہے، یہ ظالم کو طاقتور بناتی ہے اور مظلوم کو تنہا کر دیتی ہے۔ یہ انصاف کو ملتوی کرتی ہے اور ملتوی ہونے والا انصاف اکثر انصاف نہیں رہتا۔ یہ وہی خاموشی ہے جو نازی جرمنی کے ابتدائی برسوں میں تھی جو چلی میں پنوشے کے اقتدار کے دوران تھی جو عراق پر حملے کے وقت تھی اور آج یہ خاموشی غزہ کے اوپر ایک سیاہ بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔

عوام کی آواز گلیوں میں گونجتی ہے، پلے کارڈ، بینر، نعرے مگر ایوانوں تک پہنچنے سے پہلے یہ شورکہیں دب جاتا ہے۔ جیسے دریا کا پانی کسی بند میں روک دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس بند کو کون توڑے گا ؟ اگر یہ بند نہ ٹوٹا تو کل یہ خاموشی ہمارے اپنے دروازے پر بھی آ کر بیٹھ جائے گی۔

غزہ کے اسپتالوں میں دوا نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں۔ بچے ماں کی کوکھ سے سیدھا قبر کی مٹی تک کا سفرکر رہے ہیں۔ ان کے لیے بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں لکھے حقوق محض الفاظ ہیں اور عالمی طاقتیں یا تو تماشائی ہیں یا شریکِ جرم۔ کچھ حکومتیں تشویش کے بیانات جاری کرتی ہیں کچھ دونوں طرف کے تشدد کی بات کر کے توازن قائم کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عوامی احتجاج اگر مسلسل اور منظم ہو تو وہ ایوانوں کے فیصلے بدل سکتا ہے۔ ویت نام کی جنگ اسی وقت ختم ہوئی جب امریکی عوام کی آواز امریکی کانگریس کے اندرگونجی۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اسی وقت ہٹی جب دنیا بھر کے عوام نے حکومتوں کو معاشی بائیکاٹ پر مجبور کیا۔ آج غزہ کے لیے بھی یہی راستہ ہے محض سڑکوں پر شور نہیں بلکہ حکومتوں پر مسلسل دباؤ۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر خاموشی ایک طرف کی حمایت ہے، اگر ہم ظالم کے خلاف بولتے نہیں تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ہم مظلوم کا ہاتھ نہیں پکڑتے تو ہم اس کے زخم کو گہرا کرتے ہیں اور اگر ہم اپنی حکومتوں سے جواب طلب نہیں کرتے تو ہم اس خاموشی کے حصے دار ہیں۔

آخر میں میں چاہتی ہوں کہ آنے والی نسلوں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’ وہ وقت جب لوگ گلیوں میں تھے مگر ایوانوں میں خاموشی تھی۔‘‘ یہ تاریخ کا وہ صفحہ ہے جس پر ہمیں اپنا نام کس طرف لکھنا ہے، یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا شورکی طرف یا خاموشی کی طرف۔

یہی وہ موقع ہے جس کے بارے میں فیض صاحب نے کہا تھا۔

جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات سنو

الم رسیدہ ہوں دامن تر کی بات سنو

زباں بریدہ ہوں زخم گلو سے حرف کرو

شکستہ پا ہوں ملال سفر کی بات سنو

مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے

اب التفات نگار سحر کی بات سنو

سحرکی بات، امید سحرکی بات سنو

متعلقہ مضامین

  • شاید کہ اتر جائے تر ے دل میں مر ی بات
  • 5 گنا بڑے دشمن کو شکست دینے کےبعد آج ہم حقیقی یوم آزادی منا رہے ہیں بیرسٹر گوہر
  • باجوڑ میں آپریشن شروع ہوچکا، یہ آپریشنز خیبرپختونخوا کی معدنیات پر قبضے کیلئے ہو رہے ہیں، رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر
  • تین ماہ حراست کا نیا ایکٹ بن گیا، ایسا ہر قانون پی ٹی آئی کیخلاف بنایا جاتا ہے، اسد قیصر
  • پاکستان کا قومی ترانہ: کتنے معروف گلوکاروں نے اس دھن کو اپنی آواز دی؟
  • جشن آزادی منائینگے اور بانی کی آزادی کیلئے آواز اٹھائینگے، بیرسٹر گوہر 
  • گہری خاموشی کا شور
  • ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ یہ کرسیاں اور عہدے عارضی ہیں، ایازصادق
  • آج بانی کی بہنوں اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات نہ ہوئی تو کل پھر سے بائیکاٹ ہوگا: اسد قیصر
  • عوام کی آواز نہیں سنیں گے تو ملک اور جمہوریت کیلئے سنگین خطرات ہوں گے، بیرسٹر گوہر