دنیا کی زمین پرکچھ نقشے ایسے ہیں جو خون سے بنے ہیں۔ جن پرکھینچی لکیروں کو مٹانے کے لیے تاریخ نے بارہا کوشش کی، مگر یہ لکیریں ہر بار اور گہری ہوگئیں۔ آج ان میں سے ایک لکیر فلسطین کے نقشے پرکھینچی ہے خاص طور پر غزہ کی اس چھوٹی سی پٹی پر جہاں دس مہینوں سے آگ اور بارود کا طوفان ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے ہمیں روز اعداد وشمار دیتے ہیں، فلاں دن اتنے بچے مر گئے، فلاں دن اتنے مکانات ملبے میں بدل گئے مگر یہ اعداد و شمار وہ آنسو نہیں دکھاتے، جو ایک ماں کے چہرے سے بہہ کر اس کے بے جان بچے کے گال کو تر کرتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کو لحد میں اتارنے کے بعد کس طرح زمین پر بیٹھ کر خاموشی سے آسمان کو دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں۔
تو جب میں کہتی ہوں کہ دنیا خاموش ہے تو لوگ چونک کر پوچھتے ہیں
’’کیسی خاموشی؟ سڑکوں پر تو لوگ نکلے ہیں لندن سے نیو یارک تک، برلن سے جکارتہ تک‘‘ ہاں سڑکوں پر شور ہے مگر خاموشی وہاں ہے جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔ جہاں طاقتور ریاستوں کے ایوان ہیں جہاں بند کمروں میں مستقبل کے سودے طے پاتے ہیں، وہاں یہ شور ایک مدھم سرگوشی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔
یہ خاموشی نئی نہیں بوسنیا جل رہا تھا، تو دنیا تشویش میں تھی۔ روانڈا میں نسل کشی ہوئی تو مزید معلومات جمع کرنے کا وقت درکار تھا۔ ویت نام پر نپام برس رہا تھا تو کچھ حکومتیں خاموش اور کچھ غور و فکر میں تھیں۔ اسپین کی خانہ جنگی میں فاشزم کے خلاف لڑنے رضاکار تو پہنچے مگر عالمی طاقتیں غیر جانبداری کا جھنڈا لہرائے بیٹھیں رہیں۔ ہر بار مظلوم کے لیے وقت کم اور ظالم کے لیے مہلت زیادہ نکلی۔
آج آسٹریلیا نے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرے گا۔ ایک خوش آیند قدم مگر یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب ہزاروں زندگیاں ختم ہو چکی ہیں۔ دس مہینوں میں کتنے بچوں کے جنازے اٹھے کتنی مائیں قبرستانوں میں بیٹھیں، اپنے بچوں کا ماتم کر رہی ہیں اور کتنی بستیاں نقشے سے مٹ گئیں۔ یہ اعلان ان سب کو واپس نہیں لا سکتا یہ ایک علامت ضرور ہے، مگر ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ علامت پہلے کیوں نہ دی گئی؟
بائیں بازو کے لیے یہ سوال بنیادی ہے کہ انسانی جان کی قیمت کیا ہے؟ اگر انسانی جان سے زیادہ قیمتی سرمایہ، اسلحہ یا طاقت ہے، تو یہ دنیا دراصل ایک بڑی منڈی ہے جہاں انسان محض سامانِ فروخت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی سیاست دونوں کو جنگ میں فائدہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں کے اسٹاک بڑھتے ہیں، تعمیراتی کمپنیاں جنگ زدہ علاقوں کی بحالی کے نام پر معاہدے جیتتی ہیں اور وسائل سے بھرے علاقے معاشی اصلاحات کے بہانے نو آبادیاتی کنٹرول میں لے لیے جاتے ہیں۔
خاموشی محض الفاظ نہ بولنے کا نام نہیں، یہ ایک سیاسی ہتھیار ہے، یہ ظالم کو طاقتور بناتی ہے اور مظلوم کو تنہا کر دیتی ہے۔ یہ انصاف کو ملتوی کرتی ہے اور ملتوی ہونے والا انصاف اکثر انصاف نہیں رہتا۔ یہ وہی خاموشی ہے جو نازی جرمنی کے ابتدائی برسوں میں تھی جو چلی میں پنوشے کے اقتدار کے دوران تھی جو عراق پر حملے کے وقت تھی اور آج یہ خاموشی غزہ کے اوپر ایک سیاہ بادل کی طرح چھائی ہوئی ہے۔
عوام کی آواز گلیوں میں گونجتی ہے، پلے کارڈ، بینر، نعرے مگر ایوانوں تک پہنچنے سے پہلے یہ شورکہیں دب جاتا ہے۔ جیسے دریا کا پانی کسی بند میں روک دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس بند کو کون توڑے گا ؟ اگر یہ بند نہ ٹوٹا تو کل یہ خاموشی ہمارے اپنے دروازے پر بھی آ کر بیٹھ جائے گی۔
غزہ کے اسپتالوں میں دوا نہیں، بجلی نہیں، پانی نہیں۔ بچے ماں کی کوکھ سے سیدھا قبر کی مٹی تک کا سفرکر رہے ہیں۔ ان کے لیے بین الاقوامی قانون کی کتابوں میں لکھے حقوق محض الفاظ ہیں اور عالمی طاقتیں یا تو تماشائی ہیں یا شریکِ جرم۔ کچھ حکومتیں تشویش کے بیانات جاری کرتی ہیں کچھ دونوں طرف کے تشدد کی بات کر کے توازن قائم کرنے کا ڈھونگ رچاتی ہیں۔لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ عوامی احتجاج اگر مسلسل اور منظم ہو تو وہ ایوانوں کے فیصلے بدل سکتا ہے۔ ویت نام کی جنگ اسی وقت ختم ہوئی جب امریکی عوام کی آواز امریکی کانگریس کے اندرگونجی۔ جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اسی وقت ہٹی جب دنیا بھر کے عوام نے حکومتوں کو معاشی بائیکاٹ پر مجبور کیا۔ آج غزہ کے لیے بھی یہی راستہ ہے محض سڑکوں پر شور نہیں بلکہ حکومتوں پر مسلسل دباؤ۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر خاموشی ایک طرف کی حمایت ہے، اگر ہم ظالم کے خلاف بولتے نہیں تو ہم اس کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ہم مظلوم کا ہاتھ نہیں پکڑتے تو ہم اس کے زخم کو گہرا کرتے ہیں اور اگر ہم اپنی حکومتوں سے جواب طلب نہیں کرتے تو ہم اس خاموشی کے حصے دار ہیں۔
آخر میں میں چاہتی ہوں کہ آنے والی نسلوں کو یہ نہ کہنا پڑے کہ ’’ وہ وقت جب لوگ گلیوں میں تھے مگر ایوانوں میں خاموشی تھی۔‘‘ یہ تاریخ کا وہ صفحہ ہے جس پر ہمیں اپنا نام کس طرف لکھنا ہے، یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا شورکی طرف یا خاموشی کی طرف۔
یہی وہ موقع ہے جس کے بارے میں فیض صاحب نے کہا تھا۔
جگر دریدہ ہوں چاک جگر کی بات سنو
الم رسیدہ ہوں دامن تر کی بات سنو
زباں بریدہ ہوں زخم گلو سے حرف کرو
شکستہ پا ہوں ملال سفر کی بات سنو
مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے
اب التفات نگار سحر کی بات سنو
سحرکی بات، امید سحرکی بات سنو
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی بات سنو ہیں اور کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کا مخمصہ
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے یہ توقع کسی کو نہیں تھی وہ اتنا عرصہ جیل میں گزار سکیں گے، ان کے متعلق تمام تجزیے اور تبصرے غلط ثابت ہوئے ہیں، رواں ماہ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں 2سال مکمل کرلیے ہیں اور اب ان کے سیاسی حریف بھی اس بات کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان کے بارے ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں، عمران خان نے نہ صرف 2سال جیل کاٹی بلکہ بہادری کے ساتھ کاٹی ہے۔
گزشتہ 2سال میں کل ملا کے عمران خان کے خلاف 4کیسز کا ٹرائل ہوا جن میں سائفر کیس، توشہ خانہ کیس، عدت میں نکاح کیس اور 190ملین پاونڈ کیس سر فہرست ہیں، توشہ خانہ ٹو اور جی ایچ کیو حملہ کیس سمیت 9مئی کے دیگر کیسز کا ٹرائل تاحال جاری ہے۔ سائفر کیس، توشہ خانہ کیس اور عدت میں نکاح کیس کی سزائیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوئی تو عدالت نے عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کی اہلیہ کو تینوں کیسز میں بری کردیا جبکہ 190 ملین پاونڈ کیس میں دونوں میاں بیوی کی سزا ابھی تک برقرار ہے۔
190 ملین پاونڈ کیس میں عمران خان کو 14 سال جبکہ انکی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، عمران خان کی قانونی ٹیم نے 190 ملین پاونڈ کیس کی سزا کو بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، توشہ خانہ کا دوسرا کیس بھی کوئی تگڑا کیس نہیں اور 9مئی جی ایچ کیو حملہ کیس ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، عمران خان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا فری اینڈ فیئر ٹرائل ہوا یا نہیں اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی کم سے کم تین کیسز میں واضع اوبزرویشن موجود ہیں جن میں عمران خان بری ہوچکے ہیں۔
2سال میں عمران خان سے کوئی 100 سے زائد ملاقاتیں رہیں، دوران ٹرائل ان کے رویے، انداز گفتگو، باڈی لینگویج، سیاسی موقف، قومی مسائل پر نقطہ نظر کو جاننے کا قریب سے موقع ملا، اس بات میں کوئی شک نہیں عمران خان کی شخصیت میں ضد اور انا کوٹ کوٹ کے بھری ہے اور وہ ہر معاملے میں اپنی رائے کو دوسروں کی رائے پر مقدم سمجھتے ہیں۔ جیل ٹرائل کے دوران ان کو ججز سے بھی لڑتے دیکھا، پراسیکیوشن سے بھی لڑتے دیکھا، اپنے وکلاء کو بھی ڈانٹتے دیکھا یہاں تک کہ اگر کوئی صحافی تلخ سوال کرے تو اس پر بھی سخت ردعمل عمل دیتے دیکھا ہے۔
2سال میں ہم نے دیکھا کہ عمران خان کسی کی بات نہیں سنتے نہ کسی کو خاطر میں لاتے ہیں، کمرہ عدالت میں اگر کسی شخصیت کا کنٹرول عمران خان پر دیکھا گیا ہے تو وہ صرف ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ہیں۔ بشریٰ بی بی کی کوئی بات عمران خان نظر انداز نہیں کرتے ان کی ہر بات سنجیدگی سے سنتے ہیں، کئی بار عمران خان کو بشری بی بی کے ساتھ سرگوشیاں کرتے بھی دیکھا گیا ہے، لیکن یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی بشری بی بی کی ضد عمران خان سے بھی دو درجے اوپر ہے، اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن ایک واقعہ آپکے سامنے رکھتے ہیں۔
ایک مرتبہ 190ملین پاونڈ کیس کی سماعت ملتوی کرکے بشری بی بی کو اطلاع نہیں کی گئی تھی جس پر ان کو شدید غصہ تھا، کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی بشری بی بی کے تیور صاف دکھائی دے رہے تھے، عموماً بشریٰ بی بی جب بھی اپنے سیل سے کمرہ عدالت لائی جاتی ہیں تو عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر ان سے گلے ملتے ہیں لیکن حال احوال پوچھتے ہیں پھر دونوں اپنی اپنی نشستوں پر جاکر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں تھا، بشری بی بی کمرہ عدالت آتے ہی الگ تھلگ بیٹھ گئیں، ہم یہ توقع کررہے تھے عمران خان اٹھ کر ان کے پاس آئینگے لیکن عمران خان اپنی بہنوں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں واقع فیملی کارنر میں بیٹھے رہے۔
دس سے پندرہ منٹ گزرے بشریٰ بی بی کے پاس نہ کوئی آیا نہ انہوں نے کسی کو کچھ کہا، بالآخر بشریٰ بی بی نے اپنے ایک وکیل سے پوچھا کہ وہ جج صاحب سے بات کرنا چاہتی ہیں، احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے اجازت دی تو بشریٰ بی بی اپنے وکیل کے ہمراہ روسٹرم پر کھڑی ہوگئیں اور تلخ لہجے میں جج صاحب سے بولیں کہ وہ مسلسل ناانصافی کا شکار ہورہی ہیں گزشتہ سماعت ملتوی کرنے کے بارے انہیں کسی نے کچھ نہیں بتایا لہذا وہ عدالت پر عدم اعتماد کررہی ہیں۔
بشریٰ بی بی کا الگ تھلگ بیٹھنا، کسی سے کوئی بات نہ کرنا، شدید غصے میں روسٹرم پر جانا ہمارے لیے حیران کن تھا کیونکہ بشری بی بی کی جانب سے ایسا رویہ پہلی بار کمرہ عدالت میں سامنے آیا، بشریٰ بی بی کا جج صاحب سے مکالمہ جاری تھا عمران خان بھی اٹھ کر روسٹرم پر چلے گئے اور بشری بی بی کے ساتھ کھڑے ہوگئے، عمران خان نے جب مسئلہ سنا تو انہوں نے اور ان کے وکلاء نے جج صاحب سے کہا سماعت میں وقفہ کرکے ہمیں وقت دیا جائے ہم بشریٰ بی بی کو قائل کرلیں گے۔ عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا لیکن بشریٰ بی بی روسٹرم سے اتر کر واپس اسی جگہ بیٹھ گئیں جہاں پہلے الگ تھلگ بیٹھی تھیں۔
عمران خان نے 2مرتبہ بشریٰ بی بی کو اشارہ کیا کہ وہ فیملی کارنر کی طرف آئیں لیکن بشریٰ بی بی نے عمران خان کی بات کو نظر انداز کیا، خیر عدالت میں تین تین گھنٹے کے 2وقفوں کے بعد بالآخر بشریٰ بی بی کو منا لیا گیا اور انہوں نے عدالت پر عدم اعتماد کی درخواست واپس لے لی، ایسے ہی کئی اور واقعات مشاہدے میں آئے جس میں بشری بی بی کی ضد اور انا کا اندازہ ہوا۔
عمران خان کی سیاسی حکمت عملی کا جہاں تک تعلق ہے اس بات میں کوئی شک نہیں عمران خان شروع دن سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں، لیکن 8 فروری 2024 کے عام انتخابات سے قبل عمران خان کا یہ موقف تھا انہیں مذاکرات کی ضرورت نہیں اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے وہ خود آکے ان سے مذاکرات کرے، عام انتخابات کے نتائج کے بعد عمران خان کو یہ اعتماد حاصل ہوا کہ عوام ان کے ساتھ ہے لہذا مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، اب عوام کی طاقت سے ہی وہ جیل سے باہر آئینگے لیکن عام انتخابات کے 3ماہ بعد جب خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے حکومت سمبھالی تو عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے 3رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں عمر ایوب، شبلی فراز اور علی امین گنڈا پور شامل تھے۔
علی امین گنڈا پور نے کئی مرتبہ اس بات کا برملا اظہار کیا ان کے اسٹیبلشمنٹ سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطے ہیں اور وہ عمران خان کی رہائی کی کوشش کررہے ہیں، اس مذاکراتی کمیٹی کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلنے پر عمران خان مایوس ہوئے، پھر انہوں نے موجودہ آرمی چیف کو براہ راست پیغامات دینا شروع کیے کہ آپ نیوٹرل ہوجائیں، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پی ٹی آئی اور فوج کی لڑائی کرانا چاہتے ہیں، فوج اپنا نمائندہ مقرر کرے ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
جب ان پیغامات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تو عمران خان نے 22 اگست 2024 کو اسلام آباد میں جلسے کی کال دے دی، 21 اور 22 اگست کی رات رابطے تیز ہوئے تو علی امین گنڈا پور کے ذریعے اعظم خان سواتی اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان 22 اگست کی صبح اڈیالہ جیل عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے، یہ پہلا موقع تھا جب اڈیالہ جیل میں ملاقات کے لیے صبح 7بجے ملاقات کا انتظام کیا گیا، ملاقات کے بعد اعظم خان سواتی نے بیرسٹر گوہر خان کے ہمراہ اڈیالہ جیل کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کی ہدایت پر جلسہ منسوخ کردیا گیا ہے۔
اعظم سواتی اور بیرسٹر گوہر خان کی ملاقات اور جلسہ منسوخ ہونے پر پی ٹی آئی اور عمران خان کی بہن کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا، لیکن اگلے دن عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں کو بتایا ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے استوار ہوچکے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر جلسہ منسوخ کیا ہے اب یہ جلسہ پر امن طور پر 8 ستمبر 2024 کو سنگ جانی کے مقام پر منعقد ہوگا، 8 ستمبر کو جب پی ٹی آئی نے جلسے کے لیے اسلام آباد کا رخ کیا تو انتظامیہ اور پولیس حرکت میں آئی۔ پارلیمنٹ سے ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہوئیں پھر سنگ جانی کے مقام پر جلسے کی این او سی کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کا آپس میں ٹکراو ہوا، عمران خان نے جلسے میں رکاوٹ پیدا کرنے اور پارٹی لیڈرز کی گرفتاریوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اب اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہونگے انہوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے لہذا مذاکرات کے تمام دروازے بند ہیں۔
پھر عمران خان نے 4 اکتوبر اور 28ستمبر کی احتجاجی کال دی لیکن اسے کوئی فرق نہیں پڑا، 28 ستمبر کو علی امین گنڈا پور جب قافلہ لیکر موٹروے سے واپس روانہ ہوئے تو اگلے دن اعظم خان سواتی عمران خان سے ملنے جیل پہنچے، کمرہ عدالت پہنچتے ہی عمران خان اور بشریٰ بی بی نے اعظم سواتی پر چڑھائی کی کہ احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیوں ہوا قافلہ کیوں واپس روانہ ہوا۔
24 اکتوبر 2024 کو توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالت نے بشری بی بی کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیے، بشری بی بی اڈیالہ جیل سے رہائی کے بعد پہلے کچھ دیر بنی گالہ چلی گئیں پھر خیبرپختونخوا روانہ ہوگئیں، بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعد عمران خان نے 13 نومبر کو اسلام آباد کی فائنل کال کا اعلان کردیا اور پارٹی کو 24 نومبر 2024 کے احتجاج کی تیاری کی ہدایت کردی۔
عمران خان خان سے جب پوچھا گیا احتجاج کون لیڈ کرے تو عمران خان نے کہا اس کے لیے انہوں نے 5رکنی کمیٹی بنائی ہے لیکن وہ کمیٹی کے ارکان کا نام نہیں بتائیں گے کیونکہ ان کی گرفتاری کا خدشہ ہے، 24 نومبر کے احتجاج سے قبل بیک ڈور چینل سے بیرسٹر گوہر خان، علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر سیف ایک مرتبہ پھر متحرک ہوئے اور وہ مذاکرات کی پیشکش لیکر اڈیالہ جیل عمران خان کے پاس پہنچے، بیرسٹر گوہر خان اور علی امین گنڈا پور کی عمران خان سے 2طویل ملاقاتیں ہوئیں، 24 نومبر کے احتجاج سے قبل 23 نومبر کی رات بیرسٹر سیف اور بیرسٹر گوہر خان کی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں آخری نشست ہوئی جس میں بقول بیرسٹر گوہر خان کے انہوں نے عمران خان کو بتایا تمام چیزیں طے ہوگئی ہیں پی ٹی آئی کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا گیا ہے، مطالبات پر عملدرآمد مختلف فیزز میں ہوگا۔
بقول بیرسٹر گوہر خان کے عمران خان اس آخری نشست میں ہونے والی گفتگو پر راضی ہوگئے تھے، لیکن بشریٰ بی بی نے یہ ضد لگائی کہ عمران خان کا وڈیو پیغام جب تک نہیں آئے گا وہ کسی کی بات پر یقین نہیں کریں گی، 24 نومبر کو خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کا قافلہ نکلا تو بشریٰ بی بی منظر عام پر آگئیں اور انہوں نے اسلام آباد تک ایک بڑے قافلے کو لیڈ کیا۔ 24 نومبر کا احتجاج 26 نومبر کو اسلام آباد پہنچتا ہے تو حکومت کی جانب سے احتجاجی مظاہرین کے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ ہوتا ہے، اسلام آباد ریڈ زون کو مکمل سیل کیا جاتا ہے اور مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے، پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں اور پی ٹی آئی کارکنان کی شہادتیں واقع ہوتی ہیں لیکن بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور قافلے کو بیچ راہ میں چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے فرار پر پی ٹی آئی کے اندر سے سخت ردعمل آتا ہے، 26 نومبر کے احتجاج کے بعد جب عمران خان سے بات ہوئی تو ان سے پوچھا گیا آپ تو کہہ رہے ہیں بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں انہوں نے تو بڑا سیاسی قافلہ لیڈ کیا ہے، عمران خان سے یہ بھی پوچھا گیا بیرسٹر گوہر خان اور بیرسٹر سیف سے ملاقات میں آپ قائل ہوئے تھے احتجاج کو محدود کرنے پر؟ عمران خان نے کہا انہوں نے احتجاج کے حوالے سے اصل حکمت عملی بشری بی بی کو بتائی تھی، بشریٰ بی بی کو ساری حکمت عملی بتائی تھی کب کہاں سے کس طرح اسلام آباد پہنچنا ہے وہ سیاست میں نہیں میری اہلیہ کی حیثیت سے ظلم کے خلاف نکلی ہیں۔
26 نومبر کے احتجاج کے بعد 23 دسمبر 2024 کو پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مذاکرات کا نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے، پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے مطالبے پر عمران خان سے ان کی 7رکنی مذاکراتی کمیٹی کی 2ملاقاتیں کروائی جاتی ہیں، ایک ملاقات 26 دسمبر دوسری ملاقات 12 جنوری کو کرائی جاتی ہے، حکومت کے ساتھ پی ٹی آئی کے مذاکرات کے 3راونڈ ہوتے ہیں لیکن پی ٹی آئی مذاکرات کے چوتھے راونڈ میں بیٹھنے سے قبل یہ کہہ کر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتی ہے جب تک 26 نومبر اور 9مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے یوں مذاکرات کا یہ سلسلہ بھی بے نتیجہ ختم ہوتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کو جہاں قومی سیاست میں اس وقت بڑے چیلینجز کا سامنا ہے وہیں پارٹی کے اندر گروہ بندیاں بھی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں، خیبر پختونخوا میں علی امین گنڈا پور سے صوبائی صدارت لیکر جنید اکبر کو دینی کی بات ہو یا پنجاب میں حماد اظہر سے ذمہ داریاں لیکر عالیہ حمزہ کو دینے کی بات ہو، شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کی بات ہو یا مسلم لیگ ن کے محمد زبیر کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کی بات ہو، کوئی بڑا اپوزیشن الائنس بنانے میں ناکامی کی بات ہو یا پارلیمنٹ میں حکومتی خواہش کے مطابق قانون سازی کا عمل رکوانے میں ناکامی کی بات ہو، مجموعی طور پر پی ٹی آئی گزشتہ تین سال میں کوئی بڑا سیاسی ہدف حاصل نہیں کرسکی، عمران خان کو بھی اکثر گلہ رہتا ہے کہ انکی باہر بیٹھی لیڈر شپ کی کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ انہوں نے کئی مواقع پر کھل کے اپنی لیڈر شپ کو چارج شیٹ کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی لیڈر شپ یہ شکوہ کرتی ہے کہ عمران خان کی بہن علیمہ خان کا پارٹی معاملات میں اچھا خاصا عمل دخل ہے، کئی رہنماوں نے آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے بتایا علیمہ خان ہر اہم موقع پر رکاوٹ کھڑی کردیتی ہیں۔
سوشل میڈیا اور اوورسیز لیڈر شپ پر علیمہ خان حاوی ہیں، جیل ملاقاتوں پر بھی پی ٹی آئی کی بیشتر لیڈر شپ کو اعتراضات ہیں کئی اہم رہنماوں کے مطابق جن لوگوں کی عمران خان تک رسائی ہے وہ انہیں مکمل معلومات نہیں پہنچاتے الٹا مس لیڈ کرتے ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم سے قبل پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کو عدالتوں سے کسی نہ کسی صورت ریلیف کی امید رہتی تھی اور کئی کیسز میں عمران خان ریلیف حاصل کر بھی چکے ہیں، لیکن اب عمران خان عدالتوں سے بھی مایوس ہوچکے ہیں، عمران خان جیل سے کب باہر آتے ہیں اس بارے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن عمران خان سے جب بھی ملاقات ہوئی ہے ان کو ہمیشہ فزیکلی فٹ اور پرامید دیکھا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں