طلبہ و علما کے اجتماع سے خطاب میں حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے نجات دینے والی تین چیزیں "علم، عقل اور تزکیہ" کو فردی اور اجتماعی ترقی کا راستہ قرار دیا۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

نجف اشرف، آیت اللہ جوادی آملی کا طلاب و علما کے عظیم الشان اجتماع سے تاریخی خطاب

اسلام ٹائمز۔ دارالعم امام خوئی نجف اشرف میں طلبہ و علما کے اجتماع سے خطاب میں حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے نجات دینے والی تین چیزیں "علم، عقل اور تزکیہ" کو فردی اور اجتماعی ترقی کا راستہ قرار دیا، جو کہ اسلامی مدارس اور عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں دونوں کے لیے یکساں اہم ہیں۔ آخر میں انہوں نے تمام امتِ مسلمہ کے لیے دعا فرمائی۔.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

جی سی لاہور کی وہ تاریخی تقریب

گورنمنٹ کالج لاہور میں بہت اعلیٰ معیار کی بڑی یادگار تقریبات دیکھی ہیں لیکن اگر کسی تقریب کو واقعتاً تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ 1975میں ہونے والا راونیز بمقابلہ اولڈ راونیز (گورنمنٹ کالج کے موجودہ اور پرانے طلباکے درمیان) ہونے والا عظیم الشان مباحثہ تھا، جو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں (Bilingual) تھا۔

مباحثے کا عنوان تھا ’’روزی ضمیر بیچ کر ہی ملتی ہے‘‘ انگریزی کے الفاظ اس طرح تھے، "Living is possible only at the cost of conscience"۔ اس مباحثے کا اہتمام کس نے کیا اور یہ کیسے ممکن ہوا یہ جاننے کے لیے قارئین کو شہباز شیخ کے متعلق جاننا ہوگا۔ شہباز شیخ کا مختصر ترین تعارف یہ ہے کہ بے غرض دوستی، اخلاص، passion، جنون، جذبہ اور ایثار کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے تو اس سے شہباز شیخ تشکیل پائے گا۔

وہ اپنی مادرِ علمی یعنی جی سی لاہور کے لیے سراپا محبّت اور عقیدت ہے اور دوستوں کے لیے خلوص اور ایثار کا مجسمہ۔ اپنے ان اوصاف کے باعث وہ گورنمنٹ کالج میں بے حد مقبول تھا اِتنا کہ اُسے کسی بھی الیکشن میں ہرانا ناممکن تھا۔ پہلے ینگ اسٹوڈنٹس یونین کا صدر بنا اور پھر مرکزی اسٹوڈنٹس یونین میں فیصل صالح حیات جیسے جاگیرداروں کو شکست دے کر جنرل سیکریٹری منتخب ہوا۔ کالج میں شہباز مجھ سے کچھ جونیئر تھا مگر چند مہینوں کی رفاقت میں ہی بھائیوں جیسا دوست بن گیا۔

اب اس مباحثے کی طرف آتے ہیں۔ چند نشستوں میں شہباز شیخ، عابد سعید (فیڈرل سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوئے) اور راقم نے مل کر ایک بہت بڑے مباحثے کا خاکہ ترتیب دیا اور پھر چند دنوں میں موضوع کو بھی حتمی شکل دے دی۔ مباحثے کو ایک تاریخی اور یادگار ایونٹ بنانے کے لیے بلاشبہ شہباز شیخ نے دن رات ایک کردیا۔ شہباز اور میں راولپنڈی اور اسلام آباد جا کر ہر معروف اولڈ راوین سے ملے اور اسے تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ اسلام آباد میں ہم نے قدرت اللہ شہاب صاحب کو بھی تلاش کرلیا اور انھیں بھی مدعو کیا ’’چہرے‘‘ کے مصنف مسعود مفتی (مرحوم) اس وقت راولپنڈی کے کمشنر تھے۔

ان سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے تپاک سے ملے اوراس نوعیّت کی تقریب کے انعقاد کو بہت سراہا۔ لاہور میں بھی ہم اہم ترین راونیز تک پہنچے اور انھیں مباحثے میں شرکت کی دعوت دی۔ طے یہ ہوا کہ موجودہ راوین قرارداد کے حق میں تقاریر کریں گے اور اولڈ راونیز اس کی مخالفت کریں گے۔ قرارداد کی مخالفت کرنے والے اولڈ راونیز کے نام سامنے آئے تو طلباء دنگ رہ گئے۔ اُس وقت تقریبات کی تشہیر کے لیے اشتہار چسپاں کرنے پڑتے تھے۔

اس لیے جب اسٹوڈنٹس نے خوشنما اشتہاروں پر مقرّرین اور مہمانان کے نام پڑھے تو اُن کے اشتیاق میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ مباحثے کی تاریخ کا بڑی شدّت سے انتظار کرنے لگے۔ موضوع اور مقرّرین کا انتخاب کرنے کے بعد ہم نے تقریب کی صدارت کے لیے کسی موزوں شخصیّت کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ جسٹس حمودالرحمن صاحب سپریم کورٹ سے نئے نئے ریٹائر ہوئے تھے، اُن کی قابلیّت اور دیانت کے چرچے بھی سن رکھے تھے اور پھر اخبارات میں حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں بھی تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔

چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ مباحثے کی صدارت کے لیے جسٹس حمود الرحمن صاحب کو دعوت دی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جسٹس صاحب کو ایک مباحثے کی تقریب کی صدارت کے لیے کیسے آمادہ کیا جائے۔ اس کا حل ہمیں چنبہ ہاؤس کی سرخ اینٹوں والی عمارت میں نظر آیا۔ جہاں سپریم کورٹ میں حمود الرحمن صاحب کے کولیگ (Brother Judge) اور ہمارے ماموں جان ٹھہرے ہوئے تھے۔ انھوں نے حمودالرحمن صاحب کو فون کیا اور ہمارے لیے ملاقات کا وقت طے کرادیا۔

جسٹس صاحب کی رہائش گاہ پر ان سے مل کر جب ہم نے گورنمنٹ کالج لاہور میں ہونے والے مباحثے کی صدارت کی درخواست کی تو انھوں نے کہا "I am not a Ravian" (میں تو جی سی کا پڑھا ہوا نہیں ہوں) اس پر میں نے کہا "But sir, you are father of two ravians" (آپ دو راونیز کے باپ تو ہیں) اس وقت ان کے دو بیٹے محفوظ الرحمن اور حمید الرحمن جی سی میں پڑھ رہے تھے۔۔ کہنے لگے ’’آپ کی دلیل زیادہ وزنی نہ سہی مگر دلچسپ ضرور ہے‘‘اور پھر ہمارے مزید اصرار کے بعد انھوں نے تقریب میں شرکت کی حامی بھرلی۔

مباحثے کا وقت صبح دس بجے کا رکھا گیا تھا، جب کہ بخاری آڈیٹوریم کی نشستیں صبح نو بجے تک بھر چکی تھیں۔ اگلی نشستوں پر اساتذہ کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے معروف راوین تشریف فرما تھے۔ ہم پونے دس بجے جب مہمانوں کے ساتھ کالج کے ایک سابق پرنسپل جناب احمد شاہ پطرس بخاری کے نام پر تعمیر کردہ بخاری آڈ یٹوریم میں داخل ہوئے تو اس وقت کالج کے بیسیوں اسٹوڈنٹس کھڑکیوں کے اوپر چڑھے ہوئے اور بہت سے ان کے ساتھ لٹکے ہوئے تھے۔

ان کے علاوہ سیکڑوں اسٹوڈنٹس ہال کے اندر کھڑے بھی تھے۔ بلاشبہ بخاری آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ ٹھیک دس بج کر پانچ منٹ پر شہباز شیخ (تقریب کے اسٹیج سیکریٹری) روسٹرم پر آگئے۔ انھوں نے سب سے پہلے جسٹس حمود الرحمن صاحب کو کرسیٔ صدارت سنبھالنے کی دعوت دی۔

اس کے بعد لَیجنڈری پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اور پروفیسر اشفاق علی خان سمیت تین نامور پرنسپل صاحبان پر مشتمل منصفین کے پینل کو اپنی نشستیں سنبھالنے کی دعوت دی گئی۔ اور پھر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مقرّرین کو اپنی نشستیں سنبھالنے کے لیے کہا گیا۔

قائدِ ایوان کی ذمّے داری مجھے سونپی گئی، میرے ساتھ عابد سعید، نذیر سعید اور محفوظ الرحمن نے قرارداد کی حمایت کرنا تھی، جب کہ قرارداد کی مخالفت کرنے والے مقررین میں سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب اور اردو کے فصیح مقرّر جناب حنیف رامے، نامور قانون دان اور زبان وبیان کے ماہر جناب اعجاز حسین بٹالوی، اپنے وقت کے بے مثل مقرّر اور نامور ایڈیٹر جناب مظہر علی خان (جن کے بارے میں جناب مختار مسعود نے لکھا ہے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے سالانہ مباحثے میں اگر کسی نے مسلسل تینوں سال اوّل انعام حاصل کیا تو وہ گورنمنٹ کالج لاہور کی نمایندگی کرنے والے مظہر علی خان تھے) اور معروف بیوروکریٹ مظفّر قادر وغیرہ شامل تھے۔

سب سے پہلے قائدِ ایوان کی حیثیّت سے قرارداد ایوان میں پیش کرنے کے لیے میرا نام پکارا گیا۔ میں تفصیل بھول چکا تھا مگر میرے دوست عابد سعید نے یاد کراتے ہوئے بتایا کہ ’’آپ کی تقریر میں طنز ومزاح کا عنصر بھی شامل تھا‘‘ آپ نے کہا تھا کہ ’’اب تو ضمیر بیچارے کا دفتروں میں داخلہ تک بند ہے‘‘ ضمیر حسین نام کے میرے ایک دوست نے ایک سینئر افسر کو فون کیا، افسر نے پوچھا کون بول رہا ہے۔

میرے دوست نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا’’جی ضمیر بول رہا ہوں‘‘ تواس پر افسر نے یہ کہتے ہوئے ٹھک سے فون بند کردیا کہ ’’ہم ضمیر کی آواز نہیں سنتے‘‘ تقریر میں رامے صاحب سے ہلکی پھلکی چھیڑ خانی بھی ہوئی اور پھر اختتام ایسے جذباتی انداز میں ہوا کہ ہال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ تقریر میں قرآنی الفاظ نفسِ امّارہ اور نفسِ لوّامہ کا بھی مختصر ذکر تھا، میرے منہ سے ایک لفظ غلط نکل گیا تھا جسے ایک ذہین اور ماہر وکیل کی طرح جناب اعجاز بٹالوی نے اچک لیا اور اس غلطی کو اس طرح exploit کیا کہ ہال سے خوب داد وصول کی۔ حنیف رامے صاحب کی تقریر کے دوران ایک آدھ بار طلباء کی طرف سے مخالفانہ نعرہ بھی بلند ہوا مگر رامے صاحب منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت کے رموز سے بھی پوری طرح آشنا تھے، اس لیے مخاصمانہ ماحول پر جلد قابو پانے میں کامیاب ہوگئے۔

بٹالوی صاحب اور رامے صاحب نے اردو میں تقاریر کیں ۔ عابد سعید اور نذیر سعید نے انگریزی میں قرارداد کی حمایت کی، جب کہ مظفّر قادر اور مظہر علی خان نے انگریزی میں قراداد کی مخالفت کی۔ حزبِ اختلاف کے مقررین میںملک کی نامور شخصیات تھیں، جن کی تقاریر کو دلائل کی شدّت اور خطابت کی حدّت نے انتہائی پر اثر بنادیا، ان کے الفاظ کا چناؤ شُستہ اور شاندار اور ادائیگی انتہائی موثّر اور جاندار تھی، جن سے سامعین پوری طرح لطف اندوز ہوئے۔

منصفین کی نمایندگی جی سی کے مشہور اور مقبول پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے کی، اور آخر میں جسٹس حمود الرحمن صاحب کی انگریزی میں صدارتی تقریر نے تو سامعین پر سحر طاری کردیا۔ مجھے ابھی تک یاد ہے جسٹس صاحب کی تقریر کے دوران گھڑی پر نظر پڑی تو دوپہر کے دو بج چکے تھے جب کہ طلباء چار گھنٹوں سے کھڑے ہو کر اور کھڑکیوں سے لٹک کر تقاریر سننے میں پوری طرح محو تھے۔

چند روز پہلے اُس دور کے چند دوستوں سے ملاقات ہوئی، اس مباحثے کا ذکر چھڑا تو سب بیک زبان بولے کہ وہ ایک تاریخی، شاندار اور یادگار تقریب تھی اور پچھلے پچاس سالوں میں جی سی لاہور ہی نہیں ملک کے کسی بھی تعلیمی ادارے میں اُس نوعیّت اور اُس معیار کی کوئی تقریب منعقد نہیں کی جاسکی۔ بڑے تعلیمی اداروں کے سربراہان کو چاہیے کہ اپنے ادارے کے نامور اولڈ اسٹوڈنٹس کو گاہے بہ گاہے مدعو کرتے رہیں تاکہ وہ اپنی تقاریر اور گفتگو کے ذریعے اپنا علم، ہنر اور تجربات نئے اسٹوڈنٹس تک منتقل کریں اور انھیں لیڈرشپ، کیریکٹر، ایمانداری، ڈسپلن، Ethics اور rule of law کی اہمیّت اور فضیلت سے روشناس کرائیں۔

متعلقہ مضامین

  • سابق صدر عارف علوی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست نمٹا دی گئی
  • جی سی لاہور کی وہ تاریخی تقریب
  • پاکستان سب کا ہے، اور ہم سب مل کر اس کو سنواریں گے، ہماری خدمت کا سفر رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہے ،انعام الرحمن کمبوہ کا یومِ اقلیت کے موقع پر جشنِ آزادی تقریب سے خطاب
  • تمام علما کو یقین دلاتے ہیں ہم معاملے کو مشاورت اور افہام و تفہیم سے حل کریں گے: طلال چوہدری
  • معرکۂ حق؛ یوم آزادی تصور سے تصویر تک پاکستان کی عظیم داستانیں
  • پاک فوج اور اداروں کی وجہ سے آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، پی پی رکن اسمبلی
  • عظیم کرکٹر و سابق ٹیسٹ کپتان حنیف محمد کی وفات کو 9 برس بیت گئے
  • طلبا دیانت داری، محنت اور راست بازی کو اپنا شعار بنائیں، چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل نوید اشرف
  • غزہ میں انٹرنیشنل پروٹیکشن فورس تعینات کی جائے، پاکستانی مندوب کا سیکیورٹی کونسل میں خطاب
  • شرجیل میمن   کا 13 اور 14 اگست کی شب ہونے والے عظیم الشان کنسرٹ کے حوالے سے  نیشنل اسٹیڈیم کا دورہ