WE News:
2025-12-07@05:34:57 GMT

درختوں کے قتل پر اہل لاہور کی خاموشی

اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT

لاہور میں درختوں کی شامت آتی رہتی ہے، اب یہ ایک معمول کی کارروائی لگتی ہے۔ اب تو بازارِ احتجاج میں مندی کا رجحان ہے لیکن جب ظلم کے ضابطوں پر تحریکیں چلتی تھیں، ان وقتوں میں بھی گرتے درختوں کے ہم درد کم ہی تھے۔

درختوں پر تازہ واردات ناصر باغ میں گزری ہے جہاں پارکنگ پلازہ بنانے کا منصوبہ ہے۔

یہ سب اس شہر میں ہو رہا ہے جسے دنیا کا آلودہ ترین شہر ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل ہوتا رہتا ہے۔ اسموگ سے شہریوں کی سانس اکھڑتی ہے لیکن طرفہ تماشا ہے کہ آلودگی کا سبب بننے والی گاڑیوں کے لیے یہ منصوبہ ان درختوں کی بیخ کنی کی قیمت پر بن رہا ہے جن کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

اس ظلم کے خلاف شد و مد سے آواز نہیں اٹھائی گئی۔

ناصر باغ کے درختوں کی محبت میں گزشتہ دنوں آن جمع ہونے والے حضرات کا جذبہ قابلِ قدر سہی لیکن یہ قلیل تعداد درختوں کے تحفظ کی تحریک کی بنیاد نہیں بن سکتی۔

سب سے زیادہ حیرت مجھے طالب علموں کی بے اعتنائی پر ہے۔

ناصر باغ کے بالکل پاس تین ممتاز تعلیمی ادارے ہیں: پنجاب یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج اور نیشنل کالج آف آرٹس۔ اسلامیہ کالج سول لائنز اور ایم اے او کالج بھی اس سے دور نہیں۔

کاش ان اداروں کے طالب علم متحرک ہوتے، اپنے آپ کو ایک لڑی میں پرو کر احتجاج کرتے پر وہ نسل، جس کے باشعور ہونے کا خوب چرچا رہتا ہے، اس معاملے سے دُور دُور ہی رہی ہے۔

درختوں کے عاشق زار انتظار حسین نے برسوں پہلے اہل وطن کی بے حسی پر جو سوال اٹھایا تھا وہ آج کہیں زیادہ حسب حال ہے:

’وہ دن پاکستان میں کب آئے گا جب یہاں درختوں کو کٹتا دیکھ کر لوگوں کا خون جوش مارے گا اور وہ اپنی دھرتی کے درختوں کی حمایت میں کمربستہ ہو کر سامنے آئیں گے۔‘

اس بیان کا تناظر یہ تھا کہ سنہ 2013 میں استنبول کے تقسیم اسکوائر پر طیب اردوان کی حکومت نے قدیمی پارک میں درخت کاٹ کر فوجی بیرکیں بنانے کا منصوبہ بنایا تو درختوں کے سودائی سراپا احتجاج بن گئے۔ اس کی خبر انتظار صاحب کو پہنچی تو انہوں نے کالم میں لکھا:

’ارے سب سے بڑھ کر تو پاکستان میں درخت مشکل سے دوچار تھے۔ یہاں تو جنگل کے جنگل صاف ہو گئے۔ خود لاہور شہر میں ہمارے دیکھتے دیکھتے کتنے درخت کٹ گئے۔ یہاں جو درختوں کے حامیوں نے ان کی حمایت میں تحریک شروع کر رکھی ہے وہ بس واجبی واجبی ہے۔ ارے درختوں کے لیے لڑائی ایسے لڑی جاتی ہے جیسے ترکی میں لڑی جا رہی ہے۔ شروع میں تو اردوان صاحب نے تیزی ترکی بہت دکھائی تھی اور درختوں کے حامیوں کو بہت ڈرایا دھمکایا تھا مگر درخت پرستوں نے ان دھمکیوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا اور احتجاج نے اتنا زور باندھا کہ اب اس حکومت کی ترکی تمام ہوتی نظر آ رہی ہے۔‘

یہ تحریک پہلے مرحلے کے رولے گولے سے گزر کر خاموشی کے منطقے میں داخل ہو گئی اور اس سے دو دو ہاتھ کرنا حکومت کے لیے پہلے سے بڑھ کر دشوار ہو گیا تھا۔

اسے خاموشی کی مؤثر آواز ایک نوجوان نے دی جو جانب منزل اکیلا ہی چلا تھا لیکن پھر لوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔ انتظار صاحب کو خاموشی کو طرزِ اظہار بنانے والے غیرمعمولی نوجوان اور اس کے عمل نے انسپائر کیا اور وہ ان کے کالم کا موضوع بنا جس کا عنوان تھا:

’وہ تقسیم اسکوائر میں کھڑا ہے اور خاموش ہے۔‘

اس نوجوان کو خراج تحسین پیش کرنے کے پیچھے یہ حسرت بھی نظر آتی ہے کہ کاش ایسی چنگاری ہمارے خاکستر میں بھی ہوتی۔

ترکیہ میں درختوں کو لاحق خطرات سے لاہور میں اردو کے ممتاز ادیب انتظار حسین کو تشویش تھی تو استنبول کے اورحان پاموک کیسے لاتعلق رہ سکتے تھے۔ جن کی نس نس میں یہ شہر بسا ہے۔ اس سے بھرپور تعلق کا اظہار ان کی کتاب ‘استنبول’ میں ہوا ہے۔

اورحان پاموک چند سال پہلے لاہور آئے تو انہوں نے بتایا کہ اسکول کے زمانے سے وہ اقبال اور لاہور سے ایک ساتھ متعارف ہوئے تھے۔ اورحان پاموک کے شہر کے بارے میں فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کا ایک قول پڑھ لیجیے تو پھر ہم آگے چلتے ہیں:

’استنبول عجیب و غریب شہر ہے جس نے استنبول نہیں دیکھا، اس کا جہانِ فانی سے گزر ہی نہیں ہوا۔ میں بیسیوں دفعہ استنبول گیا ہوں لیکن ہر بار اس شہر کی پُراسراریت نے مجھے حیرت زدہ کیا ہے بلکہ شاید خوف زدہ۔ یہ خوف زدگی اس کی تاریخ کے سبب دل میں پیدا ہوتی ہے۔‘

اب آ جاتے ہیں تقسیم اسکوائر کے درختوں کی طرف جس کے بارے میں معروف ادیب آصف فرخی نے اپنے رسالے ’دنیا زاد‘ میں ’درخت، احتجاج اور پاموک‘ کے عنوان سے تحریر میں انتظار حسین کے کالم کا حوالہ بھی دیا تھا اور پاموک کے نیو یارکر میں مختصر مضمون کا ترجمہ بھی میں نقل کیا تھا۔

اس میں پاموک لکھا تھا کہ ان کا خاندان استنبول میں جس عمارت میں رہتا تھا اس کے سامنے 50 سال پرانا پیڑ کھڑا تھا۔ 1975 میں بلدیہ نے سڑک چوڑی کرنے کے لیے درخت کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ بد دماغ افسر شاہی اور مطلق العنان گورنر نے اہل محلہ کی مخالفت کو نظرانداز کیا۔

پاموک نے اس درخت کو بچانے کے لیے اپنے خاندان کی قربانی کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:

’جب اس درخت کے کاٹے جانے کا وقت آیا تو ہمارے خاندان نے پورا دن اور پوری رات سڑک پر گزاری جہاں ہم باری باری اس درخت کی حفاظت کرتے رہے۔ اس طرح ہم نے نہ صرف اپنے درخت کو بچا لیا بلکہ ایک مشترکہ یاد بھی تخلیق کی جس کو سارا خاندان بڑی خوشی کے ساتھ دہراتا ہے اور جو ہمیں آپس میں جوڑے بھی رکھتی ہے۔ آج تقسیم اسکوائر استنبول کا وہ درخت ہے۔ میں پچھلے 60 سال سے استنبول میں رہ رہا ہوں اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ اس شہر میں کوئی ایک شخص ایسا بھی ہے جس کے حافظے میں کوئی نہ کوئی یاد تقسیم اسکوائر کے حوالے سے موجود نہ ہو۔‘

تقسیم اسکوائر کے احتجاج سے ساکنان لاہور یہ سیکھ سکتے ہیں کہ بھلے سے آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں لیکن آپ تحریک تو چلائیں جس میں استنبول کے عوام جیسا تحرک ہو۔ اس کے لیے ن م راشد کی نظم ’حرفِ ناگفتہ‘ کی ان سطور کو منشور بنانے کی ضرورت ہے:

شحنہء شہر ہو، یا بندہء سلطاں ہو

اگر تم سے کہے: لب نہ ہلاؤ

لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ

دست و بازو بھی ہلاؤ

دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ

ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے

اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!

منقار زیرِ پر رہنے والے ساکنان خطہ لاہور ایک شعر احمد مشتاق کا بھی ذہن نشین کر لیں:

ستم گزیدو کوئی ہاؤ ہو کوئی فریاد

جو یہ نہیں ہے تو مرتے رہو سسکتے رہو

شاعری کا حوالہ آہی گیا ہے تو کبیر کا وہ شعر بھی ملاحظہ کر لیجیے جسے انتظار حسین نے اپنے کالم ‘درخت کی شہادت’ میں نقل کیا تھا:

بڑھئی آوت دیکھ کر ترور ڈالن لاگ

ہم کٹے تو اب کٹے، پکھیرو تو بھاگ

اورحان پاموک اور انتظار حسین کی درختوں سے محبت اور ان کے تحفظ کے لیے بے چینی ہمارے ہاں درختوں کے کٹنے پر خاموش ادیبوں کے لیے بھی دعوت فکر ہے کہ فطرت کے عظیم مظہر درخت کی نگہبانی کرنا ان کا فرض ہے کیوں کہ معروف افسانہ نگار اسلم سراج الدین کے بقول ’ایک ادیب ایک درخت کو اپنے برابر درجہ دیتا ہے اور اسے اپنے ہی جیسا ایک نامیہ سمجھتا ہے۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews اہل لاہور ترک صدر ترکیہ خاموشی درختوں کا قتل رجب طیب اردوان محمودالحسن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اہل لاہور ترکیہ درختوں کا قتل رجب طیب اردوان محمودالحسن وی نیوز تقسیم اسکوائر اورحان پاموک درختوں کے درختوں کی کے لیے

پڑھیں:

9 مئی کیس: عمر ایوب کی  تین مقدمات میں ضمانت خارج

لاہور(آئی این پی )انسدادِ دہشت گردی عدالت لاہور نے سانحہ 9 مئی سے متعلق تین مقدمات میں پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کی ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا۔انسدادِ دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے درخواستوں پر سماعت کی۔عدالت نے ملزم کی جانب سے عدم پیروی پر ضمانتیں ختم کیں جبکہ حاضری معافی کی درخواست بھی مسترد کر دی۔عدالتی حکم کے بعد عمر ایوب کی عبوری قانونی حیثیت ختم ہوگئی ہے اور متعلقہ مقدمات پر مزید کارروائی آئندہ سماعت میں جاری رہے گی۔یاد رہے کہ عمر ایوب کے خلاف تھانہ گلبرگ، ماڈل ٹان اور نصیر آباد میں مقدمات درج ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • دھند : لاہور سیالکوٹ موٹروے ، ایم 1پشاور سے رشکئی تک بند  
  • سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی؛ پنجاب بھر سے 24 دہشتگرد گرفتار
  • شارجہ سے جعلی برطانوی ویزوں پر 5 پاکستانی ڈی پورٹ
  • لاہور: پنجاب کے مختلف شہروں سے 24 دہشتگرد گرفتار، ترجمان سی ٹی ڈی
  • سی ٹی ڈی کے رواں ہفتے پنجاب میں 364 آپریشن، 24 دہشت گرد گرفتار
  • 9 مئی کیس: عمر ایوب کی  تین مقدمات میں ضمانت خارج
  • شہریوں کو پالیسیوں سے لاعلم رکھنا جمہوری اصولوں کیخلاف: ہائیکورٹ: ناصر باغ درختوں کی کٹائی پر انکوائری کا حکم
  • ایران اور پاکستان کے درمیان اسلام آباد، تہران، استنبول ٹرین سروس دوبارہ شروع کرنے  پر اتفاق
  • درختوں کی کٹائی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، یہ ایسے نہیں چل سکتا: عدالت