خیبرپختونخوا: ترقیاتی منصوبوں میں اربوں کی کرپشن پر 10 افسران کےخلاف کارروائی کی سفارش
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص فنڈز میں اربوں روپے کی کرپشن کے معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، اکاؤنٹنٹ جنرل (اے جی) خیبرپختونخوا نے محکمہ خزانہ کے 10 افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق اکاؤنٹنٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دفتر نے مشکوک افراد اور مشتبہ بینک اکاؤنٹس کی نشاندہی کر دی، اے جی آفس نے مبینہ کرپشن میں محکمہ خزانہ کے 10 اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی سفارش کے لیے سیکریٹری خزانہ کو خط لکھ دیا ہے۔
خط میں اسسٹنٹ اور سب اکاؤنٹنٹس اور 52 مشکوک بینک اکاؤنٹس کی بھی نشاندہی کی گئی، خط میں ضلعی اکاؤنٹس افسر اپر کوہستان کو فوری معطل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اے جی آفس کے مطابق نیب کو موصول ہونے والے 1293 چیکس کا ریکارڈ ہی موجود ہی نہیں، جعلی چیکس کا اے جی دفتر سے کوئی سروکار نہیں، ریکارڈ اصلی چیکس کا رکھا جاتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی چیکس بنانے کی ذمہ داری نیشنل بینک اور سی اینڈ ڈبلیو ہے۔
مشکوک رقم 3 ارب 47 کروڑ 37 لاکھ 19 ہزار 155 روپے کی نشاندہی بھی خط میں کی گئی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ اپر کوہستان میں کرپشن کی کُل رقم 29 ارب روپے ہے۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں ترقیاتی منصوبوں کی رقم نجی بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے جانے کے انکشاف کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے مبینہ کرپشن اسکینڈل کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کی سفارش
پڑھیں:
نوبیل کی سفارش تو بنتی ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میں: کل تک تو تم ٹرمپ کی پالیسیوں پر سخت نالاں تھے اور آج ایسا عنوان مجھے تو بڑی حیرت ہورہی ہے تم پر۔
وہ: میں نے سوچا کہ نطق وبیاں میں اتنی تلخی بھی اچھی نہیں، بات بات پر ٹوکنا، طنزو تشنیع کو مسلسل اپنا وتیرہ بنائے رکھنا کبھی کبھی دل کو بوجھل سا کردیتا ہے، بقول میرؔ
حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو
میں: تو تم آج دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہ رہے ہو؟
وہ: ہاں وہ تو اس دن ہی سے کم ہوگیا ہے جب پاکستان نے حکومتی سطح پر صدر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام دینے کی سفارش کی تھی۔ میرا دل تو اس وقت پسیج کے رہ گیا جب ٹرمپ نے کہا کہ میں نے کئی جنگیں رکوائیں ہیں لیکن یہ لوگ مجھے نوبیل نہیں دیں گے۔
میں: یعنی ایک شخص جو غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر بلاناغہ اسرائیل کی پیٹھ تھپک رہا ہے، عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑا رہا ہے، جو فلسطینیوں کی نسل کشی کا اصل ذمے دار ہے تم ایسے شخص کے لیے نوبیل انعام کی سفارش کیے جانے پر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کررہے ہو؟ جس ریاست کے ہاتھ اس کے قیام سے لیکر آج تک انسانی خون سے بھرے ہوئے ہوں، کیا ماضی کیا حال اس کاکوئی بھی سربراہ کسی صورت بھی کسی بھی اعزاز واکرام کا مستحق قرار نہیں پاسکتا۔ جس کے ہر سربراہ نے اپنے اپنے دور صدارت میں دنیا بھر میں تسلسل کے ساتھ جنگیں برپا کیں دہشت گردی، ظلم و درندگی اور ناانصافی کا بازار گرم رکھا۔ انہیں تو عبرت ناک سزائیں ملنی چاہئیں اور اسی قماش کے ایک شخص کے لیے نوبیل کی سفارش!۔ بقول انشااللہ خان انشاؔ
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا۔ ’اصل شعر میں قتل کی جگہ ذبح لکھا ہے لیکن یہاں قتل زیادہ مناسب ہے‘۔
وہ: تم اتنے جذباتی کیوں ہورہے ہو، اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ طول پکڑ جاتی اور دونوں میں سے کوئی ایٹمی ہتھیار استعمال کرلیتا تو سوائے تباہی کے کچھ نہیں بچتا۔ ٹرمپ نے بیچ میں پڑ کے بہت بڑے خطرے کو ٹالا ہے۔
میں: لیکن بھارت تو مسلسل انکار کر رہا ہے کہ ہم نے امریکا سے کوئی رابطہ نہیں کیا، ٹرمپ نے جنگ رکوانے میں کوئی کردار یا ثالثی نہیں کی ہے۔
وہ: بھائی مسئلہ کشمیر کے حل میں بنیادی عقدہ ہی یہ ہے کہ بھارت اسے متنازع علاقہ سمجھتا ہی نہیں ہے، اسی لیے نہ اس کے حل کی ضرورت ہے اور نہ کسی ثالثی کی۔ اور پاکستان کا ہمیشہ سے واضح موقف رہا ہے کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے بیچ ایک متازع علاقہ ہے جس کا حل اقوام متحدہ کی قرادادوں کی روشنی میں ہر صورت نکلنا ضروری ہے۔ اور اسی لیے پاکستان ہمیشہ سے اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ کوئی تیسرا غیرجانبدار فریق اس مسئلے کے حل میں ثالث کاکردار ادا کرے۔ اصولی طور پر تو یہ کام اقوام متحدہ کی ذمے داری تھی لیکن چوں کہ اقوام متحدہ امریکا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے اس لیے پاکستان نے حالیہ جنگ کے تناظر میں ٹرمپ کی ثالثی کے بیان کا کھل کر خیر مقدم کیا اور اس معاملے میں مزید سفارتی کامیابیاں سمیٹنے کی غرض سے ٹرمپ کے لیے نوبیل کی سفارش بھی کرڈالی۔
میں: میری سمجھ میں تو یہ ڈپلومیسی بالکل نہیں آرہی، اگر اپنی کوئی غرض ہے تو تمام اخلاقیات، بھائی چارے اور امت مسلمہ کی پکار کو پس پشت ڈال کے ظالم کو اس اعزاز کا حق دار ٹھیرا دو جس کا وہ کسی صورت بھی اہل نہیں۔ امریکا کی مثال تو ہمیشہ سے اس چور کی طرح رہی ہے جو خود ہی چوری کرتا ہے اور پھر خود ہی منصف بن کے سامنے آجاتا ہے کہ پریشان نہ ہوں میں پتا لگاتا ہوں کہ کس نے چوری کی ہے۔ بالکل اسی طرح جب غزہ ملبے کا ڈھیر بن گیا تو امریکا عالمی امن کا نام نہاد چمپئن اور ہمدرد بن کے سامنے آگیا کہ میں کرتا ہوں بحالی کا کام، آپ لوگ بالکل پریشان نہ ہوں۔ بقول نواب مصطفی خاں شیفتہ
اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
وہ: تم نے وہ مشہور مثَل نہیں سنی کہ مشکل وقت پڑنے پر اگر کسی کو باپ بنانا پڑجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مجھے تو لگتا ہے پاکستان نے اسی اصول کے تحت ٹرمپ کو اس انعام کے لیے نامزد کیا ہے، کیوں کہ جناب ٹرمپ ایک بڑ بولا مزاج رکھتے ہیں، بات بات پہ چٹکلے چھوڑنا، عالمی رہنمائوں کے ساتھ باہمی گفتگو میں آنکھ مارنا، بے وجہ شوخی دکھانا اور اوچھی حرکتیں کرنا ان کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ جس کا اظہار وہ اپنے ذاتی تو درکنار حکومتی معاملات میں بھی کئی بار کرچکے ہیں۔ لیکن اس تمام کے باوجود ٹرمپ امریکا کے منتخب صدر ہیں اور ان کے ایک ہی حکم اور ایک ہی فون کال پر پاکستان بھارت کے بعد اب ایران اسرائیل کی جنگ بھی رکوا دی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ٹرمپ کے لیے پاکستان کا سفارش کردہ انعام ِ امن کا یہ کیس اور بھی مضبوط ہوگیا ہے۔
میں: تم جس ٹرمپ کو نوبیل انعام کی نامزدگی کے لیے اُتاولے ہوئے جارہے ہو اسے ابھی تک نیتن یاہو کو ایک فون کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی کہ بس بہت ہوگیا، جس نے اسی ٹرمپ کی آشیر باد تلے فلسطین میں معصوم جانوں کا قتل عام گزشتہ دو سال سے جاری رکھا ہوا ہے۔ اور اب تو غزہ میں ان لوگوں کو بھی بخشا نہیں جارہا جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے خوراک وصولی کی قطاروں میں سرگرداں ہیں۔
وہ: تمہاری بات درست ہے کہ غزہ کے مسئلے پر امریکا ایک منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں پہلے اپنے درپیش مسائل پر توجہ دینی چاہیے، اگر ہمیں ٹرمپ جیسے جذباتی شخص کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی موقع مل رہا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
میں: لگتا ہے کہ تم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ٹرمپ کے اعلان ِ ثالثی سے بہت پرامید ہو جبکہ امریکا خود بھی یہ بات جانتا ہے کہ بھارت کبھی اس مسئلے پر ثالثی قبول نہیں کرے گا۔ تم نے ہی پچھلی نشست میں کہا تھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو موثر اور بھرپور انداز میں اٹھانے کا ایک سنہری موقع ۲۰۱۹ء میں ضائع کرچکا ہے جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے آئینی طور پر اپنا جائز اور مستقل حصہ بنالیا تھا۔ جو حکومتی وفود گزشتہ دنوں پاک بھارت جنگ کے تناظر میں اپنا موقف واضح کرنے اور بھارت کی عدم تعاون کی روش کو بے نقاب کرنے کے لیے مختلف ممالک کے دوروں پر بھیجے گئے یہ کام اس وقت کیا جاتا تو زیادہ کارگر ثابت ہوتا۔ کیوں کہ اس وقت بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی معاہدوں سے روگردانی کی تھی بلکہ کشمیری عوام کو ان کے آئینی حق سے بھی محروم کردیا تھا۔
وہ: بھائی ۲۰۱۹ء والا معاملہ تو ماضی کی بات ہوگئی، ابھی اگر کوئی موقع مل رہا ہے تو اس کو گنوانا نہیں چاہیے۔ کیا ضروری ہے کہ اوروں کے دشمن کو سبق سکھانے کے لیے ہر بار ہمارا کاندھا ہی استعمال ہو، تاریخ میں پہلی بار اگر ہمیں ٹرمپ کی شکل میں کوئی کاندھا مل رہا ہے تو اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے اسے استعمال کرنے میں دیری کہاں کی دانشمندی ہے۔ ورنہ اپنی قربانیوں اور خدما ت کے عوض دودھ میں سے مکھی کی طرح نکالے جانے کا تجربہ تو ہم کرتے ہی آئے ہیں۔ بس ہمیں ٹرمپ کو یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ جناب آپ نے ثالثی کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے آپ کا نام امن کے نوبیل انعام کے لیے بھی باقاعدہ تجویز کردیا ہے، جلدی کریں صرف ہمارا ہی نہیں آپ کا مہورت بھی بیتا جارہا ہے۔ بقول شاعر
آئو موقع پرست بن جائیں
کام اٹکا ہوا نکلوائیں
اب یہ حالات کا تقاضا ہے
تھوڑی ہشیاریاں بھی دکھلائیں