پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں، افواج کی پیشہ ورانہ کارکردگی، اور قومی یکجہتی مثالی ہیں، بیرسٹر علی ظفر
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 مئی2025ء) سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتیں، افواج کی پیشہ ورانہ کارکردگی، اور قومی یکجہتی مثالی ہیں،پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہیں بلکہ اعلیٰ تربیت یافتہ اور ہر چیلنج کا مؤثر جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ وطن عزیز کے دفاع میں فوج، بحریہ، فضائیہ اور انٹیلیجنس ادارے جس جذبے، نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ مہارت سے کام کرتے ہیں، وہ دنیا بھر میں قابلِ تحسین ہے۔
ہر آزمائش کی گھڑی میں قوم نے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا کہ پاکستان ایک متحد، پرعزم اور خوددار قوم ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی یکجہتی اور افواجِ پاکستان کی قربانیوں نے ملک کو محفوظ بنانے اور عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ان دوست ممالک پر فخر ہے جو ہر مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے شہدا پر فخر ہے، ہم ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہیں۔ ان کی قربانیاں اس قوم کا فخر اور سرمایہ ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنی افواج اور میڈیا پر بھی فخر ہے جنہوں نے ہر محاذ پر مکمل پروفیشنلزم کا مظاہرہ کیا۔بھارت کے جارحانہ اقدامات پر بات کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ بھارتی حکومت کو اپنے رافیل طیاروں اور مہنگے ہتھیاروں پر غرور تھا، مگر ان کی جانب سے رات کی تاریکی میں کیا گیا حملہ ایک بزدلانہ فعل تھا۔ ہماری فضائیہ نے ایک ہی رات میں ثابت کیا کہ ہم نہ صرف چوکنا ہیں بلکہ انتہائی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے شہریوں کو نشانہ بنانے کے برعکس، پاکستان نے عالمی اصولوں کے مطابق صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ہمارا جواب ایسا تھا کہ دشمن خوفزدہ ہو کر جنگ بندی کی بات کرنے لگا۔کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ مودی حکومت کا خیال تھا کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح سے ختم ہو جائے گا، مگر پاکستان کے مؤقف اور سفارتی کوششوں نے اسے دوبارہ عالمی ایجنڈے پر لا کھڑا کیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے اور عالمی برادری نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ ہم نے ثابت کیا کہ امن ہماری ترجیح ہے، مگر اپنی خودمختاری کے تحفظ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بیرسٹر علی ظفر انہوں نے کہا پاکستان کی پیشہ ورانہ نے کہا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے‘بیرسٹر عقیل ملک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز) وزیرمملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کی بالادستی ہے اور نو ججوں کا فیصلہ ہے، فیصلے کسی کی مرضی اورمنشا کے مطابق نہیں ہوتے، اپوزیشن فیصلہ کو متنازع بنانے کی بجائے اس کا خیرمقدم کرے۔ ہفتہ کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر نظرثانی کیس میں نو ججز نے متفقہ فیصلہ دیا ہے جسے چھ اور سات ججوں کا فیصلہ نہیں کہنا چاہیے، سات ججز نے اکثریت میں فیصلہ لیا جبکہ دو ججز نے 12 جولائی کے اپنے فیصلہ کو تبدیل کیا ہے اس لئے اسے نو ججوں کا فیصلہ تصور کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی نے آزاد الیکشن میں حصہ لیا، ان کی لیگل ٹیم کے پاس جب کوئی دلیل نہیں بچی تو انہوں نے میں نہ کھیلوں کی پالیسی اختیار کی اور اب وکٹ اٹھا کر بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بچوں کی طرح طرز عمل اختیار کر رہے ہیں۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ اپنی منشا کے مطابق کیس لے کر گئے تھے جہاں پر پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا اس پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے۔بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ یہ کوئی صوبائی نہیں بلکہ ایک قومی ایشو تھا اس میں قومی اسمبلی، پنجاب، کے پی، سندھ اور بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق معاملہ تھا۔اکثر قومی معاملات کو ترجیحا اسلام آباد ہائی کورٹ لے جایا جاتا ہے لیکن انہوں نے اپنی خواہش پر یہ کیس پشاور ہائیکورٹ دائر کیا جس پر تیس صفحات پر مشتمل فیصلہ آیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51اور 106مخصوص نشستوں کو ریگولیٹ کرتے ہیں جوبالکل واضح ہیں، مخصوص نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جاسکتا لیکن بیرسٹر گوہر شاید سمجھتے ہیں کہ یہ نشستیں خالی چھوڑنی چاہئے تھیں لیکن ایسا کیسے ممکن ہے۔ جب یہ قانون بنا تو اس میں اخذ کیا گیا تھاکہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جائیں گی لیکن بیرسٹر گوہر اپنی بے ضابطگیوں ،قانونی سقم اور خامیوں کو عدالت پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے کی بجائے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا جو بروقت پروسیجر مکمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں کرنا پڑا۔ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کہتا ہے کہ جب کوئی پارٹی کا سربراہ مقررہ وقت کے اندر اپنا پروسیجر مکمل نہیں کرتا تو یہ ان کی اپنی غلطی ہے، اسے پرانی تاریخوں میں جمع تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پشاور ہائیکورٹ کے پانچوں ججز اس فیصلہ پر متفق تھے جنہوں نے آئین کی مکمل تشریح میں فیصلہ سنایا اور یہ کہاکہ یہ پروسیجرل غلطی ہے جس کی تلافی مقررہ مدت کے بعد نہیں کی جاسکتی۔ بیرسٹر عقیل نے کہا کہ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنا کر آئین کا بول بالا کیا اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ کی روشنی میں آئین کو ری رائٹ کرنے کا اختیار کسی کوحاصل نہیں اور نہ ہی کوئی جرأت کرسکتا ہے، آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمان کوحاصل ہے۔ وزیرمملکت نے کہا کہ اپنے سارے دلائل دینے کے بعد بیرسٹر گوہر اب کہہ رہے ہیں کہ اس بینچ کو یہ کیس سننے کا اختیار نہیں تھا اور فیصلہ کو تسلیم کرنے کی بجائے متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آئین اور قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، آئین اور قانون مقدم ہے اور اس کی اصل روح کے مطابق اس فیصلہ پر عمل ہوگا، میں نہ مانوں اور میں نہ کھیلوں سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن سے کہتا ہوں کہ خوش آئند فیصلے کو تسلیم بھی کریں اور اس کا خیرمقدم بھی کریں۔ ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹیوں کو مخصوص نشستوں کاحصہ دیا جائے اور یہ عمل مکمل ہوجائے گا۔