Express News:
2025-11-18@23:46:51 GMT

انڈیا پاکستان کی واضح دفاعی برتری ہضم نہیں کر پائیگا

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

لاہور:

گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان کی واضح دفاعی برتری ہضم نہیں کر پائے گا، کسی صورت نہیں ہوگا خصوصاً نریندر مودی اینڈ کمپنی کبھی ہضم نہیں کر پائے گی. 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر صلاحیت ہوتی تو یقین کریں نیکسٹ ڈے سیز فائر نہ ہوتا وہاں سے اٹیک ہوتا.

 

تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ مودی نے جو زبردست کام کیا پورے بھارت کو مندر کا گھنٹہ بنا دیا ہے جو آرہا ہے وہ بجا رہا ہے، ٹرمپ سے لیکر نیپال اور میانمار تک، نیپال اور میانمار بھی اب مودی اور بھارت کو آنکھیں دکھا رہے ہیں. 

تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ بات سمپل سی ہے جو کچھ مودی گودی میڈیا نے کیا ، انھوں نے اپنے ساتھ جو کیا اس کو انٹرنیشنل میڈیا آڑے ہاتھوں لے رہا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں نہ کہ ٹکا کے بے عزتی کر رہا ہے.

تجزیہ کار خالد قیوم نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اگر آپ دیکھیں تو بھارت نے پہلگام کا جو ڈرامہ رچایا اور اس کی بنیاد پر نریندر مودی نے جس طرح پاکستان پر جنگ مسلط کی اب نریندر مودی جو ہے اس جنگ کے بوجھ تلے خود آ چکا ہے، اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ،دنیا پاکستان کی تجارت کی طرف دیکھ رہی ہے. 

تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ دیکھیں بانی پی ٹی آئی نے اب جو مذاکرات کے لیے کہا ہے جیسا کہ ان کے نمائندے گنڈاپور نے باہر آ کر کہا ہے کہ گورنمنٹ کے ساتھ بامعنی مذاکرات ہونے چاہییں جو نتیجہ خیز ہوں، پی ٹی آئی کی طرف لاسٹ ٹائم جو بات چیت تھی کہ باہر آ کر کچھ اور بتاتے ہیں، اندر بات کچھ اور ہوتی ہے تو اس میں دیکھنا پڑے گا کہ کون ہے جو ان کا نمائندہ جو آکہ صحیح بات بتاتا ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تجزیہ کار نے کہا کہ رہا ہے

پڑھیں:

بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا۔ وفاقی دارالحکومت میں اردن کے شاہ دوم کے ظہرانے کے موقع پر ایوان صدر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے غزوہ احد سے متعلق بات کرتے ہوئے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اورکہا کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ دشمن پر پھینکی مٹی کو بھی میزائل بنا دیتا ہے، بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ پاکستان نے اپنے دشمن کو دھول چٹائی ہے۔

 پاکستان کے ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو نشانِ امتیاز عطا کیے جانے کی تقریب بظاہر ایک سفارتی روایت تھی، لیکن اس موقع پرآرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکے خیالات نے اسے ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کے الفاظ نہ صرف پاکستان کی عسکری سوچ کا اظہار ہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا اور ہمارے قومی اعتماد کا اشاریہ بھی ہیں۔

جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب اسی انداز میں دیا جائے گا جیسا کہ مئی میں دیا گیا، تو یہ بیان دراصل دشمن کے لیے پیغام اور عوام کے لیے یقین دہانی دونوں رکھتا ہے۔ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی نزاکت ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اثرات سفارتی سرحدوں سے پار جاتے ہیں اور ہر بیان عالمی فضا میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

آج جب ہم خطے کی تزویراتی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سادہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک مستقل رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ سرحدوں پرکشیدگی، سیاسی بیانات، جارحانہ پالیسیاں اور پراپیگنڈا جنگیں ہمیشہ سے تعلقات کو پیچیدہ بناتی رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستانی قیادت کا یہ کہنا کہ بھارت کی جارحیت کا جواب دیا گیا اور آیندہ بھی دیا جائے گا، یہ صرف عسکری پالیسی کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی ترجیحات کی نشاندہی بھی ہے۔

وہ مئی جس کا آرمی چیف نے ذکرکیا، اس میں جوکچھ ہوا، وہ خطے کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اگرچہ عسکری کارروائیوں کی تفصیلات عمومی طور پر منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دفاعی سطح پر اپنی صلاحیت دکھائی اور دشمن کو جواب دیا۔

 لیکن اس موقع پر ایک اہم پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جنگ سے گریز کی اپنی دیرینہ پالیسی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشتیں جنگ سے کمزور ہوتی ہیں، معاشرے بکھرتے ہیں اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کبھی کمزور ثابت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب حالیہ دنوں میں جب افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے، تو اس نے نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا۔ پاکستانی قیادت کے مطابق یہ حملے محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہری بھارتی سازش کا نتیجہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان سرزمین کو بھارت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراکسی وارکا حامی رہا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں تخریب کاری ہو، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی یا افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ہمیشہ ایسے عناصر کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔

اب جب کہ بھارت کو خطے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا محاذ درکار تھا، تو اس نے افغان طالبان حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے افغان حکام کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے، لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔

سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لے کر طالبان کے اقتدار کے خاتمے تک، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے تعلیمی، طبی اور معاشی سہولیات فراہم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کی۔ چاہے طالبان حکومت کی بحالی کی بات ہو یا افغانستان کی تعمیرِ نو، پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک کی مدد کو اپنا اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھا، لیکن افسوس کہ آج وہی افغانستان پاکستان کے احسانات کو بھول کر دشمن کی زبان بول رہا ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اور افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جو برادر ملک سے ہرگز متوقع نہ تھی۔ افغان طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے تسلیم کیے جانے کے لیے پاکستان کی حمایت چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف وہ پاکستان مخالف گروہوں کو خاموشی سے سہارا دے رہی ہے۔

طالبان قیادت جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کا معاشی اور سفارتی وجود ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود وہ داخلی دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اپنے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنی داخلی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے مفاد کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

 یہ صورتحال خطے کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے جو ایک طرف افغانستان کو اشتعال دلا رہا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان حقیقت پسندانہ سوچ اپنائے، اگر افغان طالبان واقعی اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں، تو انھیں بھارت کی چالوں کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ آج کا افغانستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا آلہ کار بننا چاہتا ہے یا ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اپنے برادر ہمسائے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی چالوں سے ہوشیار رہے کیونکہ بھارت کبھی افغانستان کا خیر خواہ نہیں رہا، اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، اگر افغانستان نے پاکستان کے احسانات کو بھلا کر دشمن کے ایجنڈے پر چلنا جاری رکھا تو نقصان اسی کا ہوگا، کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے عوام، اور اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امرکو ظاہرکرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری برتری کا سوال ہمیشہ سے میڈیا اور عوامی مباحث میں چھایا رہتا ہے۔ بھارت دفاعی بجٹ میں خطے کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جب کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود ایک مؤثر دفاع قائم کیے ہوئے ہے۔

اس کا سبب نہ صرف ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری ہے بلکہ ہماری عسکری حکمتِ عملی، جدید تربیت اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابیاں بھی ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کے وسائل بھارت کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن جنگ صرف وسائل سے نہیں جیتی جاتی۔ عزم، حکمت اور اتحاد بھی اسی طرح اہم ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اظہار آرمی چیف کے بیان میں نمایاں تھا۔ حرف آخر، یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا دفاع عوام کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں گے، تو کوئی بیرونی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی فوجی طاقت کی نئی درجہ بندی: 2025ء کا منظرنامہ
  • پاکستان کی فتح اور مضبوطی پر بلاول کا بھارت کے لیے واضح پیغام
  • دبئی ایئر شو میں بھارتی فضائیہ کی جگ ہنسائی، بھارتی لڑاکا طیارہ  آئل لیک کا شکار
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • مودی سرکار کی کینیڈا اور امریکا میں مبینہ مداخلت پر نئے انکشافات
  • موضوع: عراق انتخابات، عوام کی جیت
  • پارلیمنٹ جب چاہے گی آئین میں ترمیم کرے گی، طلال چوہدری کا ججز کو واضح پیغام
  • بھارت کی فوج میں بڑھتی بےچینی، بھارتی آرمی چیف کا ملکی دفاعی صنعت پر عدم اعتماد کا اظہار
  • پاکستان، افغانستان کشیدگی، ثالثی کیلئے تیار، روس: فیلڈ مارشل نے دہشتگردی قبول نہ کرنے کا واضح پیغام بھیجا، محسن نقوی
  • بہار الیکشن میں مودی نے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا