Express News:
2025-10-05@05:33:01 GMT

گہری خاموشی کا شور

اشاعت کی تاریخ: 13th, August 2025 GMT

دنیا کی زمین پرکچھ نقشے ایسے ہیں جو خون سے بنے ہیں۔ جن پرکھینچی لکیروں کو مٹانے کے لیے تاریخ نے بارہا کوشش کی، مگر یہ لکیریں ہر بار اور گہری ہوگئیں۔ آج ان میں سے ایک لکیر فلسطین کے نقشے پرکھینچی ہے خاص طور پر غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پر جہاں دس مہینوں سے آگ اور بارود کا طوفان ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے ہمیں روز اعداد وشمار دیتے ہیں، فلاں دن اتنے بچے مر گئے، فلاں دن اتنے مکانات ملبے میں بدل گئے مگر یہ اعداد و شمار وہ آنسو نہیں دکھاتے، جو ایک ماں کے چہرے سے بہہ کر اس کے بے جان بچے کے گال کو تر کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو لحد میں اتارنے کے بعد کس طرح زمین پر بیٹھ کر خاموشی سے آسمان کو دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔

 تو جب میں کہتی ہوں کہ دنیا خاموش ہے تو لوگ چونک کر پوچھتے ہیں

’’کیسی خاموشی؟ سڑکوں پر تو لوگ نکلے ہیں لندن سے نیو یارک تک، برلن سے جکارتہ تک‘‘ ہاں سڑکوں پر شور ہے مگر خاموشی وہاں ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ جہاں طاقتور ریاستوں کے ایوان ہیں جہاں بند کمروں میں مستقبل کے سودے طے پاتے ہیں، وہاں یہ شور ایک مدھم سرگوشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔

یہ خاموشی نئی نہیں بوسنیا جل رہا تھا، تو دنیا تشویش میں تھی۔ روانڈا میں نسل کشی ہوئی تو مزید معلومات جمع کرنے کا وقت درکار تھا۔ ویت نام پر نپام برس رہا تھا تو کچھ حکومتیں خاموش اور کچھ غور و فکر میں تھیں۔ اسپین کی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف لڑنے رضاکار تو پہنچے مگر عالمی طاقتیں غیر جانبداری کا جھنڈا لہرائے بیٹھیں رہیں۔ ہر بار مظلوم کے لیے وقت کم اور ظالم کے لیے مہلت زیادہ نکلی۔

آج آسٹریلیا نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔ ایک خوش آیند قدم مگر یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ہزاروں زندگیاں ختم ہو چکی ہیں۔ دس مہینوں میں کتنے بچوں کے جنازے اٹھے کتنی مائیں قبرستانوں میں بیٹھیں، اپنے بچوں کا ماتم کر رہی ہیں اور کتنی بستیاں نقشے سے مٹ گئیں۔ یہ اعلان ان سب کو واپس نہیں لا سکتا یہ ایک علامت ضرور ہے، مگر ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ علامت پہلے کیوں نہ دی گئی؟

بائیں بازو کے لیے یہ سوال بنیادی ہے کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ اگر انسانی جان سے زیادہ قیمتی سرمایہ، اسلحہ یا طاقت ہے، تو یہ دنیا دراصل ایک بڑی منڈی ہے جہاں انسان محض سامانِ فروخت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی سیاست دونوں کو جنگ میں فائدہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسٹاک بڑھتے ہیں، تعمیراتی کمپنیاں جنگ زدہ علاقوں کی بحالی کے نام پر معاہدے جیتتی ہیں اور وسائل سے بھرے علاقے معاشی اصلاحات کے بہانے نو آبادیاتی کنٹرول میں لے لیے جاتے ہیں۔

خاموشی محض الفاظ نہ بولنے کا نام نہیں، یہ ایک سیاسی ہتھیار ہے، یہ ظالم کو طاقتور بناتی ہے اور مظلوم کو تنہا کر دیتی ہے۔ یہ انصاف کو ملتوی کرتی ہے اور ملتوی ہونے والا انصاف اکثر انصاف نہیں رہتا۔ یہ وہی خاموشی ہے جو نازی جرمنی کے ابتدائی برسوں میں تھی جو چلی میں پنوشے کے اقتدار کے دوران تھی جو عراق پر حملے کے وقت تھی اور آج یہ خاموشی غزہ کے اوپر ایک سیاہ بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔

عوام کی آواز گلیوں میں گونجتی ہے، پلے کارڈ، بینر، نعرے مگر ایوانوں تک پہنچنے سے پہلے یہ شورکہیں دب جاتا ہے۔ جیسے دریا کا پانی کسی بند میں روک دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس بند کو کون توڑے گا ؟ اگر یہ بند نہ ٹوٹا تو کل یہ خاموشی ہمارے اپنے دروازے پر بھی آ کر بیٹھ جائے گی۔

غزہ کے اسپتالوں میں دوا نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں۔ بچے ماں کی کوکھ سے سیدھا قبر کی مٹی تک کا سفرکر رہے ہیں۔ ان کے لیے بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں لکھے حقوق محض الفاظ ہیں اور عالمی طاقتیں یا تو تماشائی ہیں یا شریکِ جرم۔ کچھ حکومتیں تشویش کے بیانات جاری کرتی ہیں کچھ دونوں طرف کے تشدد کی بات کر کے توازن قائم کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عوامی احتجاج اگر مسلسل اور منظم ہو تو وہ ایوانوں کے فیصلے بدل سکتا ہے۔ ویت نام کی جنگ اسی وقت ختم ہوئی جب امریکی عوام کی آواز امریکی کانگریس کے اندرگونجی۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اسی وقت ہٹی جب دنیا بھر کے عوام نے حکومتوں کو معاشی بائیکاٹ پر مجبور کیا۔ آج غزہ کے لیے بھی یہی راستہ ہے محض سڑکوں پر شور نہیں بلکہ حکومتوں پر مسلسل دباؤ۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر خاموشی ایک طرف کی حمایت ہے، اگر ہم ظالم کے خلاف بولتے نہیں تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ہم مظلوم کا ہاتھ نہیں پکڑتے تو ہم اس کے زخم کو گہرا کرتے ہیں اور اگر ہم اپنی حکومتوں سے جواب طلب نہیں کرتے تو ہم اس خاموشی کے حصے دار ہیں۔

آخر میں میں چاہتی ہوں کہ آنے والی نسلوں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’ وہ وقت جب لوگ گلیوں میں تھے مگر ایوانوں میں خاموشی تھی۔‘‘ یہ تاریخ کا وہ صفحہ ہے جس پر ہمیں اپنا نام کس طرف لکھنا ہے، یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا شورکی طرف یا خاموشی کی طرف۔

یہی وہ موقع ہے جس کے بارے میں فیض صاحب نے کہا تھا۔

جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات سنو

الم رسیدہ ہوں دامن تر کی بات سنو

زباں بریدہ ہوں زخم گلو سے حرف کرو

شکستہ پا ہوں ملال سفر کی بات سنو

مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے

اب التفات نگار سحر کی بات سنو

سحرکی بات، امید سحرکی بات سنو

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی بات سنو ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی

کیا آپ کو کسی نوعمر لڑکی یا لڑکے نے بتایا کہ وہ سٹریس اور تنہائی کا شکار ہے؟ آپ نے سوچا ہوگا یہ تو دنیا بھر سے جڑا ہوا ہے، ہزاروں دوست آن لائن ہیں، پھر کیسی تنہائی ؟ یہ ہے جین زی (Gen Z) ، وہ نسل ہے جو 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئی اور آج ان کی عمریں قریباً 13 سے 28 برس کے درمیان ہیں۔

میرے اپنے بچے جین زی سے ہیں تو اس کالم کو ایک ماں کا مکالمہ سمجھا جائے۔ یہ نوجوان موبائل اور ٹیکنالوجی کے حصار میں بڑے ہوئے ہیں۔ ذہین ہیں۔ بہت سے معاملات میں اپنے سے پہلے کی نسل سے آگے ہیں، مگر سماجی سطح پر کوئی خلا بہر طور ان کی زندگیوں میں موجود ہے۔

امریکی ماہرِ نفسیات جین ٹوینج (Jean Twenge) اپنی کتاب iGen میں لکھتی ہیں کہ یہ نسل سوشل میڈیا کے ذریعے ہر وقت جڑی رہتی ہے لیکن عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ تنہا اور بے چین دکھائی دیتی ہے، 2023 کی ایک رپورٹ (Deloitte Global Survey) کے مطابق 46 فیصد جین زی نوجوان روزانہ دباؤ اور اضطراب کا شکار رہتے ہیں اور ماہرین سماجیات انہیں “Loneliest Generation” یعنی سب سے تنہا نسل قرار دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں:’لائیو چیٹ نوجوان نسل کو تباہ کر رہی ہے‘،پنجاب اسمبلی میں ٹک ٹاک پر پابندی کی قرارداد جمع

سوال یہ ہے کہ آخر یہ نسل اتنی اکیلی کیوں ہے؟ جب کہ ان کے اردگرد دنیا سکڑ کر جام جم میں آگئی ہے۔ یہ صبح اٹھتے ہی اپنا موبائل کھولتے ہیں اور ان کی مرضی کی دنیا، مرضی کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں ۔ ہماری نسل یا اس سے پچھلی نسل کو یہ ’میری دنیا، میری مرضی‘ والی سہولت میسر نہ تھی۔

ہمارے بچپن میں دوست، محلے دار بلا تفریق ساتھ کھیلا کرتے۔ ساتھ پڑھا کرتے۔ کوئی زیادہ امیر کوئی مڈل کلاس کسی کا گھر تنگی معاش کا شکار ، اگر کبھی مڈل کلاس بچہ اپنا موازنہ امیر دوست سے کرتا تو ماں باپ کے پاس وہی گھڑے گھڑائے جواب ہوتے، ’بیٹا قناعت اختیار کرو، اپنے جیسوں میں دوستی کرو، ان کی قسمت ان کے ساتھ ہماری قسمت ہمارے ساتھ‘ اور مزے کی بات ہماری اکثریت مان بھی جاتی۔

جین زی کو آپ اس قسم کی فرسودہ مثالیں نہیں دے سکتے۔ ان کے دور کا ایک بڑا المیہ ہے کمپیریزن/موازنہ کلچر، جو شاید پہلے مین اسٹریم نہیں تھا۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں سے مقابلہ اور موازنہ اب ان کے رہن سہن کا حصہ ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل کو جھوٹے پروپیگنڈے سے بچانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اپنا کردار ادا کرے، وزیراعظم شہباز شریف

اس تنہائی کی ایک بڑی وجہ بہت سارے غیر اہم، غیر متعلقہ لوگوں اور معلومات تک فوری رسائی ہے۔ ان کے دن کا بڑا حصہ انسٹاگرام، فیس بک اور ٹک ٹاک پر گزرتا ہے۔ وہاں ہمیں زیادہ تر جھوٹ یا آدھا سچ دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے سے بات بات پر لڑنے والے میاں بیوی، سوشل میڈیا پر بغل گیر ہوتے وڈیو، تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، سر عام اظہار محبت کرتے ہیں۔

لوگ کامیابی، خوشی، چمک دمک، شادیاں، مہنگے کپڑے، گاڑیاں دکھائیں گے تو کیا وہ کچے ذہن پر اثر نہ کریں گی؟ معصوم ذہن یہی سوچے گا کہ زندگی یہی ہے، اور پھر سوچے گا میری زندگی ایسی کیوں نہیں؟ نتیجتاً اپنے آپ کو کمتر سمجھنے لگے گا۔ یہی وہ comparison culture ہے جو بے سکون کرتا ہے۔ زندگی سے توقعات بڑھاتا ہے، خواب اور حقیقت کا فرق مٹا دیتا ہے۔

نفسیات دان کہتے ہیں کہ جب کوئی ہر وقت دوسروں کی کامیابی کو معیار بنائے تو اس کا نتیجہ anxiety اور depression کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اسی کیفیت نے آج جین زی کو اپنے ہی بنائے سراب کا قیدی بنا رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: نوجوان نسل میں نفرت اور مایوسی پھیلانے والے عناصر کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے، صدر آصف زرداری

تنہائی کی ایک اور بڑی وجہ شاید صبر کا نہ ہونا ہے۔ صبر ایسا کمال وصف ہے کہ یہ انسانی دماغ کے لیے سب سے بڑا anti-depressant ہے۔ جین زی کو فوری نتائج کی جلدی ہوتی ہے۔ محبت ہے تو فوری اظہار ہو، نفرت ہے تو منہ پر کہہ دو، بالکل اسی طرح جیسے پوسٹ لگا کر فوری لائیکس اور کمنٹس کا انتظار کیا جاتا ہے جسے ماہرین instant gratification بھی کہتے ہیں۔

یہ نسل فوری نتیجہ چاہتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہے، پیچیدہ ہے، تعلقات، رشتوں، دوستیوں میں آئیڈیل ملنا یا آئیڈیل حالات نصیب ہونا، قریباً ناممکن ہے۔ رشتوں کی پیچیدہ گرہیں اگر ہاتھوں سے کھولنی ہیں تو سوچنے، غور کرنے، دوسرے کی بات سننے، دوسرے کے جوتوں میں اپنا پیر رکھنے یعنی empathise کرنے سے ہی ممکن ہے۔

سمجھداری اور صبر کا کوئی نعم البدل نہیں ، جین زی کو فوری ری ایکشن دینے کی عادت ہے، یہ عادت تعلق اور دوستیوں میں دراڑ ڈالتی ہے۔ منہ پھٹ ہونا کوئی طرہ امتیاز نہیں۔ جب آپ سب سے ذرا ذرا سی بات پر نالاں رہیں گے تو تنہا ہی رہ جائیں گے ناں۔ کیا خیال ہے؟ محبت ہو، رشتہ ہو یا پروفیشنل کامیابی، یہ سب صبر، سمجھداری اور وقت مانگتی ہیں۔

مزید پڑھیں: چین نے سوشل میڈیا پر سختی کیوں بڑھا دی؟

یہی عادت انہیں ورک پلیس پر بھی مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک پراجیکٹ جسے ہفتوں یا مہینوں لگنے ہیں، وہ چاہتے ہیں کل ختم ہو جائے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو مایوسی اور دباؤ کا احساس بڑھتا ہے۔ یوں فوری خوشی کی چاہ انہیں مسلسل ذہنی تناؤ میں رکھتی ہے۔

اس نسل کا کمال یہ ہے کہ کھل کر ذہنی صحت پر بات تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) میں کمزور دکھائی دیتی ہے۔ ایک دوست کے غصے کو برداشت کرنا، نفسیاتی بیماریوں کے شکار باس کے ساتھ کام کرنا اور اچھا کام کرنا، میاں بیوی کے درمیان مسائل، لڑائیوں میں درمیانی رستہ نکالنا، رشتوں کی نزاکت کو سمجھنا، یا اختلاف کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا۔ یہ سب چیزیں مشکل ہیں۔

یہ آمنے سامنے مکالمے سے حل ہوتی ہیں، ٹیکسٹ میسج پر نہ جذبات کی ٹھیک ترجمانی ہوتی ہے نہ باڈی لینگویج کے ذریعے بات پہنچائی جا سکتی ہے۔ اب ملاقات سے گریز ہے اور مکالمے کا رواج کمزور ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ کہ فیس بک پوسٹ لگائی جاتی ہے کہ ” feeling alone with 99 others”

کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں

جاری ہے ۔۔۔۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

قرۃ العین حیدر

تنہائی کا شکار ٹوئٹر جین زی سٹریس سوشل میڈیا فیس بک نوجوان نسل

متعلقہ مضامین

  • لاہور کی تاریخی آندھی، جب دن کے وقت رات ہوگئی
  • بچے اکیلے نہیں جاتے
  • ہم بڑے لوگ کیوں پیدا نہیں کررہے؟
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • یہ بربریت آخرکب تک؟
  • شعیب ملک نے ثنا جاوید سے علیحدگی کی خبروں پر خاموشی توڑ دی
  • جین زی (Gen Z) کی تنہائی اور بے چینی
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • گریٹا تھن برگ: صنفِ نازک میں مردِ آہن