ٹیکس آرڈیننس کے معاملے پر حکومت کو قومی اسمبلی سے بڑا دھچکا
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
قومی اسمبلی اجلاس میں حکومت ٹیکس آرڈیننس 2024 منظور نہ کر اسکی، تحریک کی منظوری پر اپوزیشن نے گنتی چیلنج کی اور کورم کی نشاندہی کر دی جس پر کورم مکمل نہ نکلا اور اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر غلام مصطفیٰ شاہ کی صدارت میں شروع ہوا، جہاں وقفہ سوالات کے دوران ملکی و غیر ملکی اہم امور پر ارکان نے حکومت سے سخت سوالات کیے اور بعض مواقع پر طنز و مزاح کا دلچسپ تبادلہ بھی دیکھنے کو ملا۔
جے یو آئی کے رکن مرزا اختیار بیگ نے سوال اٹھایا کہ ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کی متوقع تین ارب ڈالر سرمایہ کاری کب تک ممکن ہے؟ جواب میں پارلیمانی سیکرٹری محمد خان بگٹی نے بتایا کہ فی الحال سعودی حکومت کی طرف سے کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ تاہم دونوں ممالک کی تکنیکی ٹیمیں مل کر اس پر کام کر رہی ہیں، اور جیسے ہی کام مکمل ہوگا، سرمایہ کاری کی تفصیل شیئر کی جائے گی۔
جے یو آئی کے نورعالم خان نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ای ووٹنگ کا حق نہ دینے پر سوال اٹھایا۔ وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے جواب دیا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان آکر ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ایوان آئینی طور پر اس معاملے کو طے کریں۔ وزیر نے مزید بتایا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی قائمہ کمیٹی کے سابق چیئرمین جنید اکبر تھے لیکن ان کے پی اے سی چیئرمین بننے کے بعد یہ عہدہ خالی ہے، جس پر آئندہ ہفتے انتخابات ہوں گے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف خلیجی ممالک میں 15 ہزار پاکستانی قید ہیں اور ان کی رہائی میں قائمہ کمیٹی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری صبا صادق نے کہا کہ حکومت خواتین کو ملازمتوں میں ان کا حق دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اس پر زرتاج گل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پہلے پی ٹی آئی کو خواتین کی مخصوص نشستیں تو دے۔
صبا صادق نے طنزاً کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ حملے کرنے ہیں یا گریبان پکڑنے ہیں، جس پر زرتاج گل نے احتجاج کیا۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اعتراف کیا کہ پاکستانی پاسپورٹ اس وقت دنیا میں سب سے نچلی سطح پر ہے اور صرف 35 ممالک میں ویزہ فری رسائی حاصل ہے۔
وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ جب بیرون ملک پاکستانی اپنے ہی ملک کے خلاف قراردادیں منظور کرائیں گے تو پاسپورٹ کی یہی حالت ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ صرف خوبصورت پاسپورٹ چھاپنے سے عزت نہیں بڑھے گی۔
توانائی سے متعلق سوالات کے دوران لیگی رکن طاہرہ اورنگزیب نے وزیر توانائی سردار اویس لغاری کی تعریفیں کیں مگر وزیر نے یہ سنے بغیر سوال دہرانے کو کہا۔
طاہرہ اورنگزیب نے شکوہ کیا کہ انہوں نے وزیراعظم اور وزیر کی تعریفیں کی تھیں۔ جواب میں لغاری نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تو بہترین سوال تھا ہی نہیں، یہ تو تعریفیں تھیں۔ ارکان ہنس پڑے۔ شرمیلا فاروقی نے سکھر-حیدرآباد موٹروے کو پی ایس ڈی پی میں شامل نہ کرنے پر شدید اعتراض کیا اور اسے سندھ سے زیادتی قرار دیا۔
وفاقی وزیر ارمغان سبحانی نے کہا کہ یہ منصوبہ اہم نوعیت کا حامل ہے اور آذربائیجان بھی اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بھی یقین دہانی کرائی کہ موٹروے ضرور بنے گا۔ تاہم نوید قمر، اعجاز جھاکرانی، عبد القادر گیلانی اور دیگر ارکان نے کہا کہ محض یقین دہانی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
حکومت نے انکم ٹیکس ترمیمی بل 2024 منظور کرانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی اور اپوزیشن نے کورم کی نشاندہی کردی۔
اپوزیشن کی نشاندہی پر ڈپٹی اسپیکر نے اراکین کی تعداد گننے کی ہدایت کی، گنتی کے دوران پتہ چلا کہ حکومتی اتحاد کے صرف 67 جبکہ اپوزیشن کے 32 ارکان ایوان میں موجود تھے، جس کے باعث کورم پورا نہ ہو سکا۔ اجلاس کل صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی نے کہا کہ انہوں نے
پڑھیں:
توانائی شعبہ کی تنظیم نو، گڈ گورننس پر توجہ، ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے کوشاں: وزیر خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی +نوائے وقت رپورٹ) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مسابقتی ٹیرف نظام، توانائی کے شعبے کی پائیداری اور نجی شعبے کی زیادہ شمولیت کے لیے پرعزم ہے۔ ٹیکسیشن، توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو، سرکاری اداروں کی نجکاری، گورننس میں بہتری اور وفاقی اخراجات کو معقول بنانے پر توجہ دی جاری ہے۔ وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار پیٹر تھیل اور آورِن ہافمین کی قائم کردہ عالمی لیڈر شپ پلیٹ فارم ڈائیلاگ کے اعلیٰ سطح کے وفد سے تفصیلی ملاقات میں کیا۔ وفد کی قیادت سفیر علی جہانگیر صدیقی نے کی۔ وفد میں بین الاقوامی سطح کی ممتاز شخصیات شامل تھیں جن میں برطانوی دارلامراء کے رکن سائمن سٹیونز، آسٹرین پارلیمان کے رکن وائٹ ویلَنٹین ڈینگلر، جیگ سا گوگل کی سی ای او یاسمین گرین، ایکس باکس مائیکرو سافٹ کی وائس پریزیڈنٹ فا طمہ کاردار، ملٹی فیتھ الائنس کے سی ای او شیڈی مارٹینی، ایجوکیشنل سپر ہائی وے کے سی ای او ایوان مارویل اور ناروے کے رکن پارلیمان ہیمانشوگلاٹی شامل تھے۔ وزیر خزانہ نے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ اس سے پاکستان کے اقتصادی منظرنامے اور سرمایہ کاری کی صلاحیت سے متعلق عالمی سطح پر سمجھ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ وزیرخزانہ نے بہتر ہوتے ہوئے جیوپولیٹیکل حالات، امریکا، چین اور سعودی عرب کے ساتھ مضبوط ہوتے تعلقات، اور سی پیک فیز 2 کے آغاز پر روشنی ڈالی اورکہاکہ یہ بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری، برآمدات پر مبنی صنعتی زونز اور مشترکہ منصوبوں پر مرکوز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع اور گہرا کرنے، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کے نفاذ، کم ضابطے والے شعبوں جیسے رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ہول سیل، ریٹیل کو ٹیکس نیٹ میں لانے، اور ٹیکس کی تعمیل میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے پنشن اصلاحات میں پاکستان کی پیش رفت، نئے ملازمین کے لیے کنٹریبیوٹری سکیمز کی جانب منتقلی، اور طویل مدتی مالی ذمہ داریوں کے حل کے لیے آئندہ اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔ سوال و جواب کے سیشن کے دوران وزیر خزانہ نے پاکستان کی امریکا کے ساتھ ٹیرف مذاکرات، قرضوں کے رحجان، بینکاری کے ضابطوں، سی پیک کے تحت بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری اور طویل مدتی ترقی کے باہمی تعلق سے متعلق سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آئندہ برس بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹس میں دوبارہ داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں پانڈا بانڈز کے ممکنہ اجرا اور مقامی مالیاتی منڈیوں کو وسعت دینے کے لیے مختلف اقدامات شامل ہیں۔دریں اثناء وزیر خزانہ سے ڈنمارک کی نئی سفیر ماجا مورٹینسن نے ملاقات کی، فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید مضبوط بنانے کا عزم کیا۔