وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا بتیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں کابینہ اراکین، چیف سیکرٹری،  ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی۔

یہ بھی پڑھیں:

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کابینہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا مؤثر جواب دینے پر مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ بھارت کیخلاف اس شاندار فتح پر مسلح افواج اور پوری قوم مبارکباد کے مستحق ہے۔بھارتی جارحیت کے نتیجے میں ہونے والے شہداء کو سلام پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہدا کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہارکرتے ہیں۔

وزیر اعلی کے پی کا کہنا تھا کہ ہم نے اس جارحیت میں خیبر پختونخوا کے شہید اور زخمی ہونے والوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہدا کے ورثا کو 50، 50 لاکھ جبکہ زخمیوں کو 10، 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

علی امین گنڈاپور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ممبران اسمبلی مقامی انتظامیہ کے حکام کے ساتھ ن شہدا اور زخمیوں کے گھروں میں جا کر انہیں امدادی پیکیج جلد ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے بیٹوں کا انٹرویو نہیں دیکھا، علی امین گنڈاپور

علی امین گنڈاپور نے  کوہستان میں سامنے آنے والی مبینہ مالی بے ضابطگی کے خلاف نیب کی کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ خوش آئند بات ہے کہ نیب نے اس کیس میں کچھ ریکوریاں بھی کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں نیب کو بھر پور سپورٹ فراہم کرے گی، نیب کو تحقیقات کے لیے جو بھی ڈاکومنٹس درکار ہونگے، صوبائی حکومت ترجیحی بنیادوں پر فراہم کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں جو بھی لوگ اور ادارے ملوث ہیں ان کیخلاف سخت سے سخت کارروائی ہونی چاہیے، بانی چئیرمین کے وژن کے مطابق صوبائی حکومت کرپشن کیخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بدعنوانی کے اس کیس میں ملوث عناصر کیخلاف کسی اور ادارے سے زیادہ سخت کارروائی صوبائی حکومت خود کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ متلعقہ کابینہ اراکین پریس کانفرنس کے ذریعے اس کیس کے حقائق عوام کے سامنے رکھیں۔

اجلاس میں اس کیس کی حکومتی سطح پر تحقیقات کے لیے کابینہ کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا، کمیٹی کی سربراہی وزیر اعلی خود کریں گے جس میں متعلقہ کابینہ اراکین اور ممبران صوبائی اسمبلی شامل ہونگے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

علی امین گنڈاپور کرپشن کے پی نیب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور کے پی وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت وزیر اعلی اس کیس کے لیے

پڑھیں:

مغربی رہنما سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں، چینی میڈیا

مغربی رہنما سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 30 June, 2025 سب نیوز

بیجنگ :گزشتہ G7 سربراہی اجلاس میں یورپی کمیشن کی صدر نے “چین شاک تھیوری” کو زور و شور سے پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ “جب ہم شراکت دار ممالک کے درمیان ٹیرف مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں تو ہماری توجہ اصل چیلنج سے ہٹ جاتی ہے جو ہم سب کے لیے خطرہ ہے – اور وہ ہے چین”۔ ان کا تجویز کردہ حل یہ ہے کہ G7 معیشتیں عالمی GDP کا 45 فیصد اور دانشورانہ ملکیت کی آمدنی کا 80 فیصد سے زائد حصہ رکھتی ہیں – اگر یہ ممالک متحد ہو کر چین کے خلاف کھڑے ہوں تو یہ ان کے لیے میدان مارنے کا موقع ہوگا۔افسوس! امریکہ کی طرف سے مسلسل ذلت آمیز سلوک کے باوجود یورپی یونین نے خود احتسابی کی بجائے دوسروں پر بدنصیبی کا سبب بننے کی احمقانہ اور بری کوششیں کی۔ ہم ایسی یورپی یونین کی بدقسمتی پر ماتم ہی کر سکتے ہیں اور اس کی بزدلی اور حماقت پر غصہ ۔ بندر کی طرح تاج پہن کر خود کو بادشاہ سمجھنے کا یورپی یونین کا یہ تماشہ انتہائی شرمناک ہے۔یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب یورپی یونین نے ٹرمپ کو چین کے خلاف اتحاد کی تجویز پیش کی۔ گزشتہ مہینوں میں یورپی تجارتی کمشنر چین کے خلاف مشترکہ موقف تلاش کرنےکے لئے متعدد بار امریکہ گئے ۔افسوس کی بات ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے مکمل تجارتی جنگ کے اعلان کے بعد، جبکہ یورپ کو سٹیل اور آٹوموبائل ٹیرفس اور معطلی کی میعاد ختم ہونے کا سامنا ہے، یورپی یونین نے پھر بھی ذلت آمیز انداز میں ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ”آپ درست کہہ رہے ہیں،

مسئلہ موجود ہے مگر وہ ہم نہیں بلکہ چین ہیں۔ ہم سب شکار ہیں، ہمیں مل کر چین کو نشانہ بنانا چاہیے”۔G7 اجلاس میں پیش کردہ “چین شاک تھیوری” درحقیقت بعض مغربی سیاستدانوں کی تنگ نظری کی آئینہ دار ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر کے بیانات نہ صرف عالمی معاشی حقائق کا سنگین غلط اندازہ ہیں بلکہ تاریخی ارتقاء کے اصولوں سے بھی متصادم ہیں۔ اکیسویں صدی میں جب دنیا باہم گہرے طور پر جڑ چکی ہے، بعض مغربی رہنما اب بھی سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ G7 ممالک کے عالمی GDP اور IP رائلٹیز میں حصے کو “گروپ بندی” کی تعمیر کے لیے استعمال کرنا ناصرف فرسودہ سوچ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی ۔ یہ نہ صرف معاشی عالمگیریت کے رجحان کے خلاف ہے بلکہ دنیا بھر کے عوام کی ترقی کی خواہشات کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔تاریخ بہترین استاد ہے۔دریافت کے زمانے میں عالمی تجارت کے آغاز سے لے کر صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بین الاقوامی تقسیم کاری کے قیام تک ؛ برٹن ووڈز سسٹم سے لے کر چین کے کھلے پن اور عالمی معیشت میں انضمام تک ، انسانی معاشی ترقی کی تاریخ درحقیقت رکاوٹوں کو توڑنے اور تعاون کو گہرا کرنے کی داستان ہے۔

موجودہ عالمی معاشی نظام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، مغربی مرکزیت پر مبنی پرانا نظام اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ IMF کے اعداد و شمار کے مطابق خریداری کی طاقت کے تناسب کے حساب سے ابھرتی ہوئی معیشتیں عالمی GDP کا 58.3 فیصد حصہ رکھتی ہیں جو ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ ہے۔ اس رجحان کے باوجود یورپی یونین نہ صرف نئے عالمی توازن میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہے بلکہ امریکہ کی تابع دار بن کر اپنے مسائل کا ذمہ دار چین کو ٹھہرا رہی ہے۔ یہ رویہ نہ تو یورپی یونین کے ساختی مسائل (جیسے صنعتی مسابقت اور اختراعی صلاحیتوں کی کمی) کو حل کر سکے گا، نہ ہی گلوبل ساوتھ ممالک کے اجتماعی عروج کو روک پائے گا۔ یورپی یونین کے مسائل کی جڑ اس کی اپنی صنعتی ترقی میں تاخیر ہے، نہ کہ فرضی “چین شاک” نظریہ ۔ داخلی مسائل کو بیرونی خطرے کے طور پر پیش کرنے کی یہ سوچ یورپی یونین کو اسٹریٹجک خودمختاری کے راستے سے بھٹکا دے گی۔انسانی ترقی کبھی بھی اجارہ داری اور دباؤ کے ذریعے حاصل نہیں ہوئی۔قدیم شاہراہ ریشم پر اونٹوں کی گھنٹیوں سے لے کر ڈیجیٹل دور کے بٹس (bits) تک ، تہذیبیں تبادلے سے ہی رنگین ہوتی ہیں اور معیشتیں کھلے پن سے ہی خوشحال ہوتی ہیں۔ مغربی سیاستدانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج کی دنیا میں چند ترقی یافتہ ممالک انسانی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ چین کی ترقی موقع ہے ۔

یہ کوئی خطرہ نہیں ۔ 1.4 ارب چینیوں کی جدید کاری سے نہ صرف بڑے پیمانے پر طلب پیدا ہوگی بلکہ اختراعی سرگرمیوں کو بھی تقویت ملے گی۔ ہم یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک سے پرانی سرد جنگ کی سوچ ترک کرنے، چین کے ساتھ مل کر عالمی سپلائی چین کو مستحکم کرنے اور مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کی اپیل کرتے ہیں۔ مساوات، باہمی فائدہ، کھلا پن اور رواداری ہی انسانیت کو روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ دیواریں کھڑی کرنے والے اپنے آپ کو تنہا کر لیں گے، جبکہ متقبل راستے کھولنے والوں کا ہی ہو گا ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی پی سی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے ’’ فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و ضوابط‘‘ پر نظر ثانی سی پی سی سینٹرل کمیٹی کی جانب سے ’’ فیصلہ سازی، غور و خوض اور کوآرڈینیشن کے ادارے کے امور سے متعلق قواعد و... کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے ارکان کی کل تعداد 10 کروڑ سے تجاوز کر گئی پاکستانی پویلین کا چین-یوریشیا ایکسپو میں افتتاح غریب عوام پر پٹرول بم گرانے کی تیاری، قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان اوگرا نے گھریلو صارفین کیلئے گیس کی قیمت میں بڑا اضافہ کردیا،نوٹیفکیشن جاری وفاقی حکومت نے 285 اشیا پر دوبارہ ڈیوٹیز عائد کرنیکی منظوری دیدی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • علی امین کیخلاف جسے بھی تحریک عدم لے کر آنی ہے وہ لے آئے کامیاب نہیں ہوگا، پی ٹی آئی
  • سندھ ایمپلائزالائنس کا صوبائی حکومت کیخلاف احتجاج: کراچی میں ٹریفک نظام درہم برہم
  • علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی، ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، بیرسٹر گوہر
  • شمالی وزیرستان حملہ: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زخمی اہلکاروں کی عیادت
  • علی امین گنڈاپور سے پہلے وزیراعلیٰ سندھ، مریم نواز اور بلاول بھٹو کو استعفیٰ دینا چاہیے، بیرسٹر سیف
  • خیبرپختونخوا میں حکومت کی تبدیلی، وزیر دفاع خواجہ آصف کا اہم بیان سامنے آگیا
  • مغربی رہنما سرد جنگ کے دور کی “زیرو سم” سوچ میں جکڑے ہوئے ہیں، چینی میڈیا
  • افغان مہاجرین کے پی او آر کارڈز کی مدت میں توسیع کی تجویز کابینہ کو بھیجنے کا فیصلہ
  • افغان مہاجرین کے پی او آر کارڈز کی مدت میں توسیع کی تجویز کابینہ کو بھیجنے کا فیصلہ
  • علی امین گنڈاپور بمقابلہ علیمہ خان: آخر اختلافات کی وجہ کیا ہے؟