امید پورٹل پر اب تک کتنی لاکھ وقف املاک رجسٹر ہوئیں اور کتنی منظور ہوئیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT
زمین کی پیمائش کیلئے مختلف ریاستوں میں زمین کی پیمائش کے مختلف معیارات ہوتے ہیں جس سے تکنیکی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت بھر میں وقف املاک کو لے کر افراتفری کی صورتحال جاری رہی۔ متولی اور تنظیمیں الزام لگا رہی تھیں کہ حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ وہیں املاک کے رجسٹریشن کی آخری تاریخ اختتام پذیر ہو چکی ہے۔یہ پورٹل چھ ماہ تک کام کرتا رہا اور مقررہ مدت پوری ہونے کے بعد اسے اپ لوڈ کرنے کے لئے بند کر دیا گیا۔ اقلیتی امور کی وزارت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امید پورٹل پر 216,905 وقف املاک کو منظوری دی گئی ہے۔ امید پورٹل پر کل 5.
کرناٹک نے 65,242 میں سے 52,917 جائیدادوں کا اندراج کیا، جو تقریباً 81 فیصد کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے بعد پنجاب اور جموں و کشمیر کا نمبر آتا ہے۔ جموں کشمیر نے 77 وقف املاک کا اندراج کیا ہے۔ سب سے کم املاک کا رجسٹرین مغربی بنگال نے کیا ہے۔ مغربی بنگال میں 80,480 وقف املاک موجود ہیں جن میں سے صرف 716 کا اندراج کیا گیا جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے زیادہ وقف املاک کی بات کریں تو اترپردیش پہلے نمبر ہے۔ سنی اور شیعہ بورڈ کے مشترکہ طور پر تقریباً 2.4 لاکھ جائیدادیں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے بعد مغربی بنگال، پنجاب، تمل ناڈو اور کرناٹک ہیں۔ کروڑوں روپے کی ان جائیدادوں کو ڈیجیٹل طور پر ریکارڈ کرنے میں ناکامی حکومت کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔
مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 6 جون 2025ء کو مرکزی پورٹل کا آغاز کیا اور وقف ایکٹ 1995ء اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق جائیداد کی تفصیلات اپ لوڈ کرنے کے لئے چھ ماہ کی آخری تاریخ 6 دسمبر 2025ء کو باضابطہ طور پر ختم ہوگئی۔ وزارت نے کہا کہ آخری تاریخ کے قریب آتے ہی رجسٹریشن کی رفتار میں نمایاں تیزی آئی تھی۔ مزید 213,941 جائیدادوں کی حتمی منظوری زیر التوا ہے، جب کہ تصدیق کے دوران 10,869 جائیدادیں مسترد کر دی گئیں۔ سب سے زیادہ وقف املاک اترپردیش میں رجسٹرڈ ہوئیں (92,830) جن میں 86,345 سنی اور 6,485 شیعہ وقف املاک شامل ہیں۔ اس کے بعد مہاراشٹر (62,939) اور کرناٹک (58,328) کا نمبر آتا ہے۔
وقف املاک کی رجسٹریشن کے دوران وقف بورڈ اور متولیوں، جائیداد کے نگراں کو اس سارے عمل میں بے شمار عملی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پورٹل کا سرور کریش ہونا عام بات ہوگئی تھی جس کے سبب املاک کے رجسٹریشن میں کافی دشواریوں کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ برسوں پرانی جائیدادوں کے دستاویزات کو تلاش کرنا بھی ایک بہت بڑا چیلینج تھا۔ زمین کی پیمائش کے لئے مختلف ریاستوں میں زمین کی پیمائش کے مختلف معیارات ہوتے ہیں جس سے تکنیکی رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ مرکزی اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا کہ جو لوگ تین ماہ کے اندر اپنی جائیدادوں کا اندراج نہیں کرواتے ہیں ان پر جرمانہ نہیں کیا جائے گا۔ مزید برآں وقف ٹریبونل کے ذریعے رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع کا آپشن کھلا رکھا گیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: زمین کی پیمائش کا اندراج کیا وقف املاک کے بعد کے لئے
پڑھیں:
آپ کتنی بھی کوشش کرلیں جواہر لال نہرو کے تعاون پر داغ نہیں لگا سکتے، کانگریس
گورو گگوئی نے ایوان زیریں میں "وندے ماترم" پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے سیاسی آباء و اجداد کا آزدای کی جنگ میں کوئی تعاون نہیں رہا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی پارلیمنٹ میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر گورو گگوئی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ذریعہ "وندے ماترم" پر کی گئی تقریر کو سیاسی رنگ دینے کا سنگین الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور بی جے پی کے لوگ جتنی بھی کوشش کر لیں، پنڈت جواہر لال نہرو کے تعاون پر داغ نہیں لگا سکتے۔ گورو گگوئی نے ایوان زیریں میں "وندے ماترم" پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے سیاسی آباء و اجداد کا آزدای کی جنگ میں کوئی تعاون نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ "میں نے وزیراعظم کی تقریر کو غور سے سنا، ان کے 2 مقاصد تھے۔ پہلا مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ کے (برسر اقتدار طبقہ) سیاسی آباء و اجداد انگریزوں کے خلاف لڑ رہے تھے اور دوسرا مقصد تھا بحث کو سیاسی رنگ دینا۔ انہوں نے کہا "وزیراعظم اپنی ہر تقریر میں کانگریس اور نہرو کا ذکر بار بار کرتے ہیں۔ اس سے قبل بھی نریندر مودی نے ایوان میں "آپریشن سندور" پر بحث کے دورا نہرو کا نام 14 مرتبہ اور کانگریس کا نام 50 بار لیا تھا۔ آپ جتنی کوشش کر لیں، آپ جواہر لال نہرو کے تعاون پر ایک بھی سیاہ داغ لگانے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
اپنی تقریر کے دوران گورو گگوئی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کانگریس نے سب سے پہلے "وندے ماترم" کا نعرہ بلند کیا تھا۔ انہوں نے تاریخی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ یہ کہنا چاہتی تھی کہ پورے وندے ماترم کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اور اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد نے خود کہا تھا کہ انہیں "وندے ماترم" سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس نے اپنے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ کیا کہ جہاں بھی کوئی انعقاد ہوگا، ہم وندے ماترم گائیں گے۔ وندے ماترم کی مخالفت مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا نے کی تھی۔ ان دونوں نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ کانگریس لیڈر نے اپنی باتوں کو مضبوطی کے ساتھ رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بی جے پی نہ تو بنگال کو سمجھ پائی اور نہ ہی اس ملک کو سمجھ پائی ہے۔
واضح رہے کہ نریندر مودی نے پیر کے روز پارلیمنٹ میں "وندے ماترم" پر بحث کا اغاز کرتے ہوئے اپنی تقریر میں دعویٰ کیا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کے کانگریس صدر رہتے ہوئے مسلم لیگ کے دباؤ میں وندے ماترم کے ٹکڑے کر دیے گئے۔ ان کے اس الزام پر کانگریس نے ایوان میں منھ توڑ جواب دیا ہے۔ جے رام رمیش نے بھی نریندر مودی پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو بتانا چاہیئے کہ بی جے پی کے سینیئر لیڈران لال کرشن اڈوانی اور جسونت سنگھ نے محمد علی جناح کی تعریف کی تھی۔ جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ ایک پوسٹ میں لکھا کہ پنڈت نہرو پر ایک طبقہ کو خوش کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے، لیکن کیا بھارتی وزیراعظم، جو کہ تاریخ کو توڑنے مروڑنے میں ماہر ہیں، اس سوال کا جواب دیں گے کہ وہ کون سے ہندوستانی لیڈر تھے جنہوں نے 1940ء کی دہائی کے شروع میں بنگال میں اس شخص کے ساتھ اتحاد والی حکومت بنائی تھی، جس نے مارچ 1940ء میں لاہور میں پاکستان کی تجویز پیش کی تھی۔