WE News:
2025-10-04@16:53:25 GMT

’انکل سرگم‘ پُتلا نہیں ضمیر کی آواز تھا

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

وہ صرف پُتلا نہیں تھا، ضمیر کی آواز تھا۔ وہ صرف بچوں کا ساتھی نہیں تھا، بڑوں کا آئینہ بھی تھا۔ وہ انکل سرگم تھا ۔ ۔ ۔ اور اس کے پیچھے کھڑا تھا ایک فنکار، ایک معلم، ایک باشعور مزاح نگار فاروق قیصر۔

فاروق قیصر کو ہم صرف انکل سرگم کے خالق کے طور پر یاد نہیں کرتے، بلکہ ایسے فنکار کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں جس نے سچ کو خندہ پیشانی سے بیان کرنے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کی تخلیق، ان کا قلم، ان کی آواز، سب نے مل کر ایک ایسی شخصیت تراشی جو آج بھی ہمارے معاشرتی شعور میں زندہ ہے۔

انہوں نے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی، پھر رومانیہ میں پتلی تماشے کی تربیت لی اور امریکا سے ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا یہ سفر ہی دراصل ’انکل سرگم‘ کے فکری قد کا مظہر ہے، ایک ایسا کردار جو صرف ہنساتا نہیں بلکہ آئینہ بھی دکھاتا ہے۔

1976 کا وہ دور جب ’کلیاں‘ پروگرام نے پاکستان ٹیلی وژن پر آنکھ کھولی، ٹی وی اسکرین پر نیا اندازِ فکر متعارف ہوا۔ انکل سرگم، مہمان چاچا، شفیق، اور بے بے شکرپیں جیسے کردار صرف بچوں کے ساتھی نہ تھے بلکہ سماج کی ترجمانی کرنے والے کردار تھے۔

شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ پُتلا ’انکل سرگم‘ سماجی ناانصافی، کرپشن، جھوٹ، منافقت اور اقتدار کی بے حسی کے خلاف مضبوط علامتی کردار بن جائے گا۔ وہ سب کردار گویا ہمارے اردگرد کے معاشرتی کرداروں کی پُتلی نما شکلیں تھیں۔ انکل سرگم کا یہ جملہ ’اوئے شفیق! تُو نے وہی حرکت کی جو حکمران ہر بار کرتے ہیں، منہ سے کچھ، دل میں کچھ‘۔

مزید پڑھیں: ایک تھا جلیانوالہ باغ

انکل سرگم کی زبان پنجابی مٹھاس لیے ہوتی، مگر اس میں طنز کی تلخی بھی شامل تھی۔ وہ عوام کی محرومیوں پر مسکراتے ہوئے سوال اٹھاتے، اور بچے جو اکثر عامیانہ لطائف کا شکار ہو جاتے ہیں، ان کے لیے وہ تہذیب اور تفکر کا ذریعہ بن جاتے تھے۔ ان کی تخلیق کردہ دنیا ایک مثال ہے کہ کیسے مزاح اور تہذیب کو اکٹھا پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا فن سستا نہیں تھا، سچا تھا۔ ان کا انداز بلند آہنگ نہیں، بامعنی تھا۔

آج کی دنیا میں طنز اکثر بدتہذیبی سے جاملتا ہے، لیکن فاروق قیصر نے مزاح کو شائستگی کا لباس پہنایا۔ ان کے مکالمے دل کو چھوتے تھے، مگر کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے۔ ان کا مخصوص لہجہ، معصوم شوخی، اور سب سے بڑھ کر طنز میں لپٹی سچائی، ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فن صرف دل بہلانے کا نام نہیں، دل جگانے کا ذریعہ بھی ہے۔ ’جب بھی حکومت بدلتی ہے، صرف تصویر بدلتی ہے، فریم وہی رہتا ہے۔‘

فاروق قیصر صرف پُتلی ساز نہیں تھے، وہ ایک استاد بھی تھے، ایک کارٹونسٹ، ایک کالم نگار، اور سب سے بڑھ کر معاشرتی نبض شناس۔ ان کے تخلیق کردہ کارٹون اخبار کی سب سے مختصر، مگر سب سے زیادہ جامع خبر ہوتے تھے۔

مزید پڑھیں: سپمورن سنگھ کالرا سے گلزار تک

پی ٹی وی کے 2010 کے ایک یادگار انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے بچوں کو کتابوں سے دور اور اسکرین کے قریب کردیا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اسکرین پر وہ دکھائیں جو کتاب سکھاتی ہے۔‘

گوگل نے یکم نومبر 2023 کو فاروق قیصر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنے ہوم پیج پر خصوصی ڈوڈل (Doodle) جاری کیا۔

14 مئی 2021 وہ دن تھا جب یہ آواز خاموش ہوگئی۔ مگر وہ پُتلا، وہ الفاظ، وہ انداز آج بھی ہر اس انسان کو یاد ہے جو کبھی ’کلیاں‘ کے سائے میں ہنسا تھا، یا کسی کارٹون میں اپنا حال دیکھ کر چونکا تھا۔

آج جب ان کی چوتھی برسی ہے، سوچتا ہوں کہ انکل سرگم ہمارے درمیان ہوتے تو ٹی وی پر یہ کہتے ’اوئے شفیق! انکوائری کمیٹی بن گئی ہے، اب حقیقت مرنے سے پہلے دو دفعہ اور مرے گی۔‘ فاروق قیصر نے انکل سرگم کی زبان میں وہ سب کہہ دیا جو ایک عام پاکستانی صرف سوچ سکتا تھا۔

انکل سرگم چلے گئے، مگر جب بھی کوئی ہنسی کے پردے میں سچ کہتا ہے، وہیں کہیں پسِ منظر میں انکل سرگم مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب کوئی بچہ ٹی وی پر چیختے چلاتے کرداروں سے الجھتا ہے، تو ہم فاروق قیصر کو یاد کرتے ہیں، کہ ایک زمانہ تھا جب اسکرین تہذیب سکھاتی تھی۔ فاروق قیصر کو سلام، جو اپنے فن سے جیتے رہے، اور اپنے کردار سے آج بھی زندہ ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

انکل سرگم رولا فاروق قیصر کلیاں ماسی مصیبتے مشکورعلی ہیگا وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انکل سرگم رولا فاروق قیصر کلیاں ماسی مصیبتے مشکورعلی ہیگا وی نیوز فاروق قیصر کو انکل سرگم

پڑھیں:

ٹشو پیپرز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ملک کی آبادی کم و بیش پچیس کروڑ ہے‘ گویا ملک میں ٹشو پیپرز کی تعداد بھی یہی ہے۔ ہم سب ٹشو پیپرز ہیں، ہم میں کوئی خاص ہے اور کوئی عام۔ خواص کو تو امریکا استعمال کرکے پھینک دیتا ہے اور عوام کو حکمران اور استحصال کرنے والا طبقہ استعمال کرکے پھینک دیتا ہے۔ سیٹھ، آجر، باس یہ سب اسی طبقے کے لوگ ہیں جو خود سے کم تر کو استعمال کرتے ہیں اور پھر پھینک دیتے ہیں۔ ان دنوں ٹرمپ کی بہت تعریفیں ہورہی ہیں وہ بھی جنوب ایشاء میں اپنے مفادات کے لیے ہماری بہت تعریفیں کر رہے ہیں۔ جنوب ایشاء میں اسے چاہیے کیا؟ معدینات تو وہ لے چکا‘ اب جان ہی رہ گئی ہے وہ بھی تقریباً لے ہی چکا ہے، بس اب وہم ہی باقی ہے کہ ہم زندہ ہیں‘ اگر ہم زندہ ہوتے تو یوں خوار نہ ہوتے۔ ٹرمپ سے ملاقات کو جو بھی اپنے اعزاز سمجھ رہے ہیں یہ سب ٹشو پیپرز کی مانند استعمال کرکے پھینک دیے جائیں گے۔

امریکا نے اس ملک میں اب تک کیا کچھ نہیں کیا مجال ہے کہ چور چوری کے بعد اپنا داغ چھوڑ جائے یا نشان چھوڑ جائے۔ یہی تو چور کا کمال ہے۔ غزہ میں بھی یہی چور ہے مگر کمال ہے کہ او آئی سی بھی اسی کے گن گا رہی ہے، کشمیر میں یہی چور ہے، کمال ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ثالثی کرائے گا۔ افغانستان کی تباہی میں اس کا پورا وجود لتھڑا پڑا ہے پھر یہاں امن کے لیے اسی کی جانب دیکھا جارہا ہے۔ اس لیے ابھی کچھ ٹشو پیپرز باقی ہیں جنہیں استعمال ہونے کا شوق ہے۔

بھارت کے ساتھ حالیہ معرکہ حق میں کامیابی ملی تھی کہ ہم نے بنیان مرصوص کی صورت اختیار کی‘ اس کے بعد ہم کیوں بکھرے چلے جارہے ہیں؟ ہم کرکٹ میں بھی ہار رہے ہیں؟ وجہ کیا ہے؟ بھارت نے شوشا چھوڑا تھا کہ اب نیو نارمل کی طرف دیکھنا ہے‘ یہ نیو نارمل کیا ہے؟ یہی کہ جو ہندو کہے وہی سچ ہے‘ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ امریکا بھی یہی کہتا ہے نارمل وہی ہے جسے وہ نارمل سمجھے۔ یہاں ہندو اور امریکا دونوں ایک پیج پر ہیں۔ مسلم اور او آئی سی ایک پیج پر کیوں نہیں ہے؟ امریکا اور ہندو کبھی نارمل نہیں رہے یہ ہمیشہ ہی ابنارمل ہی رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ تو واقعی ابنارمل ہیں مگر ہم کیوں ابنارمل ہوئے جارہے ہیں‘ کیوں خوف زدہ ہیں؟ سیاسی میدان سے لے کر کھیل کے میدان تک، ابنارمل ہی ابنارمل ہے۔

کرکٹرز کو چاہیے کہ مثبت کھیل پیش کریں۔ ایک اچھا کھیل، نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں، یہی مومن کی حکمت ہوتی ہے کہ وہ اسے تلاش کرتا رہتا ہے۔ کیا ہم نارمل میں ابنارمل تلاش کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔ ہاں ہماری سرحدوں پر تو ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو کہ بائیس اپریل کی پوزیشن پر واپس آچکے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے لیے اسٹرٹیجک خطرات موجود ہیں‘ بلکہ یہ خطرات جنوب ایشاء میں اب مسلسل بڑھ رہے ہیں‘ ان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ہمیں یہ سوچنا ہے۔ مودی کا نیونارمل ڈاکٹرئن اس کی جنگی سوچ اور اس کا بیانیہ ہے اس تناظر میں حکومت پاکستان کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور سفارتی محاذ پر مودی کے جارحانہ اقدامات کو مستقل بنیادوں پر عالمی برادری کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہندو کی سوچ ہے کہ جنگ چھیڑنے کے لیے ثبوت کی نہیں بلکہ الزام ہی کافی ہوگا۔ بنیادی طورپر یہی مودی کی ڈاکٹرائن ہے یہی ابنارمل ذہن ہے‘ مودی ضرور ایک اور پنگا لینا چاہتا ہے‘ بھارت کی کرکٹ ٹیم نے جو کچھ کیا ہے بے مقصد نہیں ہے۔ یہ کھیلوں کے میدان میں جارحیت پر اترچکے ہیں بہتر یہی ہے کہ یکسو ہو جائیں۔ ایک ہوجائیں اور متحد ہو کر بھارتی جارحانہ ڈاکٹرائن کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور یہ بھی یقین رکھیں کہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پانی ساری دنیا کے لیے لائف لائن ہے‘ مودی کا جنگی جنون ہے کہ وہ پاکستان کے لیے پانی بند کرے گا اور مرضی سے کھولے گا پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو برداشت کرلیں اس خطے میں خدشات بدستور موجود ہیں اور جنگ کے بادل منڈلارہے ہیں کہ اگر مستقبل میں دونوں ممالک میں کشیدگی ہوئی اور حملہ ہوا تو پھر ایک جنگ چھڑ جائے گی جو اتنی خوفناک ہوسکتی ہے کہ الامان الحفیظ… بہتر یہی ہے کہ ہم انسان بن کر، پاکستانی بن کر، مسلمان بن کر سوچیں اور ٹشو پیپرز نہ بنیں۔ اس دنیا کی تاریخ ٹشو پیپرز کے نتائج سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ سے سبق لیں یہی ہم سب کے لیے بہتر راستہ ہوگا۔ ٹرمپ کے لنچ پر قربان ہونا چھوڑیے روکھی سوکھی کھائیے اور عزت کے ساتھ جیئیں۔

میاں منیر احمد سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پنجاب کیلئے آواز اٹھانے پر کبھی معافی نہیں مانگوں گی، وزیراعلیٰ مریم نواز
  • پاکستانی عوام کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے ،اسد قیصر
  • لال اور عبداللہ جان
  • فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت انسانی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے، اولکھ
  • عوام کو اکیلا نہیں چھوڑوں گی اور ان کے حقوق کیلیے آواز بلند کرتی رہوں گی، مریم نواز
  • اسد قیصر کی اسرائیل اور غزہ سے متعلق پالیسی پر حکومت پر شدید تنقید
  • مجوزہ غزہ امن معاہدے کی حمایت، وزیراعظم نے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے،اسد قیصر
  • آشا بھوسلے کو عدالت سے انصاف مل گیا؛ حیران کن تفصیلات سامنے آگئیں
  • مریم نواز کبھی معافی نہیں مانگے گی میرا کام ہی پنجاب کے لیے آواز اٹھانا ہے، وزیراعلی پنجاب
  • ٹشو پیپرز